سی پیک نہیں یونیورسٹی چائیے، دے دو- یارمحمد یاری

196

سی پیک نہیں یونیورسٹی چائیے، دے دو

یارمحمد یاری

بلوچستان پوسٹ

آج سے لگ بھگ ایک سال پہلے میرا جانا گوادر ہوا، وہاں تقریباً 12 سالہ لڑکے سے میری ملاقات ہوئی جو اپنے باپ کے ساتھ دریا کے کنارے ماہی گیری میں مصروف تھا۔ تو میں وہاں دریا کے کنارے ہاتھ میں سگریٹ لئے منہاج مختار کا ایک خوبصورت غزل سن رہا تھا کہ اچانک وہ بچہ میرے پاس آکے بیٹھ گیا۔ تو نام پوچھنے کے بعد میں نے اس سے سوال کیا کہ بیٹا کیا تم اسکول میں پڑھتے ہو؟ اس نے 10 سیکنڈ بعد اپنے ہاتھ سے باپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ میرا باپ ہے اور وہ ایک ماہی گیر ہے اور میں اس کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ باپ نے اسکول میں اس لیئے نہیں بھیجا تاکہ میں اس کا ہاتھ بٹانے میں مدد کروں اور دو وقت کی روٹی کما سکوں۔ یہ سننے کے بعد میں خیالوں میں گم ہو گیا۔

اچانک اس بچے نے مجھ سے سوال کیا کہ یہ سی پیک کیا ہوتا ہے؟
میں نے اس کو جواب دیا کہ سی پیک (چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور) ایک نام نہاد ون بیلٹ ون روٹ ہے۔ پہلے چائنہ سمندر کے زریعے تجارت کرتا تھا اور اس کی وجہ سے ان کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تو ان دو ممالکوں (پاکستان اور چائنا) نے ایک منصوبہ پہ دستخط کیا اور اب لینڈ اور سڑک کے ذریعے سے تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ اور ان دونوں ممالکوں نے تقریباً 62 بلین ڈالر اب تک خرچ کی ہے۔

تو اس نے مجھ سے اک اور سوال کیا کہ یہ 62 بلین ڈالر کتنے ہوتے ہیں؟ میں نے اس کو کہا تقریباً 9 ارب 72 کروڑ کم وبیش۔ پھر اس بچے نے کہا کہ اگر پاکستان کے پاس اتنے پیسے ہیں تو ہم اتنے غریب اور بھوکے پیاسے کیوں ہیں۔ اتنے پیسے ہونے کے باوجود میرے ابا کو ایک نوکری نہیں دے سکتے تاکہ میں یہ کام چھوڑ کر پڑھائی کر سکوں؟ یہ سن کر مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا۔

گوادر کے لوگ آئے روز سڑکوں پر کبھی بےروزگاری، پانی، ماہی گیری، یونیورسٹی اور نجانے کتنے مسائل کیلئے سراپا احتجاج ہیں۔ کہنے کو پاکستان کے سیاستدان یہ کہنے کو تھکتے نہیں ہیں کہ گوادر و بلوچستان ترقی کر رہے ہیں اور وہاں کے لوگ امن کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر ان کو میں بتاتا چلوں کہ یہاں ایک وقت کی روٹی کیلئے لوگ روز در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ سی پیک کی جڑ گوادر کے لوگ پانی کیلئے ترس رہے ہیں۔ گوادر میں ایک یونیورسٹی نا ہونا پاکستان کیلئے ایک سوالیہ نشان ہے۔ ریاست بلوچوں کو تعلیم فراہم کرنے سے اتنا اتراتا کیوں ہے؟ کیا پاکستان کو ڈر ہے کہ تعلیم سے بلوچوں کے اندر کہیں شعور پیدا نہ ہو جائے اور بلوچ قوم ان کو سوال نا کریں؟

کہنے کو گوادر میں صرف دو کیمپسز ہیں ایک نمل کا اور دوسرا تربت یونیورسٹی کا۔

یونیورسٹی آف تربت کا کیمپس 1 جنوری 2017 کو سابقہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی زیرِ قیادت میں بنایا گیا۔ جس میں تقریباً چوبیس ڈیپارٹمنٹ ہیں اور 16 پرمننٹ ٹیچرز ہیں۔ ایک ذرائع کے مطابق یونیورسٹی کی مکمل تعداد 350 سے 400 کے درمیان ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں ڈیپارٹمنٹ اور ٹیچرز کی کمی کی وجہ سے طلباء کی تعداد بڑھ نہیں رہی۔

نمل یونیورسٹی 2018 کو تعمیر کیا گیا۔ اور اس کا یہی حال ہے۔
یہ انتہائی تشویشناک ہے کہ پوری پاکستان گوادر کی وجہ سے ترقی کرنے کے باوجود یہاں کی تعلیمی نظام انتہائی فرسودہ ہے۔ گوادر سمیت پورے بلوچستان کے طلباء نے سوشل میڈیا پہ گوادر میں یونیورسٹی اور تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کیلئے بار بار مہم چلائی مگر سیاستدان اور بلوچوں کے لاشوں پہ سیاست کرنے والے خاموش ہیں۔

پارکس اور کرکٹ اسٹیڈیم ایک ہفتے میں تیار ہو جاتے ہیں مگر 27 مارچ 1948سے لے کر 2021 تک گوادر میں ایک یونیورسٹی نہیں ہے جو غلامی کی واضح اور جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کب تک یہ کالونیل نظام چلتا رہے گا؟ گوادر میں پارکس اور کرکٹ اسٹیڈیم نہیں، بلکہ یونیورسٹی چاہیے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں