سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاج کو 4177 دن مکمل ہوگئے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے کنوینئر بانک آمنہ بلوچ، ماہ گنج بلوچ، کوئٹہ سے حوران بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ بلوچستان میں آگ و خون کے منظر کو گہرا بنانے والی ریاستی طاقت آئے روز نت نئے انسانی المیوں اور جبر و استبداد کو بہیمانہ مظاہر سامنے لارہی ہے۔ فورسز اور خفیہ اداروں کی آپریشنوں اور بلوچ کی ماوارائے قوانین اغواء نما گرفتاری، جبری گمشدگیوں اور تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی روز کا معمول بن چکا ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ حقائق تسلیم کرنے کی صورت میں بلوچ قوم کو خون میں نہلانے اور اس کی سرزمین اور وسائل پر تسلط جمانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہونے اور اپنی جارحیت تسلط سے دسبردار ہونا پڑے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب بلوچ نے قابض کے گردن پر پاوں رکھا اور اس کے ہاتھ کو مروڑا تو سب چیخ اٹھے کہ بلوچ بدتمیزی اور غیر مہذب ہونے کا مظاہرہ کررہے ہیں، اس کو نوآبادیاتی تہذیب و تمدن کیلئے خطرہ سمجھتے ہوئے بلوچ نسل کشی کے حامل سفید پوش لبرل بڑے دھیمے اور نرم لہجے میں بلوچ قوم کو نصیحت کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قابض اپنی ناکامی کے بدلے بولان اور مکران کے علاقوں کو محاصرے میں لیکر لوگوں کو لاپتہ کررہی ہے۔ گذشتہ روز شاہرگ سے 15 افراد کو حراست میں لیکر پاکستانی فورسز نے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جبکہ بلوچستان میں جنگلات کو بھی فورسز نہیں بخش رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی کاروائیوں سے بلوچ سماج میں پاکستانی مقتدرہ قوتوں اور ان کے آلہ کاروں کیخلاف مزید نفرت بڑے گی۔