بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں گذشتہ چار دنوں سے احتجاج پہ بیٹھے لاپتہ ٹکری بہادر علی کیازئی کی اہلخانہ نے مطالبہ کیا ہے ٹکری بہادر علی کیازئی کو جلد از جلد بازیابی کیا جائے۔
آج اظہار یکجہتی کرنے کے لئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جانب سے ایک احتجاجی مظاہرہ کا انعقاد کیا گیا جس میں خواتین و بچوں سمیت کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
احتجاجی مظاہرے سے بات کرتے ہوئے طلبہ رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ اگر یہاں احتجاج کرنے والوں کا تعلق بلوچوں کے علاوہ دوسری اقوام سے ہوتا تو یہاں صحافی اور میڈیا نمائندوں کی ایک جم غفیر دیکھنے کو مل سکتا تھا مگر بدقسمتی سے یہ بلوچ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کیا جارہا ہے جس سے ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے نصیب میں صرف رونا ہی باقی رہ گیا ہے یہاں کسی کا باپ، بھائی یا خاوند دس دس سالوں سے لاپتہ ہیں مگر کسی کو کچھ پتہ ہی نہیں لاپتہ ہونے کا قصور یا گناہ کیا ہے۔
ماہ رنگ بلوچ نے کہا میں ان تمام بیانات کو رد کرتی ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ جبری لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہوچکا ہے۔ اگر ایک جبری لاپتہ افراد کو رہا کیا جاتا ہے تو درجنوں کے حساب سے جن کو حراست میں لیا جاتا ہے ان کا کوئی حساب نہیں رکھتا ، کوئی جوابدہ نہیں۔ اس عمل کو جرم قرار دینا چاہئے ، پاکستان کیوں اقوام متحدہ میں اس بل پر دستخط نہیں کرتا جس کے تحت جبری گمشدگی کو جرم قرار دیا گیا ہے ؟ ایک جمہوری ملک ہونے کے باوجود جبری گمشدگیوں میں ملوث اداروں کو نہیں روکا جاتا۔
ظلم و جبر کا ردعمل ہمیشہ خاموشی و بے بسی نہیں ہوتا ، جب ظلم تمام حدود تجاوز کر جائے تو مزاحمت ضروری بن جاتا ہے۔کوئٹہ گزشتہ 3 دنوں سے بہادر علی کی بازیابی کیلئے خواتین و بچے دھرنا دیے ہوئے ہے۔#ReleaseTakariBahdurAli pic.twitter.com/1aV7tkwLTf
— Mahrang Baloch (@MahrangBaloch5) June 3, 2021
دیگر شرکاء نے خطاب کرتے ہوئے کہا بلوچستان سے ایک شخص لاپتہ نہیں ہے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں مگر یہاں کسی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔
شرکاء نے حکام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ملکی سلامتی اسی میں ہے کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔
خیال رہے کہ ٹکری بہادر علی کیازئی کو گذشتہ مہینے 31 تاریخ کو نامعلوم افراد مسلح افراد نے کوئٹہ سے کرکے لاپتہ کردیا اہلخانہ کے مطابق ٹکری بہادر علی کو پاکستانی سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔