سی ٹی ڈی نے ایک دفعہ پھر پہلے سے زیر حراست لاپتہ افراد کو قتل کرکے اسے مقابلہ قرار دے دیا، زرائع کے مطابق گذشتہ دنوں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں سی ٹی ڈی کے جعلی مقابلے میں قتل ہونے والے افراد پہلے سے زیرحراست لاپتہ افراد تھے۔
سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ کوئٹہ میں سی ٹی ڈی اور دہشتگردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں پانچ دہشتگرد ہلاک ہوئے ہیں، تاہم حکام نے مذکورہ افراد کی شناخت ظاہر نہیں کی تھی۔
دی بلوچستان پوسٹ تحقیقات کے بعد ایک شخص کی شناخت کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جن کی شناخت بلوچستان کے ضلع خاران کے نوجوان قدرت اللہ ولد محمد وارث مُلازئی کے نام سے ہوئی ہے۔
قدرت اللہ کو تین ماہ قبل سیکورٹی فورسز نے خاران میں اُن کے گھر پر چھاپہ مارکر لاپتہ کردیا تھا جس کو دو دن قبل سی ٹی ڈی نے مقابلے کا نام دے کر قتل کردیا۔
خیال رہے کہ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی سی ٹی ڈی زیرحراست لوگوں کو اسی طرح قتل کرنے میں ملوث رہی ہے۔
رواں سال 18 جنوری کو دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے مشرقی بائی پاس پر پاکستانی فورسز ایگل اسکواڈ نے دوران چیکنگ دو نوجوانوں سمیع اللہ پرکانی اور جمیل احمد پرکانی کو گرفتار کرنے کے بعد سی ٹی ڈی کے حوالے کردیا تھا۔ ایگل فورس نے دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ افراد سے دستی بم برآمد کیے گئے۔
دونوں نوجوانوں کو بعد ازاں سی ٹی ڈی نے مستونگ میں دیگر تین افراد جو پہلے ہی زیرحراست تھے، کے ہمراہ جعلی مقابلے میں قتل کردیا۔
اگست 2020 میں اسی نوعیت ایک واقعہ راجن پور میں پیش آیا جہاں پولیس نے پانچ افراد کو جھڑپ میں مارے جانے کا دعویٰ کیا بعد ازاں بلوچ سیاسی جماعتوں نے پولیس دعووں کو مسترد کردیا تھا۔
گذشتہ ماہ یعنی جون کے مہینے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا کہ آپریشن کے دوران فورسز اور مسلح افراد کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں 4 افراد مارے گئے جب کہ کارروائی کے دوران 6 افراد فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ دہشتگردوں کے زیر استعمال کمپاؤنڈ سے بھاری تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا ہے۔ سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا کہ مسلح تنظیم کے ارکان گذشتہ ایک ماہ سے فورسز پر حملوں میں ملوث رہے ہیں۔
دوسری جانب دی بلوچستان پوسٹ تحقیقات کے بعد مذکورہ افراد میں سے کم سے کم ایک شخص کی شناخت کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ جو جبری طور پر سالوں سے لاپتہ تھا جبکہ دیگر تین افراد بھی بڑھے ہوئے بالوں، داڑھی اور حلیئے سے پہلے سے زیر حراست افراد لگتے ہیں۔
ذرائع نے ٹی بی پی کو بتایا کہ مارے جانے افراد میں ملا مادو مزارانی مری شامل ہیں جنہیں دو سال قبل کوئٹہ میں جتک اسٹاپ پر واقع ان کے گھر سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا تھا۔