بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ چئیرپرسن اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے رہنماء بانک کریمہ بلوچ کی شہادت اور ریاستی ہتھکنڈے نے ہر بلوچ کے دل میں ریاست کے لئے نفرت کی شدت میں مذید اضافہ کردیا ہے۔
کریمہ بلوچ جب تنظیم کی سربراہ تھی تو انہیں مختلف طریقوں سے ذہنی تشدد کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔انہیں خوفزدہ کرنے کے لئے کبھی انکے گھر پر چھاپہ مارا گیا اور کبھی تنظیمی ساتھیوں کی غیر قانونی گرفتاری اور شہادت کے واقعات سامنے لائے گئے لیکن نیشنلزم کے نظرئیے پر کاربند کریمہ بلوچ عزم و استقلال کی مثال بن کر ان ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرتی رہی۔
تنظیمی اور تحریکی ساتھیوں پر ریاستی غیض و غضب کا آغاز ہوا اور تنظیم پر پابندی عائد کرکے اسکے سیاسی سرگرمیوں کے انسداد کی کوشش کی گئی تو دختر بلوچستان سیسہ پلائی دیوار بن کر تنظیمی امور کو آگے بڑھاتی رہی۔
جب دو ہزار چودہ میں چئیرمین زاہد بلوچ کو ماورائے عدالت گرفتار کیا گیا تو کریمہ بلوچ نے تنظیم کی قیادت کرکے نوجوانوں کو منظم کرکے تنظیم کو فعال کئے رکھا۔ دو ہزار پندرہ کے کونسل سیشن میں جب کریمہ بلوچ چئیرپرسن منتخب ہوئی تو قیادت کے فیصلے کے مطابق کینیڈا کے شہر منتقل ہوئی اور بلوچستان میں ریاستی دہشتگردی کو عالمی دنیا میں بھرپور انداز میں اجاگر کرنے کی کوشش کی۔
بلوچ قومی تحریک سے خائف ریاست اور اسکے ادارے بلوچستان سمیت دنیا کے دیگر ملکوں میں بلوچ قومی تحریک کو ختم کرنے اور بلوچ قومی رہنماوں کو ٹارگٹ کرنے کی پالیسیوں پر گامزن ہے۔ شہید ساجد حیسن کو سوئیڈن میں اپنے پیشہ ور قاتلوں کے ذریعے شہید کرنا اور اسکے بعد بلوچ قومی تحریک میں فعال کردار کرنے کی پاداش میں بانک کریمہ بلوچ کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں شہید کردیا گیا۔
کریمہ بلوچ کو شہید کرنے والے وہی خفیہ اداروں کے کارندے ہیں جنہوں نے بلوچستان میں سینکڑوں بلوچ نوجوانوں کو شہید جبکہ ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو غائب کروایا۔
کریمہ بلوچ،ساجد حسین، جنرل اسلم بلوچ کی دیار غیر میں شہادت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ریاست پاکستان نے بیرونی ممالک میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے سیاسی رہنماوں پر گھیرا تنگ کرنے کی پالیسیوں پر عملدرآمد شروع کردیا ہے۔
ریاست،ریاستی دفاعی ادارے شروع دن سے بلوچ آزادی کی تحریک کو کاونٹر کرنے، تحریک کو بیرونی پراکسی ثابت کرنے اور عوام میں منفی پروپگنڈوں کو تقویت فراہم کرنے کے لئے کثیر الجہتی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور بانک کریمہ کی شہادت ریاستی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ جب کریمہ بلوچستان میں تحریکی کاموں میں مصروف عمل تھی تو ریاست اور اسکے کارندے اسکی جان کے در پہ تھی اور جب وہ بیرون ملک تحریک کے لئے کام کررہی تھی اور پاکستان کا گھناونا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کررہی تھی تو اسے ریاست نے اپنے پیشہ ور قاتلوں کے ہاتھوں شہید کردیا۔
شہادت کے بعد بھی ریاستی کارناموں کا پہیہ چلتا رہا جب چوبیس دسمبر دو ہزار اکیس کو شہید کی جنازہ کراچی ایئرپورٹ پہنچی تو ریاست نے عوامی رد عمل کے خوف سے لاش کو اپنی تحویل میں لیکر فوجی حصار میں تمپ کی جانب روانہ کردیا۔ تمپ میں کرفیو کا نفاذ، بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں موبائل نیٹ ورک کی بندش، لوگوں کو نماز جنازہ میں شرکت سے روکنے کے لئے فوج کو رکاوٹیں کھڑی کرنے کی ہدایت، کراچی میں شہید کی نماز جنازہ ادا کرنے سے روکنے کے لئے گراونڈ کو بند کرنا، بلوچ یکجتی کمیٹی کے رہنماء ماہرنگ بلوچ اور ساتھیوں کو تربت میں داخلے سے روکنا اور ضلع بدری کے احکامات جاری کرنا،شہید کی قبر سے بلوچستان اور تنظیم کے جھنڈے کو ہٹانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کریمہ آج بھی ریاست کے لئے خوف کی علامت ہے۔
ریاست طاقتور ہے وہ ہمیں مار سکتا ہے، لاشوں کی بے حرمتی کرسکتا ہے، لوگوں کو جنازے میں شرکت کرنے سے روک سکتا ہے، کرفیو کا نفاذ اور موبائل نیٹ ورک بند کرسکتا ہے لیکن نظریئے کو شکست نہیں دے سکتا، مزاحمت کو شکست نہیں دے سکتا۔
بانک کریمہ علامت تھی مزاحمت کی، بلوچ نیشنلزم کے نظرئیے پر کاربند رہنماء آج خود نظرئیے اور مزاحمت کا روپ دھار چکی ہے اور اس سوچ کو شکست برطانیہ، امریکہ، فرانس جیسی ریاستیں نہیں دی سکی تو پاکستان کیسے دے سکتا ہے جو بیرونی آقاوں کی دلالی کے لئے وجود میں لایا گیا ہے۔
کریمہ امر ہے اور وہ کسی اور روپ میں دوبارہ نمودار ہوگی اور ریاست کو خوف کے حصار میں لیکر دوبارہ بلوچستان بھر میں اپنی مسحور کن آواز سے لوگوں کو بیدار کریگی کیونکہ بانک نظریئے کا نام ہے۔ کیا تم نظریئے کو شکست دے سکتے ہو؟