حسیبہ!تمہیں سحر مبارک محمد خان داؤد

105

 

دل کہتا تھا
درد کی شدت کم ہو گی تب لکھیں گے
موت کی دہشت کم ہوگی تب لکھیں گے
درد کی شدت کم نہیں ہوئی
موت کی دہشت کم نہیں ہوئی
بین،فغاں،فریادیں ماتم
راتوں کو سونے نہیں دیتے
جی بھر کر رونے نہیں دیتے
سولیں گے تب لکھیں گے؟
رولیں گے تب لکھیں گے؟
پر ہم نے جب بھی لکھا جب موت کی دہشت تھی اور ہم نے جب بھی لکھا درد کی شدت تھی۔ہم نے جب بھی لکھا جب سب راتیں سیاہ تھیں، راتیں کیا پر چاندنی راتیں بھی سیاہ تھیں ہم نے تب بھی لکھا جب سب دن سیاہ تھے ہم نے تب بھی لکھا جب آنکھوں میں آنسوؤں کے سوا کیا تھا؟ ہم نے تب بھی لکھا جب آنکھوں میں کچھ نہ تھا ہم نے جب بھی لکھا جب سب دن ماتم کے دن تھے۔ ہم نے جب بھی لکھا جب کوئی کچھ نہ لکھ رہا تھا۔ ہم نے جب بھی لکھا جب قلم کیا پر زبانیں بھی خاموش تھیں ہم نے جب بھی لکھا جب درد کروٹ لے کر پھر سو جاتا تھا، ہم نے جب بھی لکھا جب آنکھوں میں اشکوں کے بجائے رتجگے ٹہر سے گئے تھے ، ہم نے جب لکھا جب سماج میں بے اعتباری بہت بڑھ گئی تھی، ہم نے جب بھی لکھا جب حسیبہ بہت روتی تھی اور اس کے معصوم ہونٹ لرزتے تھے ہم نے تب بھی لکھا جب حسیبہ اداسی میں خاموش ہوجایا کرتی تھی۔ہم نے اس بات کا تو انتظار ہی نہیں کیا کہ جب سب شکل منگل ہو جائیگا جب لکھیں گے نہیں ہم نے تو تب بھی لکھا جب حسیبہ کے ہاتھوں میں دوتصاویر ہوا کرتیں تھے اور وہ خود اک صدائے بلوچستان بن چکی تھی اور ہم نے لکھا تھا ”حسیبہ کے ہاتھوں میں درد کے تو تصاویر ہیں!“

تو حسیبہ کے گم شدہ بھائیوں پر جو بیتی سو بیتی پر حسیبہ پر کیا بیتی؟
کوئی ان گم شدہ بھائیوں سے نہ پوچھے کہ تم پر دیوار کے اس پار کیا بیتی؟
پر وہ بھائی خود حسیبہ سے جانے کہ اس پر کیا بیتی؟
حسیبہ رونا چاہتی تھی رو نہیں پا تی تھی
حسیبہ ہنسناچاہتی تھی ہنس نہیں پا تی تھی
حسیبہ سونا چاہتی تھی سو نہیں سکتی تھی
حسیبہ دھیرے سے چلنا چاہتی تھی چل نہیں سکتی تھی
وہ تو بس ایک مسافر بن بیٹھی تھی مسافر بھی ایسی جس کی کوئی منزل نہ ہو جس کا بس ٹھہراؤ ہو پڑاؤ ہو
کبھی کہاں کبھی کہاں؟
مسافر تو بس چلتے ہیں اور ٹھہر کر پھر چلتے ہیں تو اس گزرے ایک سال میں حسیبہ بھی تو ایسی ہی مسافر تھی کبھی شال کی گلیوں میں ٹھہری تھوڑا سا روئی،کبھی کراچی کے بارونق پریس کلب کے در پر رُکی اور تھوڑا سا روئی کبھی اسلام آباد کی ویران سڑکوں پر ٹھہری اور تھوڑا سا روئی کبھی پی ڈی ایم کے جلسے کے صدر دروازے ر ٹھہری اور تھوڑا سا روئی کبھی اپنا دکھ مریم نواز کو سنایا اور منتیں کیں کبھی شیری مزاری کے سامنے درد داستان بیان کی کبھی محسن داوڑ،کبھی شیخ رشید کبھی سول سوسائیٹی اور کبھی گدھ جیسی این جی اوز۔

تو ان گم شدہ اور اب بازیاب بھائیوں سے مت پوچھو کہ ان کے شب روز کیسے گزرے؟
پر حسیبہ کے درد کو زباں دو جو اس نے بے زباں ہوکر اپنا در د سہا بھی اور بیان بھی کیا
وہ ایک سال سے نہیں سوئی۔وہ ایک سال سے نہیں ہنسی،وہ ایک سال سفر میں رہی ہے اس نے تو سسئی کے سفر کو مات کیا ہے اس کا ایک سال،سالِ ماتم میں گزرا ہے۔اس کی آنکھیں ایک سال سے بارش کی ماند برستی رہیں ہیں بادل اور بارشیں تو تھک بھی جا تی ہیں رُک بھی جا تی ہیں۔

پر حسیبہ کی آنکھیں برسنے سے نہ رُکی ہیں اور نہ تھکی ہیں!
ان آنکھوں کے چھپر ہمیشہ گیلے ہی رہے ہیں یہ اس بات کی گواہی ہے کہ وہ ایک آنکھی سال تک برستی رہی ہیں ہم نے تو ان آنکھوں کی بارش جب ہی دیکھی ہے جب کوئی کیمرہ ان برستی آنکھوں کو اپنی آنکھ میں محفوظ کر چکا ہے پر وہ آنکھیں جو کیمرے سے اُوجھل ہوکر برسیں ہیں اب بارشوں کا حسا ب کہاں درج ہے؟

”وہ حروف کیا کہ رقم ہو تو روشنی نہ ہو“
پر حسیبہ کے آنسوؤں نے ہی روشنی کی ہے
جب جب حسیبہ روئی ہے تو ان ماؤں نے ان آنسوؤں کی روشنی میں ان گمشدہ کے پیروں کے نشان ڈھونڈے ہیں جو اک عرصہ سے گم ہیں اور گھروں کو نہیں لوٹے!
ٖفصلِ گل آئی،ٹھہری اور چلی گئی پر اس فصلِ گل نے حسیبہ کے درد کو نہیں چھپایا ایک موسم کیا ہر ہر موسم نے حسیبہ کے درد کو اپنے ساتھ لے جانے سے معزرت کی ہے
”فصلِ گل آئے گی،ٹھہرے گی،چلی جائیگی
اپنے دامن میں چھپائے ہوئے داغِ گُلِ سرخ!“
بازیاب بھائیوں سے یہ مت پوچھو کہ پابندِ سلاسل کے دوراں ان پر کون سا موسم مہربان ٹھہرا
پر ہمیں معلوم ہے کہ مسافر حسیبہ پر دیس کو کوئی بھی موسم مہرباں نہیں ٹھہرا
حسیبہ سسئی نہیں
پر سسئی بھی تو حسیبہ نہیں
پر دونوں کے درد مشترک تھے
سسئی کا ایک پنہوں تھا
حسیبہ کے دو پنہوں تھے
پر سسئی سے بھی بڑھ کر حسیبہ تو رومی تھی اور اپنے گم شدہ بھائی رومی کی منتظر تھی
”میں اپنے شمس کی آمد کا منتظر تھا،سو اب
مرے وجود میں رومی کی ذات رقص میں ہے!“
رومی لے رقص سے پہلے،رومی کے رقص سے آگے
رومی کے رقص کے بعد میں
ایک آنسوؤں کا سمندر ہے جس کو حسیبہ کے اکیلے پار کیا ہے
ان بازیاب بھائیوں کو بھی مبارک باد دو جو سب کچھ جھیل کر اس گھر کو پہنچے ہیں جس گھر کو ایک سال پہلے حسیبہ نے چھوڑا ہوا تھا اور سسئی بن کر ڈونگر وں (پتھروں) میں رُل رہی تھی
پر حسیبہ کو بھی مبارک باد دو
جس کی آنکھیں بارشوں کی ماند برسی ہیں
اور ہاتھوں کمزور ٹہنیوں کی ماند لرزے ہیں
اس حسیبہ کو مبارک باد دو جس کے تمام دن سزا کی ماند گزرے ہیں
جس کی تمام راتیں شبِ یلدا کی ماند گزری ہیں
”دن گزارا ہے سزا کی صورت
رات آئی شبِ یلدا کی طرح
صحن کی آگ میں جلتے ہوئے شعلوں کی تپش
منجمند ہوئے ہوئے خون میں در آئی ہے
یادیں یخ بستہ ہواؤں کی طرح آتی ہیں
آتشِ رفتہ و آئندہ میں رخشاں چہرے
برف پاروں کی طرح
دل کے آئینے میں لوَ دیتے ہیں بجھ جا تے ہیں
پسِ دیوار ہے خورشیدِ تمنا کا قیام
ختم یہ سلسلہ ء رقصِ شرر ہونا ہے
شبِ یلدا کا مقدر ہے
سحر ہونا ہے!“
حسیبہ!تمہیں سحر مبارک ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں