ہندو تاجر کے قتل کے خلاف وڈھ بازار گذشتہ تین روز احتجاجاً بند ہے۔
گزشتہ دنوں بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے وڈھ میں قتل ہونے والے ہندو برادری سے تعلق رکھنے تاجر کے قتل کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی اور انجمن تاجران کے مشترکہ فیصلہ کےمطابق وڈھ کے مقام پر مین آر سی ڈی کو ہرقسم کے ٹریفک کے لیے مکمل بند کردیا گیا۔
اشوک کمار کی ہلاکت کے پہلے روز نہ صرف کوئٹہ کراچی ہائی وے کو بند کیا گیا تھا بلکہ وڈھ شہر میں بھی مسلمان تاجروں نے اظہار یکجہتی کے لیے اپنا کاروبار بند کیا تھا۔
خیال رہے کہ 32 سالہ اشوک کمار کو وڈھ کے مرکزی بازار میں 31 مئی کو نامعلوم افراد نے اُن کی دکان کے اندر فائرنگ کر کے قتل کیا تھا۔
اس واقعے کے خلاف ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد سراپا احتجاج ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک انہیں تحفظ کی ضمانت نہیں دی جاتی اس وقت تک وہ اپنا کاروبار نہیں کھولیں گے۔ جبکہ وڈھ بازار بھی تین دن سے بند ہے۔
ہندو برادری کا کہنا ہے کہ ہم نے انتظامیہ سے کہا ہے کہ اگر وہ ہمیں تحفظ نہیں دے سکتے تو ہمیں بتا دیا جائے۔ پھر ہم پاکستان کے کسی اور علاقے میں منتقل ہو کر گمنامی کی زندگی گزار لیں گے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر شفیق الرحمان ساسولی نے ٹی بی پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعات کے حقیقی ذمہ دار ادارے ہیں، اداروں نے ڈیتھ اسکواڈز کے کارندوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
یہ سب واقعات میں مسلح دفاع نامی اور حق نا توار نامی تنظیمیں ملوث ہیں جن کے ظلم سے خضدار اور گرد و نواح کا کوئی بھی علاقہ محفوظ نہیں ہے۔
شفیق الرحمان ساسولی کا مزید کہنا تھا کہ ایک مسلح پینل جو مختلف ناموں (مسلح دفاع، حق نا توار) سے ہوتے ہوئے اب جھالاوان عوامی پینل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ڈیتھ اسکواڈ پینل قتل کرکے اپنی گناہ چھپانے کیلئے سوشل میڈیا پر مذمتی بیانات جاری کرتی ہے۔ اس پینل کے سربراہ اور کارندے اپنے گناہ اپنے مخالفین پر ڈالنے کیلئے پریس کانفرنسز اور احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کرکے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔
آر سی ڈی شاہراہ کو ڈپٹی کمشنر خضدار کی جانب سے واقعے میں ملوث افراد کیخلاف سخت کاروائی کی یقین دہانی پر کھول دیا گیا۔
خیال رہے ہندو برادری بلوچستان میں صدیوں سے آباد ہیں۔ پہلے وہ زیادہ تر علاقوں میں پُرامن زندگی گزار رہے تھے۔ لیکن سنہ 2002 کے بعد اُن کے اغواء برائے تاوان کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایسے واقعات سب سے زیادہ 2007 کے بعد پیش آنے لگے۔ یہ واقعات زیادہ تر کوئٹہ، قلات، خضدار اور نصیر آباد کے علاقوں میں پیش آتے رہے ہیں۔ ان واقعات کے دوران بعض ہندو تاجروں کی ہلاکت کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔