دریا جو ریت میں جذب ہو جاتا ہے – محمد خان داؤد

156

دریا جو ریت میں جذب ہو جاتا ہے

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ ماؤں کے دکھ ایک جیسے، بلوچ ماؤں کے درد ایک جیسے، اس درد میں د ل کا جلنا ایک جیسا!
آنکھیں ایک جیسی،ان آنکھوں سے آنسوؤں کا برسنا ایک جیسا
انتظار ایک جیسا در پر لگی دید ایک جیسی!
آہ!ایک جیسی
رونا ایک جیسا۔۔۔
انتظاری کیفیت ایک جیسی،سفر ایک جیسے،پیر ایک جیسے پیروں میں پڑے آبلے ایک جیسے
بلوچ بیٹیاں ایک جیسی،ان بیٹیوں کے بابا ایک جیسے!ان بیٹیوں کے درد بھی ایک جیسے
کچے گھر ایک جیسے ان گھروں میں پرانی لٹکتی تصویریں ایک جیسی
اور ان تصویروں پر دھول ایک جیسی
دھو ل ہٹاتے ہاتھ ایک جیسے
ماؤں کی آنکھوں میں بسا کوئٹہ اور کراچی ایک جیسا،وہ کیمپ بھی ایک جیسا جہاں وہ درد کو بچے کی طرح پالتی ہیں۔اُٹھتے ہاتھ ایک جیسے روتی آنکھیں ایک جیسی
سمی،مہلب ایک جیسی
ماہ رنگ،فرزانہ ایک جیسی
یہ وہ ایک جیسی
وہ یہ ایک جیسی!

بلوچ ماؤں کے دردوں سے لیکر مسخ شدہ لاشوں تک
ہاتھوں میں تصاویر تھامے انتظاری کیفیت سے لیکر
دل کے دھڑکنے تک ایک جیسا
دہشت،کوئٹہ کی گلیوں میں ایمبولینس سائرن ایک جیسا
علم دار روڈ کے قبرستان سے لیکر دہشت کے نامعلوم مسخ شدہ لوگوں کے قبرستان تک
سب ایک جیسا
تو پھر بلوچ ماؤں کا
پیروں کے زخم،پیروں کے نشاں ایک جیسے
سمی ایک جیسی مہلب ایک جیسی
ماہ رنگ ایک جیسی،ماہ گنج ایک جیسی!
یہ ایک جیسی،وہ ایک جیسی
وہ ایک جیسی،یہ ایک جیسی!

جب بلوچ ماؤں، بیٹیوں،بہنوں کا درد ایک جیسا ہے،تو کیا ایسا ہے جو مشترکہ نہیں؟
بھلے سب درد ایک جیسے ہوں اور ایک جیسے ہیں بھی پر فرزانہ کا درد ایسا ہے جس کے لیے سندھی میں ایک شعر ہے کہ
”اج درد مڑئی کچھ سوایو آھے!“
”آج بس درد کچھ زیادہ ہے!“
پر فرزانہ مجید کا تو درد گزشتہ گیارہ سالوں سے زیا دہ ہے۔فرزانہ نے سفر بھی کیے،ایسے سفر جن سفروں کے لیے ایاز نے کہا تھا کہ
”کتھے تہ بھین جو تھک مسافر!“
”کہیں تو راہ میں منزل ہوگی؟!“
ایسے سفر جن کے لیے پھر ایاز ہی نے لکھا کہ
”کتھے نہ بھین بھو تھک مسافر!“
”راہ میں کہیں بھی منزل نہیں!“

گیارہ سالوں پہلے فرزانہ کا سفر ایسا تھا کہ کہیں تو راہ میں منزل ہوگی!اور آج گیا رہ سال بعد فرزانہ کا سفر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کتھے نہ بھین بہ تھک مسافر!راہ میں کہیں بھی منزل نہیں!
راہ میں کیوں کوئی منز ل نہیں۔منزل بھی وہ جس میں ایک کونج اپنے ولر سے بچھڑے بھائی کی منتظر ہے!
کونج بھی ایسی جس کے لیے فیض نے لکھا تھا کہ
”شوپین کا نغمہ بجتا ہے
ایک کونج کو سکھیاں چھوڑ گئیں
آکاش کی نیلی راہوں میں
اک چیل زور سے جھپٹا ہے
شوپین کو نغمہ بجتا ہے!
سفر بھی وہ جس میں ایک ڈیل اپنے مور کی منتظر ہے
اور مور بھی ایسا جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”ویو وسکارے میں مور مری
تھی کیڈیوں دانھوں ڈیل کرے!“
”برستے ساون میں مور مر گیا
ہائے!دیکھو مورنی کیسے چیخ رہی ہے!“
سفر بھی جیسا سفر سسئی نے اپنے پنہوں کے لیے کیا تھا
سسئی تو اب بھی ڈونگروں (پتھروں) میں اپنے پنہوں کو تلاش رہی ہے
پر نہ پنہوں کی کوئی خبر ہے اور نہ ہی وہ ڈونگر اس سسئی کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں جن ڈونگروں کو سسئی کو اکیلا دیکھ کر لطیف نے کہا تھا کہ کچھ نہیں کر سکتے ہو،نہ کرو،سسئی کے دکھوں کے مسافر نہیں بن سکتے ہو نہ بنو،اس کے ساتھ نہیں چل سکتے ہو نہ چلو،اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو نہیں صاف کر سکتے ہو نہ کرو
پر سسئی کے ساتھ رو تو سکتے ہو
تو پھر دردوں کی ما ری سسئی کے ساتھ روتے کیوں نہیں؟
”ڈونگر!مون سین روئے کڈھی پار پنہوں جا!“
پھر پتھر بھی سسئی کے ساتھ اشک بار ہوئے تھے

پر اس سسئی کے ساتھ کوئی نہیں!آج جب بلوچستان کے کئی کئی سالوں سے گم شدہ افراد کمزور جسموں،کمزور دید،کمزور دل نحیف جسموں اور بڑھی داڑھیوں کے ساتھ واپس لوٹ رہے ہیں اور ان گھروں کے دروں کو کھٹکا رہے ہیں جن گھروں کو وہ ہنستا مسکراتا اور بھرا بھرا چھوڑ گئے تھے اب ان گھروں کی کیسی حالت ہے؟یہ ایک الگ آرٹیکل کا متقاضی ہے۔

جب کئی کئی سالوں سے گم شدہ افراد واپس لوٹ رہے ہیں تو مجھے شدت سے یاد آ رہا ہے وہ نوجوان جس کی زندگی ایسی تھی جس کے لیے روسی مصنف ڈوم نے کہا تھا کہ
”جیسے ہی باتوں میں دھرتی کی خوشبو آتی ہے مردہ جسموں پر پڑی ملٹری وردیاں جاگ جا تی ہیں!“
اور ڈوم نے یہ بھی کہا تھا کہ
”ادیب زمانے کو دنیا کا نیا پتا دیتے ہیں اور سیا سی کارکن اس پتے پر سڑک تعمیر کرتے ہیں“

زاکر مجید دھرتی کا عاشق بھی تھا
کتابوں کا عاشق بھی تھا
اور یو ٹیوب پر موجود وڈیوز اس بات کی چغلی کھا رہی ہیں کہ وہ سیا سی ورکر بھی تھی
پر اب کہاں ہے؟اور کتنے سالوں سے کہاں ہے؟
فرزانہ مجید،انسانی حقوق کی بات کرنے والے
اور وہ ماں تو جانتے ہیں
پر وہ نہیں جانتے جن کو جاننا چاہیے تھا
جب بند دروں پر دستک ہو رہی ہے
جب بھولے بسرے انسان واپس لوٹ رہے ہیں
اور زندہ مائیں!
ایک وہ مائیں بھی ہیں جو انتظاری کیفیت اور دردوں بھرا دل لیے مٹی میں جا سوئیں
میں ان ماؤں کا تو درد لکھ ہی نہیں رہا
پر وہ مائیں!جو بہت رو تی ہیں اور اپنے گم شدہ بچوں کی تصویروں کو دیکھ دیکھ کر جیتی ہیں
جب ان ماؤں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ لوٹ آیا ہے جو اپنے ساتھ اس کی نیند بھی لے گیا تھا
تو وہ بہت رو تی ہیں ان کے گلے میں بہانیں ڈال کر
رُدالی کر کے
اس کے گالوں کو چوم کر
اس کے سروں پر ہاتھ پھیر کر
اس کا نام بار بار لے کر
ان کے پیروں میں گر کر
اور پھر بے ہوش ہو جا تی ہیں
پر اس ماں کا کیا؟
جس کے گم شدہ بیٹے کا نام زاکر مجید ہے
اور سسئی جیسی مسافر بہن کا نام فرزانہ مجید ہے
وہ ماں کتنا روئی ہو گی؟
کون حساب کرے؟
اور کیوں حساب کرے؟
وہ ماں بارش جتنا نہیں روئی
وہ ماں بادلوں جتنا نہیں روئی
وہ ماں اُوس جتنا نہیں روئی
وہ ماں دریا جتنا روئی ہے
کاش وہ دریا بلوچستان نہیں
کوئٹہ نہیں
تو اس اسمبیلی کو تو ضرور ڈبو دیتا جس میں ووٹوں والے تو ضرور بیٹھیں ہیں
پر درد کو محسوس کرنے والا کوئی نہیں بیٹھا
اس دریا کو بھی کوئی نہیں دیکھتا
جو اک دردوں کی ما ری ماں کی آنکھوں سے روز بہتا ہے
اور ریت میں جذب ہو جاتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں