بلوچ قوم کی مزاحمتیں
تحریر: جی آر مری بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں ہونے والے ظُلم، زیادتیاں اور روز بہ روز بڑھتی ہوئی ناانصافیوں کے باوجود بھی دوسرے صوبے کے لوگ خاص طور پر پنجاب میں پروان چڑھنے والی نئی نسل اور بعض بڑی عمر کے خواتین اور حضرات بھی بلوچوں کے تاریخی پس منظر کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔ سوشل میڈیا میں حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ بلوچوں کو آخر تکلیف کیا ہے جو 73 سال کا طویل عرصہ گُزرنے کے باوجود پاکستان سے خوش نہیں ہیں۔
ریاست قلات جسے 1970ء میں پشتون علاقوں کی شمولیت کے ساتھ بلوچستان کے نام سے صوبے کا درجہ دیا گیا۔ انگریزوں کے قبضے سے پہلے ایک خودمُختیار ملک تھا یہ ہندوستان کی کوئی ریاست نہیں تھی کہ تقسيم ہند کے بعد خودبخود کسی فارمولے کے تحت پاکستان یا ہندوستان کا حصہ بن جاتی۔
خان آف قلات میر احمد یار خان نے 11 اگست 1947ء کو ریاست کی آزادی کا اعلان کردیا تھا اور دو ایوانی پارليمنٹ بھی قائم کردی تھی جس نے متفقہ طور پر پاکستان سے الحاق کی تجویز مسترد کردی تھی۔ تاہم ایسے حالت پیدا کردئیے گئے کہ خان کو الحاق پر مجبور ہونا پڑا۔ اس سلسلے میں قائداعظم کے ساتھ انہوں نے 27 مارچ 1948ء کو جو معاہدہ کیا اس کے تحت دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے سوا تمام اختیارات ریاست کو دے دئیے گئے اور خان کی حاکمیت اعلٰی تسلیم کی گئی لیکن اس پر عملدرآمد ہونے سے پہلے قائداعظم انتقال کرگئے۔
ان کی جگہ لینے والی سیاسی اشرافیہ نے یہ معاہدہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور انگریزوں کی طرح تمام اختیارات اپنے قبضے میں لے لئے۔ اس سے پہلے سے موجود تلخیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ بلوچ قوم پرستوں کو جن کی عوام میں جڑیں آج کی طرح اُس وقت بھی مضبوط تھیں۔ یہ صورتحال قبول نہ تھی۔ اُنہوں نے حقوق و اختیارات کے لئے سیاسی مزاحمت شروع کردی جس نے مُختلف اوقات میں مُسلح بغاوت کی شکل اختیار کی یوں بلوچ پاکستان کے قومی دھارے میں ضم ہونے کی بجائے دور ہوتے چلے گئے۔
اس تحریر میں بلوچ قوم کی وہ مزاحمتیں بیان کی گئی ہیں جو کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں ہیں۔ یہ مزاحمتیں تاریخ کا حصہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔
1: بلوچوں کی پہلی مسلح مزاحمت۔
الحاق معاہدے کے خلاف پہلی مسلح مزاحمت خان آف قلات کے چھوٹے بھائی گورنر مکران پرنس عبدالکریم نے کی وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پہلے افغانستان گئے پھر واپس آ کر ہربوئی کے پہاڑوں میں مورچہ بند ہوگئے۔ حکومت پاکستان نے خان قلات کے ذریعے ان سے وعدہ کیا کہ پہاڑوں سے اُتر آئیں۔ اُنہیں کُچھ نہیں کہا جائے گا مگر واپس آئے تو 125 ساتھیوں سمیت انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ شہزادہ عبدالکریم کو خصوصی جرگہ کے ذریعے دس سال اور باقی افراد کو مُختلف المیعاد قید با مُشقت کی سزائیں سُنائی گئیں۔
2:~ بلوچوں کی دوسری مزاحمت۔
دوسری مزاحمت کا آغاز اُس وقت ہوا جب اکتوبر 1958ء میں ایوب خان کے مارشل ء کا جواز پیدا کرنے کے لئے بہانہ تراشا گیا کہ خان آف قلات علیحدگی کی سازش کررہے ہیں۔ خان کو قلات میں ان کے محل سے گرفتار کرلیا گیا جس کا بلوچوں میں شدید ردِعمل ہوا زہری قبیلہ کے 90 سالہ نواب نوروز خان نے بلوچ تشخص کو بچانے کے لئے خان کے حق میں بغاوت کردی اور اپنے حامیوں کے ہمراہ پہاڑوں پر چلے گئے۔ ان کیخلاف ایک بڑا آپریشن تقریباً ڈیڑھ سال جاری رہا۔ 1960ء میں بلوچوں کے بقول قُرآن پاک کو ضامن بناکر اس یقین دہانی پر جنگ بندی پر آمادہ کیا گیا کہ انہیں کوئی نقصان نہیں پُہنچایا جائے گا لیکن شہزادہ عبدالکریم کی طرح واپسی پر نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ حیدآباد جیل میں چلائے گئے مقدمے میں انہیں عمر قید اور ان کے سات قریبی ساتھیوں کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ نواب نوروز خان قید کے دوران ہی وفات پاگئے۔ بلوچ دُکھی دل سے آج بھی ان دونوں واقعات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتانا نہیں بھولتے کہ پاکستان کے حُکمرانوں نے قُرآن پاک پر اُٹھائے گئے عہد کی پاسداری نہیں کی۔
3:~ بلوچوں کا تیسرا مزاحمت۔
تیسری بغاوت اس وقت شروع ہوئی جب مارشل لاء حکام نے مینگل قبیلے کو ہتھيار جمع کرانے کا حکم دیا۔ اس پر مینگلوں میں بے چینی پھیل گئی اور جھالاوان میں لوگوں نے مزاحمت کیلئے پہاڑوں کی راہ اختیار کی۔ میر شیر محمد مری عُرف جنرل شیروف کی قیادت میں مری قبائل بھی گوریلا جنگ میں شریک ہوگئے اور بغاوت نے کوہلو سے لے کر لسبیلہ تک وسیع علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اسے کُچلنے کیلئے فوجی آپریشن کاسہارا لیا۔ اسی دوران ایوب خان کا اقتدار ختم ہوگیا۔ جنرل یحیٰ خان نے 1969ء میں یہ آپریشن ختم کیا اور بابائے بلوچ قوم نواب خیر بخش مری، نواب اکبر بُگٹی، سردار عطاءاللّٰہ مینگل اور میر غوث بخش بزنجو سے مذاکرات کا آغاز کیا۔اس کے نتیجے میں مغربی پاکستان کا ون یونٹ توڑ دیا گیا۔ بلوچستان کو صوبہ کا درجہ دیا گیا بلوچوں کو برٹش بلوچستان کے پشتونوں کی شراکت کے ساتھ پہلی بار پاکستان کے اندر شناخت ملی اور وہ ملک کے سیاسی عمل میں شریک ہوئے۔
4:~ بلوچوں کی چوتھی بغاوت
بلوچ قیادت نے نیپ کے پرچم تلے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی اور 1972ء میں سردار عطاءاللّٰہ مینگل کی قیادت میں بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت تشکیل دی گئی۔ مگر 9 ماہ ہی گُزرے تھے کہ یہ حکومت برطرف کردی گئی۔ اس پر مری اور جھالاوان کے قبائل نے پھر بغاوت کردی۔ یہ مرکز کی من مانیوں کیخلاف بلوچوں کی چوتھی بغاوت تھی۔ نیپ کے رہنماؤں کو گرفتار کرکے حیدر آباد جیل میں ان پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔ انہیں اس وقت رہائی ملی جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پرقبضہ کیا۔ اسطرح بلوچوں کی چوتھی بغاوت یا ان کیخلاف چوتھا آپریشن انجام کو پُہنچا۔
5:~ بلوچوں کا پانچواں مزاحمت
اس وقت بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں ریاست کے خلاف پانچواں مزاحمت جاری ہے۔ جس کے پس منظر پچھلے کئی آپریشنوں کی یادیں کارفرما ہونے کے علاوہ شہید نواب اکبر بُگٹی اور شہید نوابزادہ بالاچ مری کے شہادتوں کا عمل دخل بھی شامل ہے۔ اور یہ پانچواں مزاحمت آج تک جاری و ساری ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں