اسد خان اچکزئی کی گمشدگی بعد شہادت بلوچستان کے حالات کو بیان کررہی ہے – ماما قدیر

568

سندھ کے دارالحکومت کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4237 دن مکمل ہوگئے۔ شہری عوامی محاذ کراچی کے ڈپٹی کوارڈینیٹر عبدالرحمٰن، مرکزی آرگنائزر زہرہ خان، زاہد بارکزئی اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پر وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہم یہ کہتے رہے ہیں کہ بلوچستان میں آج بھی مارو اور پھینکو کی پالیسی جاری ہے۔ آج عوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان اسد خان اچکزئی کی لاش کی برآمدگی بلوچستان کے حالات کو بیان کررہی ہے۔

انہوں نے کہ سیاسی رہنماوں اور ورکروں سے لیکر طلباء، اساتذہ سمیت کوئی بھی مکتبہ فکر بلوچستان میں محفوظ نہیں ہے، فورسز اہلکاروں کی شہر بھر میں اور شاہراہوں پر موجودگی کے باوجود جبری گمشدگیوں کے بعد لاشوں کی برآمدگی خود شواہد فراہم کررہی ہے کہ ان کے پیچھے کون ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بار بار اپیلوں کے باوجود اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے چھپ کا روزہ رکھا ہوا ہے لیکن بلوچ ہر کھٹن آزمائش جھیل کر ڈیٹھ اسکواڈز کے خطرات، وحشت و بربریت کے سائے تلے کوہ گران عبور کرکے طویل جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دریں اثناء 4 مارچ 2017 کو بلوچستان کے ضلع قلات سے جبری طور پر لاپتہ کیے جانیوالے نوجوان سراج بلوچ کے گمشدگی کیخلاف سماجی رابطوں کی سائٹ پر کمپئین چلائی گئی۔

اس موقع پر ظہیر بلوچ نے لکھا کہ بلوچستان میں معصوم لوگوں کی جبری گمشدگی روز کا معمول بن چکا ہے ایسا کوہی دن نہیں گزرتا کہ کسی گهر سے کوئی نوجوان جبری طور پر ریاستی اداروں کے ہاتهوں لاپتہ نہ ہو۔ سراج بلوچ بهی ان ہی نوجوانوں میں سے ہیں جو پچهلے 4 سالوں سے ریاستی عقوبت خانوں میں قید ہے۔

لاپتہ راشد حسین کیلئے آواز اٹھانے والی ان کی بھتیجی ماہ زیب بلوچ نے لکھا کہ سراج بلوچ بھی ان افراد میں شامل ہے جو جبری گمشدگی کا شکار ہوئیں۔ سراج کے لواحقین انکی راہ دیکھتے غم اور آنسووں کے ساتھ 4 سال گزار دیئے۔ غم کے عالم میں انتظار کے دن اور طویل ہورہے ہیں، سراج بلوچ کے لیے آواز اٹھائیں اور انہیں انصاف فراہم کرنے میں مدد کریں ۔

علاوہ ازیں مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے کمپئین میں شرکت کرکے سراج اور دیگر بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کی اپیل کی۔