نو آبادیاتی نفسیات
تحریر: شہید کمبر چاکر
( یہ تحریر شہید کمبر چاکر کے ڈائری سے لی گئی ہے اور پہلی بار شائع کی جارہی ہے)
دی بلوچستان پوسٹ
جیسے جیسے نوآبادیاتی نظام مضبوط اور توانا ہوتا جاتا ہے، ویسے نوآبادیاتی عوام کے اندر انسانیت ختم ہوتا جاتا ہے۔ اپنے اقدار، روایات ، تاریخ ، زبان ہرشے سے وہ بیزاری کا اظہار کرتا ہے ، نفرتوں کے دیواریں بلند ہوتے جاتے ہیں ، نوآبادیاتی عوام جو اپنے بہادری ،شجاعت ، مہمان نوازی اور میارجلی پر نازاں تھے اب اُن سب سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
نوآبادیات اپنے ہزاروں سالہ عظیم تاریخ ، رسم و رواج ، زبان غرض ہر چیز کو کل کے بنے ہوئے استعماری طاقت سے کم تر ، حقیر ، کمزور اور غیرمہذب سمجھتا ہے ، نوآبادیاتی انسان کی شکل میں جانور بن جاتا ہے۔ بےحس ، بُزدل ، غیرمہذب وہ آج بھی لڑتا ہے مگر اپنے لوگوں سے ، نوآبادیاتی نظام میں مقامی لوگوں کا یہ حال، استبدادی طاقت، تشدد کے زریعے کرتا ہے۔ تشدد کے زریعے مقامی لوگوں کی انسانیت ختم ہو جاتی ہے اور وہ جانور بن جاتے ہیں ، انہیں اپنے زمین ، زبان ، تاریخ ، عوام ، روایات سے بےپناہ محبت ہوتی ہے لیکن تشدد کے خوف سے وہ اس کا اظہار نہیں کر پاتے ، مقامی لوگوں کے رہن سہن اور رواج کو قبضہ گیر غیرمہذب قرار دیتا ہے، اُنکے تاریخ اور زبان کو فرسودہ کہہ کر مقامی لوگوں کو اُس سے دور رہنے کو کہا جاتا ہے ، مقامی لوگوں کو ترقی دینے اور مہذب بنانے کا کہہ کر اُن سے وابسطہ ہر چیز کو چھین کر اپنے مفادات کا تحفظ کرتاہے۔
لینن کہتا ہے کہ استبدادی طاقت پولیس اور فوج کی مدد سے مقامی لوگوں کو دباتا اور کُچلتا ہے۔
بظاہر ان کا مقصد ملک میں امن امان بحال کرنا ہے لیکن دراصل یہ لوگوں کے حقوق دبانے ، جوڑتوڑ اور بزور طاقت غلام رکھنے کا عمل ہوتا ہے۔
دنیا میں جینے کا حق اُنکو ہے جن کے پاس قوت ہو۔ کمزور قوموں کو ہمیشہ طاقت کے ذریعے کُچلا جاتا ہے۔ دنیا میں وہی قومیں باقی رہ سکتے ہیں جو اپنا دفاع کرسکتے ہیں ۔
بلوچی میں کہتے ہیں
ہیرانی تمن ویران انت
سیت گون شکلیں جنگان انت
جنگی جنوں میں مبتلا سامراجیوں کو مسلح لڑائی کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا۔
you take you risht dont beg the
you den,t buy then with tears but with blood
.
نوآبادیاتی طاقتیں ایسی زبان استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور ، درندے اور غیر مہذب افراد کی طرح پہچانے جاتے ہیں، وہ مقامی لوگوں کے لباس ، روایات کا مزاق اُڑاتے ہیں جس کا مقصد انہیں غیرانسانی ثابت کرنا ہوتا ہے ۔
مقامی لوگ آبادکاروں کے ہتھکنڈوں میں جکڑے جانے کے بعد احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہ احساس مقامی لوگوں کیلئے زہر قتل ثابت ہوتی ہے، کیونکہ یہ احساس عزت نفس کو مجروح کرتا ہے اور مقامی لوگ خود اپنی نظروں میں گِر جاتے ہیں اور اکثر ایک دوسرے کے ساتھ نفرت کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اُنکے درمیان نسلی نفاخر ، مذہبی اور علاقائی چپقلش اور تشدد کو جنم دیتا ہے ، جس کے نتیجھے میں باغیانہ خیالات اور احساسات جنم لیتے ہیں۔
جیسا کہ کہتے ہیں
Decolonigatias is always a violent phenomenon
دانشوروں کا قول ہے کہ تشدد کو تشدد کے زریعے ہی ختم کی جاسکتی ہے، اگر ہم اس قول کے پس منظر میں جائیں تو ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ دنیا میں استعماری قوتوں نے اپنی نوآبادیوں کو بچانے کیلئے تشدد کا ہتھیار استعمال کیا ہے۔ اس کی نظر ہمیں ویت نام میں ملتی ہے کہ غیر مُلکی امریکی غاصبوں نے شمالی ویت نام کے ایجنٹوں کے ذریعے جنوبی ویت نام پر تشدد کے ذریعے حکومت کرنے کی کوشش کی ، لیکن جب تشدد کا جواب تشدد سے دیا گیا تو استعماری قوتوں کو پسپا ہونا پڑا۔
اس کے علاوہ انگریز بادشاہ نے دنیا کے بہت بڑے حصے پر تشدد کے ذریعے حکمرانی کی اور اُسکا جواز یہ پیش کیا گیا کہ ملکہ کا تاج قانون ، پارلمنٹ اور مختلف اداروں کا حوالہ دیا گیا کہ اُنکو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسرے قوموں پر حکمرانی کریں جب کسی نے نوآبادیاتی نظام، تشدد اور بیرونی حکمرانوں کیخلاف احتجاج کیا تو دیسی باشندوں کو تشدد کے ذریعے کُچلا گیا۔
سری لنکا میں 23 سال تاملوں کی جدوجہد کو قانون اور پارلیمنٹ کے نام پر کچلا گیا لیکن مشرقی تیمور میں تیموری عوام نے اپنے آزادی کو حاصل کرنے کیلئے انڈونیشیا کیخلاف تشدد کا جواب تشدد سے دیا ، تو وہ اُس میں کامیاب ہوئے ، لیکن اپنے اس پر تشدد جدوجہد میں 2 لاکھ مشرقی تیموری فرزندوں نے قبرستانوں کو آباد کرکے اپنے 10 لاکھ ہم وطنوں کو ایک خوشحال اور آزاد مشرقی تیمور دیا ۔
دنیا میں ایک واضح اصول ہے کہ منفی رجحان کو Negation کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتا ہے، اگر ہم ایک غلام قوم کی حیثیت سے دیکھیں تو ویت نام کے انقلابی ہوچی منہ نے کہا کہ ” جو ہمیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا چاہتا ہے اُسے آخری ویتنامی کے لاش سے گزرنا پڑیگا”
ہمیں ایک نوآبادیاتی نظام کے نظر میں دیکھا جائے کہ ایک استعماری قوت اپنے ایجنڈوں کے ذریعے 1948 سے بلوچستان میں تشدد کے ذریعے حکمرانی کر رہا ہے ، استعماری قوتیں ہمیشہ تشدد کا سہارہ لیتے رہے لیکن نام نہاد بلوچ قوم پرستوں کی حکومت جو نیپ کے حکومت کی صورت میں آئی تھی اُسے 6 مہینوں کے بعد ختم کرکے بلوچ عوام پر تشدد کا سلسلہ شروع کیا گیا ، پاکستان کے وجود سے لیکر آج تک کوئی ایسا دور نہیں جب بلوچ قوم پر تشدد نہ کی گئی ہو ، تشدد سے مُراد بلوچ کو دبانا ، بلوچ قومی روایات ، تاریخ ، زبان ( بلوچی اور براہوئی ) کو ختم کرکے اسکی جگہ پاکستانی سوچ کو مسلط کیا گیا۔
جس طرح استعماری طاقت ہمیں تشدد کے ذریعے غلام بناکر ہماری آزادی کو سلب کرکے صرف تشدد کے ذریعے حکمرانی کرتا ہے ۔ جس تشدد کے ذریعے استعماری طاقتوں نے مقامی لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے ، جب دیسی باشندے استبدادکے جواب میں تشدد ، مقامی لوگوں کا قبضہ گیرطاقت کیخلاف تشدد کا عمل ان کے انسانیت کو بحال کرتی ہے۔
ظلم و جبر اور تشدد میں پسے ہوئے محکوم لوگوں کیلئے خوشحالی ، برابری اور آزادی کا جگمگاتا سحر نوآبادکاروں کی گلتی ،سڑتی لاشوں سے ہی طلوع ہو سکتا ہے اور ظلم و جبر کی مضبوط زنجیروں کو آگ ہی ختم کرسکتی ہے۔
کہتے ہیں کہ مرنے کیلئے تیار ہو جاؤ یا مارنے میں سبقت لے جاؤ ، تشدد ہی تشدد کے زخموں کو مندمل کرسکتا ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں