منتظر بیٹی
تحریر- افروز رند
دی بلوچستان پوسٹ
خط کے چھوٹے سے تراشے میں نہیں آئیں گے
غم زیادہ ہیں لفافے میں نہیں آئیں گے
جب اپنے لاپتہ بلوچون کے فیملیوں کی ویڈویوز، تصاویر اور بینروں کو دیکھتی ہوں’ آنکھیں مدھم ہوجاتی ہیں’ دل کی دھڑکن تڑسے دھڑکنا شروع ہوجاتی ہے ، زاکر مجید کی ماں کی ویوڈیو دیکھ رہی تھی موبائل ہاتھ سے چھوٹ گیا، مجھے ٹھنڈے پیسنے آنے شروع ہوگئے ‘ جیسے لگتاتھا کہ میرے جسم کے اندر انٹارکٹیکا کی مائنس ڈگری پیوست ہوگئ ہو ‘ ویسے بھی دکھوں کو زبان سے بیان کیا جا سکتاہے ۔
میری روح اور زبان کو فریز میں رکھے ہوئے کافی وقت ہوچکی ہے اور اب وہ منجمند ھوچکی ہیں ، جن لوگوں نے یہ قدم اٹھاکر میری زبان فریزکرائی ان کا خیال ہے کہ گلوبل وارم کی بڑھتی ہوئی اثرات کو کم کرنے کیلئے یہ ایک بہترین طریقوں میں سے ایک ہے جوکہ مسلسل نتیجہ بھی دے رھاہے۔
بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں نہ صرف خبر لاپتہ ہوجاتے ہیں بلکہ خبر کرنے والے خود خبر بن جاتے ہیں ‘ غیر جانب دار صحافیوں کے رشتہ داروں کو شمالی علاقہ جات کی سیر کروائی جاتی ہے، جب وہ انہیں یقیں دلاتے ہیں کہ وہ آئندہ غیر جانب داری کو مات دینگے تو پھر ان کے رشتہ دار یا بھائی ‘ بیٹا’ واپس گھر آجاتے ہیں ‘ اس وقت نہ صرف پاکستان صحافت کیلئے دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک ہے ‘ بلکہ انسانی حقوق کے حوالے دنیا کے خطرناک ترین خطون میں سے ایک جانا جاتاہے۔ جبکہ سندھ کے دیہی علاقوں’ پختون خواہ اور بلوچستان میں عملا میڈیا پر پابندی عائد ہے اور اسے ایک بیانیہ کے علاوہ کسی اور خبر کو شایع کرنے کی اجازت نہیں ‘ جبکہ بلوچستان کے تمام اضلاع عملا ریاستی فوج کے چھاونیوں میں تبدیل ہوچکے ہیں ‘ جس پر بات کرنا اپنے جان گنوانے کا مترادف ہے اس لئے جو مقامی صحافی یہ کام کرے پھر اس کو بھی دھند اپنے لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
آج سے بارہ سال قبل ٹھیک جون کے مہینے کی 28 تاریخ کو خضدار کے علاقے اورناچ سے رات کے وقت پاکستانی خفیہ اداروں کے نقاب پوش اہلکاروں اور ایف سی کے دستون نے ڈاکٹر دیں محمد کو اٹھاکر اپنے ساتھ لئے گئے ‘ ڈاکٹر دیں محمد کا گناہ یہ تھا کہ وہ ایک نیشنلسٹ تنظیم سے وابستہ تھا جس کا مقصد بلوچون کیلئے حقوق کا مطالبہ تھا تاہم یہ ریاست کو ہضم نہیں ہوا ‘ کچھ اہم زرائع کے مطابق ڈاکٹر دیں محمد کو شروع میں آئی ایس آئی کے اس وقت کے بدنام زمانہ کیمپ توتک میں اپنے ہمنوا شفیق کی قلع میں شفٹ کیا تھا پھر کچھ دن بعد اسے کوئٹہ لے گئے ‘ جب کہ ریاستی ادارے بند دروازوں کے پیچھے اس بات کو مانتے ہیں کہ ھزاروں کی تعداد میں بلوچ ان کے قید میں ہیں ‘ جس دن ڈاکٹر دیں محمد کو ریاستی اھلکار لئے گئے اس دن سے لیکر آج تک ڈاکٹر صاحب کی فیملی انتہائی کرب سے گزر رہی ہے ‘ سمی اور مھلب بارہ سال سے اپنے پاپا کے منتظر ہیں ‘ اس درد ‘ دکھ اور اندوہ کو صرف وہ شخص محسوس کرسکتاہے جو خود اس کرب اور بے چینی سے گزر رھاہو۔
مھلب اور سمی نے ھزاروں میلوں تک مارچ بھی کی ہے ‘ بارہ سالوں سے دردر کی ٹھوکریں کھارہی ہیں ‘ کبھی کسی چوراہے پر تو کبھی کسی ‘ فٹ پاتھ اور پریس کلب پہ ‘ جو دکھ ڈاکٹر صاحب سمیت لاپتہ افراد کی فیملی جھیل رہی ہے، یہ انتہائی تکلیف دہ اور درد بھری ہے ‘ میری انسانی حقوق کی چیمپینوں اور بلوچ کے نام پہ سیاست اور کمائی کرنے والے لوگوں اور میڈیا برادری سے ایک عاجزانہ و انکسارانہ درخواست ہے کہ سمی کیلئے آواز اٹھائیں ‘ بس سمئی کا اس ریاست کے غاصب حکمرانوں سے صرف ایک مطالبہ ہے کہ اگر ان کے باپ نے کوئی جرم کیاہے اسے اپنے بنائے ہوئے ریاستی عدالتوں میں پیش کرکے سزا دیں نہ کہ دھائیوں بغیر قصور قید کرکے لاپتہ کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں