ایک عید سرمچاروں کے نام! – محمد خان داؤد

202

ایک عید سرمچاروں کے نام!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

عید تو گذر بھی گئی مگر وہ انتظار ابھی تک باقی ہے جس کے ڈیرے ان آنکھوں کے گلابی ڈوروں میں برسوں سے ہیں جنہوں نے پلک تک نہ جھپکائی اس احتیاط کے ساتھ کہ کہیں نشانہ خطا نہ ہوجائے!
جس طرح ایک گمنام شاعر نے لکھا ہے کہ
،،محبت اور نفرت کا
کوئی ملک نہیں ہوتا،،
اسی طرح غلامی سے نفرت کرنے والی نگاہوں کا بھی کوئی مخصوص ملک نہیں ہوا کرتا۔وہ آنکھیں ہر ملک میں سورج مکھی کے پھولوں کی طرح سورج سے نظریں ملاتی ہیں جو غلامی سے نفرت اور آزادی سے محبت کرتی ہیں۔

میں اس ملک اور اس قوم کی بات نہیں کر رہا جنہیں،،گوشہ قفس میں آرام بہت ہے،،میں ان بے چین قوموں کی بات کر رہا ہوں جو سر کش پرندوں کی طرح پنجرے کی سلاخوں سے لڑتے رہتے ہیں۔میں ان لوگوں کی بات نہیں کر رہا ہوں جو نہیں جانتے کہ،،غلامی کیا ہے؟،،میں ان انسانوں کی بات کر رہا ہوں جو جانتے ہیں کہ،،آزادی کیا ہے؟،،وہ انسان عظیم ہیں جو جنگِ مسلسل میں مصروف رہا کرتے ہیں۔جو ہا ر اور جیت سے بلندہوکر لڑتے ہیں۔جن کے لیے جنگ ایک طرح کی عبادت ہے مگر ان کے لیے نہ تو ہار ایک جہنم ہوا کرتی ہے اور نہ جیت کوئی جنت۔

جو جنت اور جہنم کے درمیاں بچھے ہوئے میدان جنگ میں اس طرح لڑتے ہیں جس طرح قدیم پیڑ اور پربت طوفانوں سے لڑتے ہیں۔وہ لوگ قابل محبت ہیں جو جنگ کو زندگی اور زندگی کو جنگ سمجھتے ہیں۔وہ لوگ جسموں کے زخموں کو روح کو زیور سمجھتے ہیں اور جیسے جیسے جنگ کا دورانیہ بڑھتا جاتا ہے ان کے شوق اور ولولے میں اضافہ آتا جاتا ہے۔اور جیسے جیسے ان کا لہو بہتا ہے وہ پہلے سے زیا دہ پختہ اور پر امید ہو تے جا تے ہیں۔

اگر قبضہ گیروں کی نظر میں دنیا اتنی پر امن نہیں جتنی لاطینی شاعر سسرو کے ان الفاظ میں ہے کہ
،،وہ لہو کی پیاسی تلواروں کے ساتھ آئے
اور انہوں نے ہر آواز کا گلہ کاٹ ڈالا
اور پھر بولے،،آہ کس قدر سکون ہے۔۔۔۔۔،،

اگر دنیا عالم مفتوح نہیں تو ہما رے دم سے نہیں بلکہ ان انسانوں کی وجہ سے ہے جو قبضہ گیر کی طوفانی آنکھ میں چبھتے ہوئے تنکوں کی طرح ہیں۔اور ان انسانوں کا ایک وطن نہیں۔وہ کل ویتنام میں لڑے تھے اور آج بلوچستان میں برسر پیکار ہیں۔

اور ایسا بھی نہیں ہے کہانہیں لہو کی مہک بہت راس آگئی ہے۔انہیں جنگ و جدل سے کیف ملتا ہے۔انہیں حسن اور عشق کے گیتوں سے نفرت ہے۔ مگر باغی ترانے گانے والے یہ سمجھتے ہیں کہ،،عشق کا پرندہ غلام درخت کی شاخ پر آشیانہ نہیں بناتا،،کیا وہ غلط سمجھتے ہیں؟جب شام میں جنم لینے والے عربی ادب کے لبرل ترین شاعر نزار قابانی نے یہ لکھا تھا کہ
،،امریکہ خدا نہیں،،
تب اسے معلوم تھا کہ یہ الفاظ ان کے لیے نہیں جنہوں نے،،غلامی سے نکاح کر لیا ہے،،یہ الفاظ تو ان کے لیے ہیں جو گوگول کے ناول،،ٹارس بلبا،،کی طرح دشمن کے خیمے سے محبوبہ کو بزوربازو اٹھاتے ہیں۔جس طرح ایک پشتو ٹپہ ہے کہ
،،آزادی کی محبوبہ کہتی ہے
میں غلام یار کو بوسہ نہیں دوں گی،،

اسی طرح جو شخص قبضہ گیریت سے برسر پیکار ہے وہ نہ صرف قابل عزت ہی نہیں قابل محبت بھی ہے۔کیونکہ وہ اقتدار کے لیے نہیں بلکہ اس اختیار کے لیے لڑ رہا ہے کہ وہ اس عشق کا حق حاصل کرے جو صرف اور صرف آزاد فضاؤں میں ہی کیا جاتا ہے۔مغلوب فضاؤں میں تو محبت کا دل مغموم ہوجایا کرتا ہے۔اس لیے وہ دولت کے لیے نہیں بلکہ اس دل کے لیے لڑتے ہیں جس کی خوشی حاصل زندگی ہوا کر تی ہے۔اسی لیے تو روس کے نوبل انعام یافتہ ادیب میخائل شولوخوف نے اپنی سوانح حیات کا عنوان رکھا تھا،،دل کے کہنے پر،،جو دل کے کہنے پر لڑتے ہیں وہ لوگ ہی بڑے ہوا کرتے ہیں۔وہ لوگ جن کے دلوں میں اس دنیاکا ایک مخصوص خاکہ ہوا کرتا ہے۔وہ خاکہ جو اس دنیا سے مختلف ہوا کرتا ہے اور عمر خیام کی طرح اس دنیا کو اپنے آزاد دل جیسا بنانے کے لیے جو جاں سے گذرجا تے ہیں ان انسانوں کے نقش قدم تاریخ کے سفر میں بلند ہو تے ہو ئے ستارے بن جایا کرتے ہیں۔وہ ستا رے جو صرف ہما رے رہنما نہیں بلکہ ہما ری قسمت بھی ان کی مٹھی میں سما جا تی ہے۔
ہم اتنے برے مقدر کے مالک بھی نہیں جو مکمل طور پر غلامی کے قدموں میں گر جائے۔کیوں کہ ہما ری قسمت کے کچھ ستا رے مسلسل لڑ رہے ہیں ظلم و ستم کی اس تاریک ترین رات سے جس سے مخاطب ہو کرمخدوم محی الدین نے لکھا تھا کہ
،،گزر بھی جا کہ تیرا انتظار کب سے ہے،،

وہ انتظار جو کل بھی تھا جو آج بھی ہے۔اس لیے اس کالم کی ابتدا ان الفاظ سے ہوئی ہے کہ
،،عید تو گزربھی گئی مگر وہ انتظار ابھی تک باقی ہے جس کے ڈیرے ان آنکھوں کے گلابی ڈوروں میں برسوں سے ہیں جنہوں نے پلک تک نہ جھپکائی اس احتیاط سے کہیں نشانہ خطا نہ ہوجائے!!،،
اردو ادب کی شاید آخری رومانوی شاعرہ پروین شاکر نے لکھا تھا کہ
،،وہ آنکھیں کیسی آنکھیں ہیں
جنہیں تم چاہا کرتے ہو!!؟،،

اگر پروین شاکر نے یہ سوال ہم سے کیا ہوتاتو ہم انہیں بتاتے کہ،،وہ آنکھیں ایسی نہیں جنہیں کسی ہندی شاعر نے،،کاجل کٹیا،،کہا تھا۔وہ آنکھیں سیاہ راتوں میں سیاہ شیشوں والی ان پرل بلیک کلر والی گاڑیوں سے اترنے والیوں جیسی نہیں جن میں سبز اور نیلے رنگ کے کانٹینکٹ لینسز اٹکے ہوتے ہیں۔ وہ آنکھیں ایسی نہیں جنہیں دیکھ کر فیض نے لکھا تھا کہ
،،تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟،،
ہاں!وہ ایسی آنکھیں نہیں جن آنکھوں کے لیے ابن انشا نے لکھا تھا کہ
،،فرض کرو یہ نین تمہارے سچ مچ کے میخانے ہوں،،
ایک یونانی ناول نگار نے لکھا ہے کہ،،دنیا کوبدل سکو یا نہیں مگر وہ آنکھیں مت بدلنا جو دنیا کی حقیقت کو دیکھتی ہیں،،مگر ہم اپنی آنکھوں پر خصیص مفادات کے چشمے چڑھا کر چلتے ہیں۔ اور اس دنیا کو اسی طرح دیکھتے ہیں جس طرح ہم اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔جب ہم پر ضمیر کا دباؤ کچھ بڑھ جاتا ہے تو ہم اپنے آپ سے چیخ کر کہتے ہیں کہ،،صرف میں ہی نہیں ساری دنیا ایسی ہے،،ہم دنیا کی عام روش کو اپنے لیے ایک بہانہ بنا کر جیتے ہیں مگر زندگی صرف بیداری نہیں۔زندگی وہ نیند بھی ہے جس میں دنیا کے عظیم لو گ خوابوں کی گلیوں سے آتے ہیں اور ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہمیں ان کی باتیں سننا پڑتی ہیں اور ہمیں ان کی آنکھیں دیکھنا پڑتی ہیں جن میں ہما رے لیے تلوار سے تیکھے طعنے ہوتے ہیں۔وہ آنکھیں ہمیں گھورتی ہیں اور کہتی ہیں کہ،،کیا تم ہما رے خواب پورے نہیں کروگے؟،،وہ آنکھیں جن آنکھوں میں ایک ایسی دنیا کا منظر ہوتا ہے جو ظلم وہ ستم،بھوک اور افلاس اور غلامی اور درندگی سے پاک و صاف ہو تی ہے۔اس دنیا کا درشن دیکھ کر ہم بے بس ہو جا تے ہیں،جن آنکھوں میں ہم ایک عظیم دنیا کو دیکھتے ہیں وہ آنکھیں ایسی ہیں جنہوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ جو آنکھیں ظلم کے سامنے کبھی نہیں جھکیں۔جن آنکھوں میں دیکھنے کی طاقت اپنے وقت میں آمروں میں نہیں تھی۔مگر حیرت ہے کہ جن انسانوں نے اپنی نظر کا وقار قائم رکھتے ہوئے سولیوں کو مسکرا کر قبول کیا۔جن آنکھوں نے ہمیں بتایا کہ نظریہ فکر سے نہیں بلکہ نظر سے جنم لیتا ہے۔وہ باغی انسان ہمیں ناراض نظروں سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا تم ہما ری نظر کا تسلسل نہیں بنو گے؟ہم اپنی آنکھوں سے تو بچ بھی جائیں گے مگران آنکھوں سے کیسے بچیں جو آنکھیں صرف زبان سے ہی نہیں بلکہ زمان و مکان سے بھی آزاد ہیں۔وہ آنکھیں سرحدوں میں قید نہیں ہیں۔وہ آنکھیں جہاں بھی ہیں وہاں ایک آشیانہ ہے اس آزادی کا جو،،عقاب کی طرح اس وقت چیختی ہے جب اسے اپنا بھولا بسرا نشیمن نظر آجاتا ہے۔،،

وہ آزا دی جس کے لیے کازانت زاکس نے یہ بھی لکھا تھا کہ
،،آزادی،،
یہ لفظ میں کاماز میں اس طرح لکھتا ہوں جس طرح کسی جنگلی بیل کو سینگوں سے پکڑ کر قابو کیا جاتا ہے۔آزادی جس کے لیے کازانت زاکس نے یہ بھی لکھا تھا کہ
،،اے آزادی! میں ریتے لیے بڑی شاہراہوں کو چھوڑ آیا ہوں کیوں کہ میں جانتا ہوں کے تیری طرف آنے والے راستے بہت تنگ اور بیحد پیچیدہ ہوا کرتے ہیں،،

وہ آزادی جس کے عشق کو بیان کرتے ہوئے ہیلن کے عاشق نے یہ بھی لکھا تھا کہ
،،آزادی وہ جلاد محبوب ہے جس کے ہاتھ اگر ایک بار چوموں گے تو پھر تمہیں موت سے ڈر نہیں لگے گا،،
آزادی کے دست بعیت فقیر
آزادی کے عاشق۔آزادی کے تمنائی۔قبضہ گیروں سے سمجھوتہ کس طرح کر سکتے ہیں؟

اس لیے یہ دنیا تو رن بھومی ہے ان انسانوں کے لیے جو مسلسل لڑ رہے ہیں۔وہ انسان جب نہیں لڑتے تب دکھی رہتے ہیں اور جب لڑتے ہیں تب انہیں سکھ ملتا ہے۔کازانت زاکس کا دادا بھی ایک حریت پسند اور آزادی کا سپاہی تھا۔کازانت زاکس نے لکھا ہے کہ
،،جب میں بڑا ہوا تب میں نے اپنی دادی سے پوچھا کہ،، میرے دادا کیا کرتے تھے؟!،، انہوں نے جواب دیاکہ،،وہ لڑتے تھے،،میں نے پوچھا کہ،،جب جنگ نہیں ہو تی تھی تب وہ کیا کرتے تھے؟،، تو انہوں نے ماضی کے جھرونکوں میں میں دیکھتے ہوئے جواب دیا کہ،،تب وہ گھر کے آنگن میں بیٹھے رہتے اور تمبا کو کا کش لگا کر گھر کے سامنے کھڑے بلند پہاڑ کو گھورتے رہتے اور جنگ کا انتظار کرتے اور جب اسے جنگ شروع ہونے کی اطلاع ملتی تب وہ اپنی بندوق اٹھا کر گھوڑے پر سوار ہوجا تے اور ہمیں الوداع کہے بغیر پہاڑوں کی طرف نکل جاتے،،

ایسے لوگ اب بھی ہیں جو قبضہ گیروں کی عالمی وحشت اور دہشت کے خلاف پو ری دنیا میں لڑ رہے ہیں۔ان کی جنگ برسوں سے جا ری ہے۔اس جنگ کے دوراں ان کی عید بھی آتی ہے۔مگر کیا وہ عید کی خوشیاں منا تے ہونگے؟جب ان کا ملک غلام ہو۔جب وہ بمبا ری میں اپنے دیس کے بچوں کو معذوری کی حالت میں دیکھتے ہونگے تب سوچتے ہونگے کہ ان کی عید تو تب ہو گی جب غاضب قوتیں ملیا میٹ ہو جائیں اور آزادی اپنا گلابی آنچل فتح کے پرچم کی طرح لہرائے۔اس طرح جب چھوٹے بڑے بچوں سے بھری اس دنیا کی عید آتی بھی ہے تب بھی وہ اپنی عید کا انتظار کرتے ہیں۔

یہ عید تو آئی اور گزر بھی گئی مگر ان انسانوں کی آنکھوں میں ابھی تک پہاڑوں کی چوٹی پر اپنے چاند ابھرنے کا انتظار بھرا ہوا ہے۔مگر ایک طویل انتظار نے بھی ان کی آنکھوں میں تھکاوٹ اور بیزاری کے منحوس سایوں کو لہرانے کی اجازت نہیں دی۔

کاش!ہم کوئی عید ان سرمچاروں کے نام کریں جنہیں برسوں سے آزاد فضاؤں میں عید منانے کا انتظار ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں