غزہ – محمد خان داؤد

129

غزہ

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

غزہ! شہروں میں ایک شہر۔محبت بھرا غزہ!
یہ کوئی غزوہ نہیں ہے۔ یہ تو غزہ ہے۔معصوم بچوں کی مسکراہٹ جیسا حسین بھی دل فریب بھی
پر اس غزہ کو غزوہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور اسرائیل اس شہر معصوم پر وحشی بمباری کر رہا ہے۔
کیا اس شہر میں بس بلند و بالا عما رتیں ہی ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو رہی ہیں؟اور کیا گرتے کنکریٹ بس گھر کے سامان اور پورج میں کھڑی گاڑیوں میں کو ملیا میٹ کر رہے ہیں؟
کن آنکھوں سے دیکھیں اور عالم انسانیت کو کن آنکھوں سے دکھائیں کہ جب غزہ کی دوسری جانب شور کرتے آہنی جہاز آتے ہیں اور غزہ کے آسماں پر اُڑنے لگتے ہیں تو بے چا ری ماؤں اور معصوم بچوں کا دل کتنی زور سے دھڑکنے لگتا ہے،اور جب وہ آہنی جہاز اپنا وحشی پن دکھاتے ہیں جب ان جہازوں سے آگ برستی ہے اور وہ آگ غزہ کی گلیوں اور مکانوں میں گرتی ہے تو بس گلیاں اور مکان ہی مٹی کا ڈھیر نہیں بنتے پر وہ ہرے درخت جن درختوں کو جوان خوبصورت ہاتھوں نے لگا تھا وہ ہاتھ بھی آگ کی نظر ہو جا تے ہیں اور وہ ہرے درخت بھی جل کر صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔

غزہ کی گلیوں میں جب صہیونی بندوق بردار آتے ہیں اور کسی محبوبہ جیسی ماں کو ہاتھوں سے پکڑ کر اسی کے گھر سے باہر دھکیل دیتے ہیں تو وہ چیختی رہ جا تی ہے کہ
”ھذہ بیتی،ھذہ بیتی،ھذہ منزلی، ھذہ ارضی!“
”یہ میرا گھر ہے،یہ میرا گھر ہے،یہ میری دھرتی ہے بدمعاشو!“

جب بھی اس محبوبہ جیسی ماں کی ایک نہیں سنی جا تی اور وہ بندوق بردار اس ماں جیسی محبوبہ کو اس گھر سے نکال کر اس گھرکی چابیاں چھین لیتے ہیں۔اورغزہ کی گلیاں دیکھتی رہ جا تی ہیں!کیا غزہ کی گلیوں میں یہ ننگی بدمعاشی کوئی آج سے ہے؟
اس ننگی بدمعاشی کو بھی اتنے ہی سال ہوئے ہیں جتنے سال اس قبضے کو ہوئے ہیں جس قبضے کی بدولت فلسطین میں ایک اور ریاست کا قیام عمل میں آیا ہے
ایسا نہیں ہے کہ اسرائیل کی جانب سے یہ جارحیت کوئی پہلی بار ہو رہی ہے اسرائیل سے ہر دسرے تیسرے سال اپنی ننگی جارحیت کا مظاہرہ کرتا ہے،کبھی رملہ،کبھی غربہ ء اردن،اور ہر بات فلسطینوں کے پیروں سے اس کی دھرتی چھین لیتا ہے،اسرائیل فلسطین سے سب کچھ چھین چکا ہے
تل ابیب سے لیکر یرو شلم کی گلیوں تک،بیت مقدس سے لیکر غزہ کی پٹی تک سب اسرائیل کے پاس ہے فلسطین کے پاس کیا ہے؟
رو تی مائیں،معصوم بچے اور غزہ کی اداس گلیاں!
اور غزہ میں اب کیا ہے
جب صہیونی آہنی جنگی جہاز آتے ہیں اور غزہ کی گلیوں کو اپنے وحشی پن سے بھر دیتے ہیں
تو غزہ کی روح کچلی جا تی ہے۔

جب غزہ کے کسی گھر میں ماں کی موجودگی میں کوئی بم گرایا جاتا ہے تو غزہ کا وہ گھر شامِ غریباں میں تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ زخمی ماں اس ملبے میں اپنے بچوں کو ایسے تلاش کرتی ہے جیسے کوئی ملبے کے ڈھیر سے کوئی چمڑے کا جیکٹ یا جو تے تلاش کر رہا ہو
وہ ماں ہو تی ہے اور اس گھر کے ملبے سے معصوم بچوں کو تلاشتی رہتی ہے بچے مل جا تے ہیں بغیر سانسوں کے اور بغیر روحوں کے
اس وقت ماں پر جو گزری سو گزری ہو گی پر غزہ کی گلیوں پر کیا گزری ہو گی؟!
وہ غزہ جو شہر ہے پر معصوم بچوں جیسا.
جو خوشبو اور نور کا ملن ہے
جہاں پر یا تو محبوبائیں بہانوں میں بھری جاتی ہیں
یا عاشقوں کے جنازے اُٹھا ئے جا تے ہیں
یا تو محبوبائیں سفید لباس پہن کر اپنا گال آگے کرتی ہیں
یا عاشق سفید کفن پہن کو اسے لہو سے سرخ کردیتا ہے
یرو شلم یا بیت المقدس ہونگے! مقدس
پر غزہ بھی تو محبوبہ کا شہر ہے
جہاں پیا ر کی پہلی جھپی دی جا تی ہے
جہاں محبت میں پسینہ بھایا جاتا ہے
جہاں محبت میں معصوم بچوں کا جنم ہوتا ہے
جن بچوں کے نام غزہ کی گلیوں پر رکھے جا تے ہیں
“بیت الیسرہ
بیت الحمرہ!“
وہ غزہ جہاں نور کا بسیرہ تھا
اور اب وہاں اندھیرے کا راج ہے
وہ غزہ جہاں تتلیاں اُڑ کر سفید گالوں پر بیٹھ جایا کرتی ہیں
اور جا تے جا تے سفید گالوں کو گلابی گلابی کر جا تی ہیں
وہ غزہ جہاں پر محبت میں واعدے نہیں کیے جا تے
بس محبت کی جا تی ہے اور محبت ہو جا تی ہے
محبوب سے اور محبوب کے شہر سے
اور محبوب کی گلیوں سے
ایسا ہے غزہ
اور ایسی ہیں غزہ کی گلیاں
پر اب بارود کی بوُ میں غزہ کہاں ہے؟
ماؤں کے معصوم بچے کہاں ہیں؟
یہ سوال ان سب سے ہے جو غزہ کو نہ تو ماتھے کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں
اور نہ روح کی آنکھ سے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں