سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کے 12سال مکمل ہونے پر ایک ریلی نکالی گئی اور احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق پیر کے دوپہر کراچی آرٹس کونسل سے لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوکر ایک ریلی نکالی گئی، ہاتھوں میں پلے کارڈز، بینرز اور لاپتہ افراد کی تصویریں اٹھائے مظاہرین نے جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرہ بازی کی –
ریلی میں خواتین اور بچوں سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگوں اور لاپتہ افراد لواحقین شریک تھے-
ریلی کے شرکاء شہر کے مختلف سڑکوں سے مارچ کرتے ہوئے کراچی پریس کلب کے سامنے پہنچ گئے جہاں احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا گیا –
اس موقع پر لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سمی بلوچ نے کہا کہ آج بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں جبری گمشدگیوں کے واقعات سنگین صورتحال اختیار کرچکی ہے جہاں لاپتہ افراد کی فہرست روزانہ کی بنیاد پر دراز ہوتی جاری ہے بین الاقومی قوانین سمیت آئین پاکستان اور خصوصاً موجودہ حکومت نے جبری گمشدگیوں پر قانون سازی ضرور کی ہے مگر اس سنگین جرم کی عملاً روک تھام کے لیے کوئی خاطر خواہ سنجیدگی نظر نہیں آرہی ہے۔
آج لاپتہ افراد کا مسئلہ صرف بلوچوں کا نہیں ہے بلکہ سندھی پشتون شیعہ اور پنجابی مِسنگ پرسن کی صورت میں دیکھنے میں آرہی ہے ملک کا کوئی ایسا صوبہ نہیں جہاں لوگوں کو لاپتہ کرنے کے واقعات نہیں ہورہے ہیں ۔
میرے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی گمشدگی کو بارہ سال مکمل ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو بلوچستان کے علاقے اورناچ خضدار میں سرکاری ڈیوٹی کے دوران سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا اور آج بارہ سال گزرنے کے بعد میرے والد کی کوئی خبر نہیں آئی۔
انکا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے ملک کی شہری کی حیثیت سے کوئی ایسا دروازہ نہیں چھوڑا جہاں سے ہمارے والد کی بازیابی کیلئے کوئی امید نظر آتی تھی۔
ان بارہ سالوں میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بنائے گئے کمیشن کے سامنے پیش ہوتے رہیں، عدالتوں کے چکر کاٹے سپریم کورٹ ہائی کورٹ کمیٹیوں کے سامنے پیش ہوتے رہے میڈیا کے ذریعے مقدمہ لڑا مگر ان بارہ سالوں میں ہمیں دلاسے تسلیاں اور ہم سے جھوٹے وعدے کیے گئے ۔
سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ چند ماہ پہلے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ہم سے دوران ملاقات مجھ سے وعدہ کیا کہ میرے والد کی بازیابی کے لیے ذاتی دلچسپی لیں گے مگر کئی مہینے گزرنے کے باوجود وزیر اعظم کی طرف سے مجھ سے رابطہ نہیں کیا گیا ۔
مظاہرے میں سمی دین نے کہا کہ ہم نے تمام تر ذرائع سے رجوع کیا مگر ہمیں انصاف نہیں ملا، اب ہمارے سوائے خودسوزی کے کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔
احتجاجی مظاہرے میں لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی اہلیہ، بزرگ سیاسی رہنما یوسف مستی خان، بلوچ مسنگ پرسنز کے لواحقین، وائس فار مسنگ پرسنز کے رہنماوں اور متاثرہ افراد نے بھی اظہار خیال کرتے جبری گمشدگیوں کے خلاف پیش ہونے والے قوانین پر عمل درآمد کرانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ صرف کاغذ کے ٹکڑے پر انسانی اقدار کی پاسداری نہیں بلکہ عملی طور پر یہاں انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے –
دریں اثناء سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر
#SaveDrDeenMohdBaloch
ہیش ٹیگ پر مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھایا –