کراچی: عالم دین و مفکر مولانا مرحوم عبدالحق بلوچ کے افکار و خطبات پر مشتمل کتاب کی تقریب رونمائی

568

 

کراچی پریس کلب کے ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام معروف عالم دین و مفکر مولانا عبدالحق بلوچ کے افکار و خطبات پر مشتمل کتاب کی تقریب رونمائی کا انعقاد کیاگیا۔

تقریب کے سے خطاب کرتے ہوئے عوامی ورکرز پارٹی کے صدر میر یوسف مستی خان نے کہا کہ مولانا عبدالحق بلوچ عظیم عالم دین و قومی رہنماء تھے، انہوں نے ایم این اے کے دوران ریکوڈک کے معاملے پر کورٹ میں پٹیشن دائر کی جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ نے اس پٹیشن کو خارج قرار دیا جس کے بعد سپریم کورٹ کی جانب ہم نے رخ کیا اور ریکوڈک میں سے بلوچستان کو حق دلوانے کیلئے جدوجہد کی، انہوں نے قومی وسائل میں بلوچستان کو حق دلوانے کیلئے جدوجہد کی، جماعت اسلامی میں ہونے کے باوجود ہمارے ساتھ انکے اچھے تعلقات تھے کیونکہ وہ ایک عظیم عالم دین اور معاملہ فہم انسان تھے وہ انتہاء پسندی سے دور تھے جبکہ آج لوگوں میں تشدد کا رجحان بڑھ گیا ہے جس سے لوگ ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مولانا عبدالحق بلوچ کے افکار پر چلنے کی ضرورت ہے، بلوچستان کو آج مولانا عبدالحق بلوچ کی اشد ضرورت تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم بنیادی طور پر پاکستان کے خالق ہیں مگر ہمارے ساتھ ناروا سلوک کیاجارہا ہے جس سے مزید دوریاں جنم لے رہے ہیں، ملک کو آج ان معاہدات کی بنیاد پر چلانے کی ضرورت ہے جس سے وحدت پیدا ہوسکے ناکہ مزید نفرتیں جنم لیں۔

جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر مولانا معراج الہدی صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا عبدالحق بلوچ کے افکار آج بھی زندہ ہیں جماعت اسلامی بلوچستان میں جاری ظلم وجبر کیخلاف ہمیشہ صدا بلند کرتی رہے گی، بلوچستان کے مسئلے کا حل طاقت نہیں بلکہ محبت کے ذریعے ہم دوریاں ختم کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مولانا عبدالحق بلوچ کے افکار و خطبات پر مشتمل کتاب ایک عظیم تحفہ ہے ڈاکٹر سلیم بلوچ مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے کتاب کی اشاعت کو ممکن بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔

نامور قلمکار وسیاسی رہنماء عبدالرحیم ظفر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا عبدالحق بلوچ عظیم سرمایہ تھے وہ ناصرف مذہبی رہنماء تھے بلکہ ایک سیاسی وقومی استاد تھے لیکن کاش کہ ہم مرنے سے پہلے لوگوں کی قدر کرتے اور انہیں انکی زندگی میں اتنی اہمیت دیتے جو آج ہم مرنے کے بعد لوگوں کو دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عثمان کاکڑ کی شہادت کے بعد انہیں اتنی زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا اگر انکی زندگی میں ہم اسے اتنی اہمیت دیتے تو شاید وہ آج بھی زندہ ہوتے اور انکے قاتل انہیں معاف کرتے مگر بدقسمتی سے ہم مرنے کے بعد لوگوں کو یاد کرتے ہیں اور اہمیت دیتے ہیں۔

معروف ادیب و محقق یوسف عزیز گچکی نے کہا کہ مولانا عبدالحق بلوچ کو انکے گھر سے تربیت ملی تھی انکے والد محترم بھی عظیم انسان اور عالم دین تھے۔

جنرل ریٹائر عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ مولانا عبدالحق بلوچ کو گوادر کے مسائل پر ایک کانفرنس میں سننے کا موقع ملا وہ مدلل انداز میں اپنی بات سمجھاتے تھے، وہ مذہبی اور علمی شخصیت تھے، انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے آج اچھے لوگوں کی کمی سے سیاست بھی غیر سیاسی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے بلکہ آج سیاست کا حقیقی چہرہ مسخ ہوگیا ہے۔

پروگرام سے مولانا عبدالسلام عارف، ڈاکٹر سلیم بلوچ، مولانا ہدایت الرحمن بلوچ، فرزند مولانا عبدالحق بلوچ حیات جان بلوچ، مرکزی جمعیت اہل حدیث بلوچستان کے رہنماء مولانا عبدالغفار بلوچ نے بھی خطاب کیا جبکہ پروگرام میں معروف سیاسی و سماجی رہنماء نواب شمبیزئی، نیشنل پارٹی کے رہنماء فیصل منشی محمد، فدا بلیدی، مبارک دشتی، مرکزی جمعیت اہل حدیث کیچ کے امیر مولانا فضل الرحمن زامرانی، جنرل سیکریٹری مولانا حق نواز بلوچ، یلان زامرانی، تربت پریس کلب کے سینئر صحافی اسداللہ بلوچ، دی اوئیسس اسکول گوادر کے ڈائریکٹر حنیف آسکانی، فدا احمد، معروف سیاسی وادبی جہدکار کامریڈ عبدالواحد بلوچ، لالا فقیر محمد، جماعت اسلامی حب کے رہنماء مولانا اسماعیل بلوچ، شمروز منشی محمد بلوچ، بہرام بلوچ، ولی شمبیزئی، نوجوان طالبعلم آصف بلوچ، سیٹھ یاسین بلوچ، نثار موسیٰ، رضوان نور، عمران فقیر، بدرعالم و دیگر شریک تھے۔

پروگرام میں تلاوت قرآن کی سعادت حافظ خبیب نے حاصل کی جبکہ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض ابوبکر بلوچ نے سرانجام دیئے۔