مری قبیلے کے سربراہ نواب مہران مری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلوچ قوم کے خلاف پاکستان کی ریاستی دہشتگردی تسلسل سے جاری ہے، پہلے بلوچ قوم اپنے سرزمین پر محفوظ نہیں تھی اب ریاستی دہشتگری کی دائرہ کار کو بڑھا کر دوسرے ممالک تک پھیلا دیا گیا ہے۔ ہمسایہ ممالک میں مقیم بلوچ پناہ گزینوں پر ہونے والے حملے اسی ریاستی دہشتگردی کی تسلسل ہیں۔
مہران مری نے کہا ہے کہ حال ہی میں کوہستان مری کے مختلف علاقوں میں قدرتی گیس کے نئے ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی فوج کے زیر اہتمام مری علاقوں میں اپنے جانے مانے حواریوں کے ذریعے ایک باقاعدہ پرو پیگنڈہ مہم چلائی جارہی ہے کہ اب آپ کو نوکریاں ملیں گی، خوشحالی آئے گی اور یہ کہ آزادی پسند ترقی مخالف ہیں۔
بلوچ رہنماء کا کہنا تھا کہ کوہستان مری میں کتنے کالج یا یونیورسٹی ہیں جس سے فارغ التحصیل اب انجینئرز اور اعلیٰ عہدوں میں کام کریں گے؟ ڈیرہ بگٹی و سوئی سے کئی دہائی سے قدرتی گیس نکالی جارہی ہے وہاں کونسی ترقی دی گئی یا لوگوں کو روزگار مہیا کیا گیا بلکہ ان کے اپنے بنائے گئے ڈیتھ سکواڈز کے کارندے اب اپنے آقاوں سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ جہد کاروں کے خلاف ہماری خدمات کے عوض ہمیں وہ نوکریاں نہیں دی جارہیں جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مکران میں سی پیک کے نام پر کئی استحصالی منصوبے چل رہے ہیں، گوادر کو تو بلوچوں کے لئے نوگو ایریا بنا دیا گیا۔ بلوچ اب اکیسویں صدی میں اتنے بھی سادہ لوح نہیں جتنا قبضہ گیر سمجھتے ہیں۔ ہماری سرزمین پر بزور طاقت قبضہ کرکے ہماری وسائل کو لوٹ کر ہمیں چپڑاسی کی نوکریوں کا لالچ دے کر اب مزید ورغلایا نہیں جاسکتا،
بلوچستان کی تقسیم کے حوالے سے مہران مری کا کہنا تھا کہ پہلے ہمیں قبائلی، گروہی، علاقائی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی اور اب ہمارے سرزمین کو بھی حصوں میں بانٹا جارہا ہے۔ اس سے پہلے بلوچستان کو مشرقی بلوچستان و مغربی بلوچستان کے درمیان لکیر کھینچ کر ٹکڑے کئے گئے اب شمالی و جنوبی بلوچستان کے نام سے بانٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بلوچ رہنماہ نے کہا کہ برطانیہ نے پاکستان کو ہائی رسک ممالک کی فہرست میں شامل کرکے فلاحی اداروں اور دوسرے نام نہاد این جی اوز کے ذریعے رقوم کی ترسیل روک دی اور ان کے بینک اکاونٹ بند کردیے جس سے فوجی جرنیلوں اور ان کے حواریوں کے لئے مالی مشکلات پیدا ہوگئے ہیں۔ پاکستان کے نئے وزیر خزانہ نے چند روز قبل انکشاف کیا کہ معیشت کا پہیہ نہیں چل رہا، جی ڈی پی گروتھ 5 فیصد تک نہ لے گئے تو چار سال تک ملک کا ﷲ حافظ۔
مہران بلوچ نے کہا کہ جی ڈی پی گروتھ پنجاب کے دالوں یا چاولوں سے نہیں بڑھائی جاسکتی اسی لئے بلوچ وسائل کی لوٹ مار اور استحصالی منصوبوں میں تیزی لائی گئی۔ بلوچ رہنماء نے کہا کہ بلوچ جہد کاروں کے سامنے شکست قبضہ گیر کا مقدر بن چکی ہے اور قبضہ گیر کی مالی حالت، بدلتے بین الااقوامی حالات اس طرف اشارہ کررہے ہیں کہ انہیں بلوچ سرزمین سے جلد بھاگنا پڑے گا۔