کیلکور میں فوجی جارحیت – ریاض بلوچ  

302

کیلکور میں فوجی جارحیت

 تحریر : ریاض بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

تین دن پہلے مقامی بلوچ میڈیا کی توسط سے یہ اذیت ناک خبر پڑھنے کو ملی کہ “پنجگور میں کیلکور کے متعدد گاؤں میں پاکستانی فورسز نے فوجی جارحیت کے دوران متعدد بلوچ خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے، اور ایک لڑکی کے باپ پیری ولد احمد کو مزاحمت کرنے پر گولیوں سے بھوند کر شہید کر دیا ” بلوچ خواتین کا فوجیوں کے ہاتھوں جنسی زیادتی بننے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے بھی ایسے کئی واقعات علاقائی سطح پر رپورٹ ہوئے ہیں یا بہت سے ایسے واقعات میں پاکستانی فورسز مسلسل بلوچ فیملیز کو ڈر اور خوف قائم کرنے کیلئے بلیک میل کرتے آ رہے ہیں ، جنسی زیادتی کو یہ ناپاک فوج ہمیشہ بطور جنگی ہتھیار استعمال کرتی آرہی ہے، پچاس سال پہلے اس فوج نے اپنے پراکسیز کے ساتھ جو بنگلہ دیش میں بنگالی خواتین کے ساتھ کیا وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے-

بلوچستان میں بلوچ آزادی پسندوں کی جنگی مزاحمت میں شدت کے بعد اور بلوچ سرمچاروں سے میدان جنگ میں شکست کے بعد نا پاک فوج بلوچ بچیوں اور خواتین کو اجتماعی جبر کا نشانہ بناتا آرہا ہے، جنگی میدان میں شکست کے بعد بلوچستان کے دورافتادہ قصبوں اور گاؤں میں فوجی آپریشن کے نام پر جارحیت کرتا ہے، زرائع ابلاغ اور کسی ادارے کی غیر موجودگی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے عام لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں، اس عمل میں انکے پالے ہوئے مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے برابر کے شریک رہے ہیں، جو فوج کے ہر حوالے سے مددگار رہے ہیں، اگر ان کو گمان رہے یا بلوچ ایجنٹ کہیں کہ فلاں گاؤں میں فلاں شخص کسی بلوچ مزاحمتی تنظیم میں شامل ہے تو وہ بے شرم ڈیتھ سکواڈ کے ایجنٹ فوج کو لیکر اس گھر پہ دھاوا بول دیتے ہیں بوڑھے ماں باپ پہ تشدد انکے بھائیوں کو بالجبر اٹھا کر لاپتہ کر دیتے ہیں اور جوان بہن بیٹیوں کو اغواء کرکے قریبی فوجی کیمپ میں منتقل کرتے ہیں اور ان کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا دیتے ہیں – دو ٹکے کیلئے مخبری کرنے والے ان ریاستی ایجنٹوں کو شرم نہیں آتی ہے، اور کل کو یہی ایجنٹ اگر بلوچ سرمچاروں کے ہاتھوں مارا جاتا ہے تو انکے گھر والے رونا دھونا شروع کرتے ہیں اور ثبوت مانگتے ہیں، لیکن جب انکے گھر والے اس گھناؤنے عمل میں ناپاک فوج کے ساتھ شریکِ جرم ہیں تو ان کو تنبیہ نہیں کرتے یا نہیں روکتے ہیں –

کہنے کو تو یہ خود کو اسلامی ریاست کے مجاھد اور جانباز سپاہی تصور کرتے ہیں لیکن انکی کارستانیاں کسی کافر ملک کے فوجی سے ہزار گنا بد تر ہیں، جہاں حالیاً رمضان المبارک کے مہینے میں تربت کے ایک قریبی گاؤں ہوشاپ میں اسی فوج کے ایک باریش مجاھد سپاہی نے ایک کمسن بلوچ بچہ امیر مراد جسکا عمر سولہ سال تھا، کو دن دیہاڑے ریپ کا نشانہ بنایا- علاقہ مکینوں اور بلوچ انسانی حقوق اور سماجی تنظیموں کی جانب سے اس واقعے کی نوٹس لینے اور اس پہ آواز اٹھانے کی وجہ سے فورسز کو مجبوراً اس زانی سپاہی کو منظر عام پر لانا پڑا جس کے مکروہ چہرے پر داڑھی مبارک بھی تھی-

یہ ہمارے لیے کوئی خیرت کی بات نہیں ہے کہ بلوچستان کے پارلیمانی قوم پرست اور دیگر پارٹیوں کو یہ ریاستی جبر نظر نہیں آتے، ان پہ عملاً احتجاج کرنا دور کی بات کسی نے ان دلسوز واقعات پہ لب کشائی تک نہیں کی، بجلی پانی اور دیگر اسکیموں کیلئے روڑ بلاک کر سکتے ہیں، بکتر بند گاڑیوں کے نیچے آ سکتے ہیں لیکن شرم کی بات ہے کہ اپنے بلوچ بہنوں کی عزت، ننگ ناموس کیلئے آواز تک نہیں اٹھا سکتے ہیں-

اسلام اور مذہب کی درس دینے والے ملاؤں کو فلسطین، کشمیر اور برما کے مسلمان نظر آتے ہیں ان پہ میلوں دور بیٹھ کے شور بھی مچاتے ہیں، مگر ان کو بلوچستان میں ریاستی درندہ صفت فوج کے مظالم نظر نہیں آتے – خود کو مومن کہنے والے ایمان کے آخری درجے سے بھی نیچے جا چکے ہیں-

ہمیں من حیث القوم بلوچ سب کو پارٹیوں، تنظیموں، قبائل اور علاقائیت سے بالاتر ہو کر ان مظالم پہ اکٹھا ہو کر آواز اٹھانا چاہیئے اور اس جبر کے خلاف مزاحمت کرنی چاہیئے – آج اگر کیلکور ہے تو کل دوسرا گاؤں یا دوسرا علاقہ ہو سکتا ہے – آج اگر آواز نہیں اٹھایا تو بلوچستان کا کوئی گھر اس شر سے محفوظ نہیں ہوگا، یہ فوج آپ کی حیثیت کو آزما رہا ہے، آپکے غیرت کو للکار رہا ہے، آپکے عظیم قومی تاریخ کو مسخ کرنے جا رہا ہے، آپکے قومی وجود کو مٹا رہا ہے، اگر کل کو آپکی عزت باقی نہیں رہی، آپکا وجود ہی ختم ہو گیا تو یہ نلکا پانی اسکیمات کس کیلئے مانگو گے؟ کس منہ سے اس قوم کے سامنے ووٹ کی بھیک مانگنے جاؤگے؟

ایک طرف بلوچ بہنوں ماؤں کی عزت تار تار کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف پریس ریلیز سیاست پہ گزارہ کیا جا رہا ہے کہ “بلوچ ننگ و ناموس، ساحل و وسائل پہ کوئی سمجھوتہ نہیں ہونے دیں گے”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں