ثقافتی دن منانا چاہئے یا نہیں ؟ – اسرار بلوچ

448

ثقافتی دن منانا چاہئے یا نہیں ؟

تحریر: اسرار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہر سال بلوچ ثقافتی دن سے پہلے یہ بحث شروع ہوجاتی ہے کہ بلوچ قوم حالت ء سوگ میں ہے ایسے میں بڑے بڑے شلوار اور بڑی بڑی مونچھ داڑھی کے ساتھ بلوچ ثقافتی دن کا منانا غم زدوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے فلاں فلاں۔

اس بحث کو ہمیں جذباتی ہونے کے بجائے دلائل سے آگے لے جانا ہوگا، سب سے پہلے بنیادی محرکات کی جانب دیکھنا ہوگا کہ بلوچ ثقافتی دن متعارف کب ہوا ؟

بلوچ ثقافتی دن کا آغاز ایک طلباء تنظیم بی ایس او آزاد نے کیا مختلف یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں بلوچ سماج کے اندر استعمال ہونے والے مختلف اشیاء کے سٹالز اور قومی ثقافت و زبان کے بابت آگاہی پر پروگرامز منعقد کئے گئے پھر خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی میں ہونے والے ثقافتی پروگرام میں بم دھماکہ ہوا جس میں ہمارے بلوچ نوجوانوں کا سفید دستار خون سے تر ہوا، دو نوجوانوں کی شہادت اور بیبرگ کی بوجھل قدموں کی تھر تھراہٹ از خود اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نو آبادیاتی طرز پر بلوچ قومی شناخت و ثقافت کو اجاگر کئے جانے والے پروگراموں کو تشدد کے ذریعے روکا گیا۔

کچھ لوگوں کی ذاتی رائے ہے کہ بلوچ نوجوان شہید ہوچکے ہیں، زندانوں میں پابند ء سلاسل ہیں، مائیں رورہی ہیں اس حالت میں کلچرل ڈے منانا بے غیرتی ہے _لیکن نہیں!

کیونکہ بلوچ ثقافتی دن منایا بھی اس وجہ سے جارہا ہے کہ بلوچ حالت ء دکھ اور حالت ء رنج میں ہے، نوآبادیاتی طرز زندگی میں بلوچ ثقافت، بلوچ کے اقدار، بلوچ کے روایات حتی کہ بلوچ قومی شناخت کو خطرہ لاحق ہے۔

کیونکہ بلوچ ہزاروں سال کی تاریخ رکھتی ہے، بلوچ کی ثقافت کا ایک پوشیدہ باب مہر گڑھ کے سینے میں دفن ہے جس پہ سائنسی تحقیق و تجزیے کی ضرورت ہے لہذا مختصرا کہنے کا مقصد یہ ہیکہ ہم حالت ء غم میں ہیں ہمارا وجود خطرے میں ہے اور ہماری بقاء ہماری ثقافت ہماری رسم و رواج و علاقائی سیاست سمیت انسانی زندگی کو خطرات لاحق ہیں اسی لئے ہمیں ثقافتی دن منانا ہوگا کیونکہ یہ کبھی نہیں سنا ہوگا کہ امریکہ، برطانیہ ،فرانس یا پنجاب نے یوم ثقافت منایا ہو کسی حد تک نہیں کیونکہ ان کے ثقافت و زبانوں کو خطرہ نہیں ہے اور نہ ہی انہیں قومی بنیاد پر معدوم ہونے کے خطرات لاحق ہیں۔

ہاں البتہ بلوچ ثقافتی دن کو ایک کمرشل ایونٹ بنانے یا سوشل میڈیائی سحر انگیزی کا ذریعہ بنانے کے بجائے بلوچ ثقافتی دن کو شعوری و اکیڈمک بنیاد پر منایا جانا چاہئیے اور لباس اور ثقافتی چیزوں کی نمائش کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم کی زبانوں ،بلوچ تاریخ ، بلوچ قومی نفسیات، بلوچ روایات، بلوچ مائیتھالوجی، بلوچ جغرافیہ سمیت بلوچوں کے مسائل پہ سیر حاصل بحث کرکے آگاہی دی جانی چاہئیے اور اس دن کو ایک روایت بنانے کے بجائے ایک ثقافتی انقلاب کیلئے ایک تحریک پیدا کرنے کی غرض سے منایا جانا چاہئے۔

ظاہر ہے ایک قوم مختلف الخیال و مختلف سبجیکٹ پر اپنےاپنے انداز سے کوشش کرتی ہے اس دور جدید میں قومیں اکیڈمک مباحثوں اور کاموں کی محتاج ہوتی جارہی ہیں بلوچ ثقافتی دن کے موقع پر بلوچ روایات و ثقافت بلوچ تہذیب و تمدن پر سائنسی، علمی و تنقیدی مباحثے منعقد ہونے چاہیے جو کہ وقت کی ضرورت ہیں ۔


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں