ڈاکٹر صبیحہ بلوچ بلوچستان کا فخر ہے – محمد خان داؤد

183

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ بلوچستان کا فخر ہے

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ وہ ہیں جن کی تلاش نزار قبانی کو بھی رہا کرتی تھی جو اپنے ہاتھ میں کاغذوں اور قلم کا کاسہ لیے ایسے الفاظ لکھا کرتا تھا کہ
”ہمیں ایک غضبناک نسل چاہیے جو آفاق کو جوَتے
تاریخ کو اس کی جڑوں سے ہلا مارے
ہماری سوچ کو گہرائیوں سے ہلا مارے
ہمیں پیش قدمی کرنے والی نسل چاہیے
مختلف خصوصیات والی
نہ خطاؤں کو بخشے
نہ چشم پو شی کرے
نہ جھُکے
نہ نِفاق سے واقف ہو
ہمیں ایک نسل چاہیے
قیادت کرنی والی
دیو قامت نسل!“
لڑکیاں اس بس لیے نہیں ہیں کہ ان کے جوان ہونے پر ان کی شادیاں کر دی جائیں اور یہ سمجھا جائے کہ ہماری جان چھوٹی یہ ایک غلیظ اور غلط روائیت ہے، جو اس سماج نے ہم پھر تھونپ دی ہے اور ہم اپنے گھروں میں اپنی بہنوں بیٹیوں کو بار گراں کی طرح محسوس کرتے ہیں جیسے تیسے رشتے دیکھ کر ان کو فارغ کرنے کی کوشش کرتے ہیں پھر یہ ہوتا ہے کہ وہ سماج جسے متحرک ہونا چاہیے تھا وہ ٹہر جاتا ہے وہ حرکت کرتا نہیں دکھتا کیوں کہ ہم اپنے گھروں میں موجود اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی اہمیت کو جان ہی نہیں پا تے،کیوں کہ ہم انہیں پڑھاتے نہیں، انہیں تعلیم نہیں دیتے انہیں اپنے پیروں پر کھڑا نہیں کرتے،انہیں اپنا محتاج کر کے رکھتے ہیں،تعلیم کیاہم تو انہیں پوری دوا اور پوری روٹی تک نہیں دیتے۔

تو پھر وہ بیٹیاں اور بہنیں آگے کیسے بڑھ پائیں گی؟اس لیے ہم بس اتنا ہی جانتے ہیں کہ جیسے تیسے بھی رشتے آئیں انہیں ان گھروں کو بھیجیں جن گھروں کے متعلق ہم زیا دہ کچھ جانتے بھی نہیں اور جن سے وہ بہیا ئی جا رہی ہیں ہم ان کے مطلق بھی کچھ نہیں جانتے
جب ہم انہیں پو ری دوا اور پوری روٹی ہی نہیں دیتے تو تعلیم کا کیا؟شخصی آزا دی کا کیا؟اور سیا سی آزادی کا کیا؟پھر چاہے معاشرہ کتنا بھی ترقی کر جائے پر ہم وہیں ٹہرے رہتے ہیں جہاں سے ہم چلے تھے اور یہ سفر کوئی ایک دو دن کا نہیں یہ سفر صدیوں پر محیط ہے!
یہ شخصی آزادی کی موت ہے!
یہ انسانیت کی موت ہے!
یہ لڑکیوں کے قدموں کی موت ہے!
یہ لڑکیوں کے جزبات کی موت ہے!
پھر سب کچھ پیچھے رہ جاتا ہے دیکھنے کو تو سب کچھ آگے بڑھ رہا ہوتا ہے،نیا دن طلوع ہوتا ہے،نیا سویرہ بھی نکلتا ہے۔نیا سویرہ نئی سحر بھی لاتا ہے اور نئی سحر شام ہو تے ہو تے رات کے دھندلُکے میں گم بھی ہوجا تا ہے پھر جب کچھ دیر رُک کر پیچھے دیکھتے ہیں تو سب کچھ وہیں ٹھہرا ہوا ہوتا ہے
کچھ بھی آگے نہیں بڑ ھ رہا ہوتا!
کیوں؟
اس لیے کہ ہم نہ تو اپنی بیٹیوں کی اہمیت کو جانتے ہیں اور نہ ہی انہیں اہمیت دیتے ہیں
تو پھر ہمارا معاشرہ کیسے آگے بڑھ سکتا ہے؟

پھر ہمارا سارا معاشرہ جمود کا شکار ہوکر برف کی مانند جم جاتا ہے پر ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہمارا معاشرہ جم چکا ہے، پھر ایسے جمے معاشرے میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جو چلتے پھرتے معاشرے میں نہیں ہوتا
کیوں کہ ایسے معاشرے میں لڑکیوں کی تو کوئی شراکت داری نہیں ہوتی
اوروہ سب کچھ ہوتا ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔

سب کچھ پیچھے رہ جاتا ہے!سب کچھ
اور انسانیت بندوق اور کلہاڑیوں کے منہ میں آجاتی ہے اور کسی نہ کسی بہانے کے تحت انسان قتل ہوتے رہتے ہیں اور ان میں بھی زیادہ طور پر لڑکیاں کیوں کہ لڑکیاں اپنا تحفظ اس انداز میں نہیں کر سکتیں جس انداز میں مرد کرتا ہے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ سوکھی نہروں سے لیکر تر نہروں تک
بنجر زمینوں سے لیکر لہلاتے کھیتوں تک
خالی کنوؤں سے لیکر بھرے کنوؤں تک
وہ لاشے نظر آتے ہیں جن کے نازک سینوں پر بھا ری بھونکتی بندوقوں نے کتو ں کی طرح کاٹا ہوتا ہے اور پیچھے بس ماتم کرتی مائیں رہ جا تی ہیں اور وہ جن کے پیچھے کتے چھوڑے جا تے ہیں وہ تو داستان ہی اور ہے!
یہ سب کیوں ہوتا ہے؟
اس لیے کہ ہم اپنے نصف کو اس سیا ست،شعور اور آگہی میں شامل ہی نہیں کرتے جو انہیں جینے کا پتا دے جو انہیں جینے کا نیا ڈھنگ دے جو انہیں یہ بتا سکے کہ جیا کیسے جاتا ہے
اس حال میں تو وہ زندہ بھی نہیں ہیں
زندہ انسانوں کی تو اپنی مرضی ہو تی ہے
اور ہمارے آس پاس جو بستی ہیں ان کی مرضی بھی مقتل کو پہنچ چکی ہے!
سیاست،شعور،تعلیم اور آگہی کے سوا
نہ عورت آزاد
نہ معاشرہ آزاد
نہ وہ آزاد
نہ میں آزاد
نہ تو آزاد
عورت کو سیا سی آزادی دیے بغیر ہم جھوٹ اور فریب میں تو جی سکتے ہیں
پر ہم آگہی اور شعور میں نہیں جی رہے ہو تے
عورت بھی وہ جو آگے بڑھے،نمائیندگی کرے،قیادت سنبھالے اور سب کو آگے لیکر چلے
یہ موقع بھی عورتوں کو ہم مردوں نے نہیں دیا،وہ انہوں نے اپنی محنت،صلاحیت اور مسلسل کوششوں سے حاصل کیا ہے،ان ہی میں سے ایک ڈاکٹر صبیحہ بلوچ بھی ہیں جو اب بلوچ اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کی نمائیندگی کرے گی اور اپنے ساتھ بہت ان کو لیکر چلے گی جو یہ چاہتے ہیں کہ سب کو برابری کے حقوق میسر ہوں اس میں کسی جنس کی تفریق نہ ہو
ڈاکٹر صبیحہ بلوچ شاید وہی روح ہیں جس سے بہت دور شاعری کی راہ میں نزار قبانی مخاطب ہوا کرتا تھا اور ڈاکٹر صبیحہ سے کہتا تھا کہ
”ہمیں ایک غضبناک نسل چاہیے جو آفاق کو جوَتے
تاریخ کو اس کی جڑوں سے ہلا مارے
ہماری سوچ کو گہرائیوں سے ہلا مارے
ہمیں پیش قدمی کرنے والی نسل چاہیے
مختلف خصوصیات والی
نہ خطاؤں کو بخشے
نہ چشم پو شی کرے
نہ جھُکے
نہ نِفاق سے واقف ہو
ہمیں ایک نسل چاہیے
قیادت کرنی والی
دیو قامت نسل!“
اور ڈاکٹر صبیحہ پر بلوچستان کو فخر ہے!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔