بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین وزیر اعظم عمران خان کے منتظر

285

بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لاپتہ افراد کے اہلخانہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیرے اہتمام گذشتہ پانچ دنوں سے نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں۔

‎احتجاج میں حصہ لینے والوں میں لاپتہ علی اصغر بنگلزئی کے اہلخانہ، لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ، بی ایس او آزاد کے لاپتہ رہنماء شبیر بلوچ کی ہمشیرہ، لاپتہ ذاکر مجید کی والدہ، لاپتہ حسان قمبرانی کی ہمشیرہ، لاپتہ حزب اللہ قمبرانی کی والدہ، لاپتہ جہانزیب کی والدہ، لاپتہ راشد حسین کی والدہ اور کراچی سے جبری طور پر لاپتہ نسیم بلوچ، لاپتہ سعید احمد شاہوانی کی والدہ اور لاپتہ مہرگل مری کی بیٹی سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین شامل ہیں۔

‎آج پانچویں روز لواحقین کی جانب سے پریس کانفرنس کی گئی۔ پریس کانفرنس میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے نصراللہ بلوچ اور لواحقین نے کہا کہ

‎لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے لاپتہ پیاروں کی طویل جبری گمشدگی کی وجہ سے شدید ذہینی اذیت میں مبتلا ہے اس لیے وہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے تکلیف برداشت کرکے اس امید پر اسلام آباد آکر احتجاج کررہے ہیں تاکہ ملک کی دارالحکومت میں کوئی انکی فریاد کو سنے اور انہیں ملکی قوانین کے مطابق انصاف فراہم کرے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت میں بہت سے لوگ بازیاب ہوئے جو کئی سالوں سے لاپتہ تھے جو ایک مثبت عمل ہے جسے ہم قدر کی نگاہ سے دیکھے ہیں اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے عمل کو جاری رہنا چاہیے کیونکہ ایک طرف بازیاب ہونے شخص کے اہلخانہ کی خوشیاں لوٹ آتی ہے اور دوسری طرف بلوچستان کے محرومی اور اہل بلوچستان کے دلوں میں پائی جانی والی نفرتوں میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حال ہی میں وزیراعظم عمران نے ایک بیان جاری کیا کہ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ ملک میں کوئی بھی شخص لاپتہ ہو جو خوش آئند بیان ہے کیونکہ ایک شخص کی جبری گمشدگی کی وجہ سے اسکا اہلخانہ ذہینی کرب و اذیت سمیت بہت سے مشکلات شکار ہوتا ہے جسکی وجہ سے خاندان کی زندگی مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے اور ہم بھی پاکستان کو جبری گمشدگیوں سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے ہم وزیر اعظم عمران خان اور ملکی اداروں کے سربراہوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دیکھے اور لاپتہ افراد کو فوری طور پر بازیاب کرے جن پر الزام ہے انہیں عدالت میں پیش کیا جائے جو اس دنیا میں نہیں ہے انکے خاندان کو بتایا جائے جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ملکی قوانیں کے مطابق حل کیا جائے اور جبری گمشدگیوں کے حوالے سے جو قانون بنایا گیا ہے اسے فوری طور پر قومی اسمبلی میں پیش کرکے آئین کا حصہ بنایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اور ملکی اداروں کے سربراہان ہمیں مایوس نہیں کرینگے اور پاکستان کے پسماندہ صوبہ بلوچستان سے آئے ہوئے لاپتہ افراد کے غمزادہ خاندانوں کے سر پر دست شفقت رکھیں گے اور ہمارے لاپتہ پیاروں کو بازیاب کرکے ہمیں زندگی بھر کی اذیت سے نجات دلائے گے۔

پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ  ہم آپ لوگوں کے توسط سے وزیراعظم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہم سے ملاقات کرکے ہمیں ہمارے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کی یقین دہانی کرائے ہم نے چیرمین سینٹ سے گزارش کی تھی کہ وہ وزیراعظم سے ہمارے لیے ملاقات کے لیے ٹائم لے لیکن چار دن گزرنے کے باوجود ہمیں جواب نہیں ملا اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کل بروز منگل 16 فروری 2021 کو ہم لواحقین ریلی کی صورت میں اسلام آباد پریس کلب سے لے کر ڈی چوک تک جائیں گے اور اگر وزیر اعظم ہمیں ملاقات کے لیے ٹائم نہیں دیں گے تو ہم ڈی چوک پر دھرنا دے کر بیٹھے گے۔