اسے ایک ہی اشلوک آتا تھا، آزادی! – محمد خان داؤد

141

اسے ایک ہی اشلوک آتا تھا،آزادی!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

ایاز نے لکھا
”ھُوءَ جنھن جے من میں گھاٹ ھنے تھی
تنھن جو سب سُکھ چین کھنے تھی“
”وہ جس کے من میں ڈاکہ ڈالتی ہے،اس کا سُکھ چین لے جا تی ہے“
اور وہ کیا ہے؟
”آزادی!“
جب زاہد بلوچ کو اس کی آنکھوں کے سامنے اُٹھایا گیا،اور BSOآزاد کا سرخ پرچم تھوڑی دیر کے لیے متلل رہا تو اس نے آگے بڑھ کر اس سرخ پرچم کو تھام لیا،اس نےBSOکا سرخ پرچم اس لیے نہیں تھاما تھا کہ اسے بانک کریمہ بننا تھا اور ہر اس بلوچ دل میں دھڑکنا تھا جس دل میں
ماں،محبوبہ اور وطن کے لیے محبت ہے!
بلکہ اس نے وہ سرخ پرچم اس لیے تھاما تھا کہ
وہ آزادی پسند تھی
اسے آزاد رہنا پسند تھا
وہ آزادی کو محبوب کی مانند چاہتی تھی
آزادی اس کا غرور تھا
آزادی اس کا پہلا اور آخری سبق تھا
اس کی سبز آنکھوں میں آزادی کے سنہرے خواب تھے
وہ آزاد گروں کی آزاد پیرو کار تھی
وہ غلام ملک میں آزاد انسانوں کے ہاتھ چومتی تھی
اور اپنی آزاد آنکھوں تک لے جا تی تھی
اس کے ہاتھوں میں BSOآزاد کا سرخ پرچم
اور اس کے سر پر جو دوپٹہ رہتا وہ تین رنگوں والا
آزاد،آزادی کا پرچم رہتا
کیوں؟
اس لیے کہ
”ھُوءَ جنھن جے من میں گھاٹ ھنے تھی
تنھن جو سب سُکھ چین کھنے تھی!“
اور ”ھُوءَ“ کیا ہے؟
”آزادی!“
اس کے من میں بھی آزادی نے ڈاکہ ڈالا تھا اس لیے وہ غلام دھرتی پر آزاد رہنا چاہتی تھی۔وہ چاہتی تھی اس کی دھرتی آزاد رہے۔اس کے پہاڑ آزاد رہیں،پہاڑوں کے سروں پر پڑے پتھر آزاد رہیں،پہاڑوں کے دامنوں میں کھلنے والے سرخ،سفید پھول آزاد رہیں،پہاڑوں کی اُوٹ سے بہنے والے آبشار آزاد رہیں۔ان آبشاروں پر پیاس بجھا تے پنکھ آزاد رہیں،بہتا پانی آزاد رہے،ندی نالے آزاد رہیں،دیس میں چلنے والی ہوائیں آزاد رہیں۔دیس کی دھرتی پر برستی بارش آزاد رہے،بارش کا ہر ہر قطرہ آزاد رہے،پہاڑوں کا سر سفید کر دینے والی سفید روئی کی ماند برستی برف آزاد رہے،میرے دیس کے معصوم لوگ آزاد رہیں
جب سب کچھ آزاد ہو
ہواؤں سے لیکر فضاؤں تک
پہاڑوں سے لیکر گرتے جھرنوں تک
ندی نالوں سے لیکر برستے آبشاروں تک
کھجیوں کے اونچے درختوں سے لیکر پہاڑوں کے دامنوں میں کھلتے سفید سرخ پھولوں تک
تو پھر میرا دیس بھی آزاد ہو!
وہ چاہتی تھی کہ وہ آزاد دیس کی آزاد کریمہ ہو
وہ غلام دیس کی غلام کریمہ نہ ہو
یہ اس کے من میں کیوں کر آیا
کیوں کہ
”ھُوءَ جنھن جے من میں گھاٹ ھنے تھی
تنھن جو سب سُکھ چین کھنے تھی!“
اور”ھُوءَ“ کیا ہے؟
”آزادی!“
شاید کریمہ نے زندگی میں کبھی گیتا پڑھی ہو جس میں لکھا ہوا ہے کہ
”ارجن تم ویسے بھی مر جاؤ گے
پر میں چاہتا ہوں تم مر کر بھی زندہ رہو
وہ ایسے کہ تم لڑتے لڑتے مارے جاؤ
لڑتے لڑتے مارے جانے والے کبھی نہیں مرتے
اگر میں نے کچھ سیکھا ہے تو بس یہی!“
اگر کریمہ نے کبھی گیتا پڑھی ہوگی،اس میں ارجن کا چیپٹر پڑھا ہوگا تو اسے یہ چیپٹر از بر ہوگا اس لیے اب وہ نہیں مر سکتی وہ لڑتی لڑتی مری ہے جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”دودا جے تو ن
وڑھندے وڑھندے ماریو ویندے
دودا!تنھنجو ساہ تہ ویندو
پر مانھون جو ویسا ہ نہ ویندو!“
”دودا!اگر تم لڑتے لڑتے مارے گئے
تمہا ری جان ہی تو جائیگی نہ
پر دودا!لوگوں کا اعتبار نہ جائیگا!“
اب کریمہ ہے اور نہ ہے کہ بیچ میں ہے پر ہم مانتے ہیں کہ ہما ری بہن،ہما ری ادی۔ہما ری بانک ہے!
کیوں کہ وہ آزادی پسند تھی۔وہ پیٹھ دکھا کر نہیں بھاگی،وہ لڑتی لڑتی ما ری گئی ہے۔ہمارا یقین،ہمارا اعتبار اس پر اب بھی ویسا کہ ویسا ہی قائم ہے اس وقت اگر وہ کینڈا کے شہر ٹورنٹو کے سرد خانے میں بند آنکھوں سے سو رہی ہے تو کیا وہ ہما رے زندہ دھڑکتے دل میں جا گتی آنکھوں سے سرخ پرچم تھامے اور سر پر تین رنگوں والا آزادی کا پرچم رکھے موجود نہیں؟!!
اگر ہے تو وہ کیسے مر سکتی ہے؟
کیوں کہ گیتا میں لکھا ہوا ہے کہ جو لڑ کر مرتا ہے وہ نہیں مرتا وہ زندہ رہتا ہے اس کوئی نہیں مار سکتا ہے!
کریمہ کے نفیس جسم سے سانس کے نازک دھاگے کو تو توڑ سکتے ہو
پر اس کی جدو جہد کو بھا ری بوٹوں سے بھی نہیں کچل سکتے!
کریمہ کے پدھمنی پیروں کے نشانوں کی تو ریکی کر سکتے ہو
پر اس کی دیدا دلیری کو کن آنکھوں میں رکھ سکتے ہو؟
کریمہ کے نازک نفیس ذہن کو تو موت مار دھمکیوں سے ڈرا سکتے ہو
پر اس کے شیر جیسے دل کو کیسے ڈرا سکتے ہو؟
کریمہ کے ہوا کہ جیسے ہلکے جسم پر تشدد کر کے اسے مار تو سکتے ہو
پر اے کانئرو!
اس کی اُڑان کو کیسے روک سکتے ہو جو اب مشرق سے مغرب تک اُڑ رہی ہے
اے کانئرو!
اسے قتل کر کے اس میت بوکس میں بند کر کے غلام دیس کی آزاد دھرتی پر تو روانا کر سکتے ہو
پر اس خوشبو کو کیسے روک سکتے ہو
جو اب چار سو پھیلی ہوئی ہے!
کریمہ آزادی تھی
آزادی کریمہ ہے!
تو تم چاہو بھی تو آزادی کو قتل نہیں کر سکتے
کریمہ آزادی کا خواب تھی
غلام آنکھوں میں آزاد ی کے سب خواب کریمہ ہیں
تم آزادی کے خوابوں کو کیسے قتل کر سکتے ہو؟
کریمہ آزادی کا سپنا تھی
اب تک ایسی کوئی ایجاد نہیں ہوئی کہ وہ آنکھوں سے آزادی کے سپنے نوچ لے
تم ایک آنکھ کو قتل کرو گے
آزادی کا سپنا دوسری آنکھوں میں گھونسلہ بنا دے گا
تم دوسری آنکھ کو بندوق سے قتل کرو گے
آزادی کا سپنا تیسری آنکھ میں ڈیرہ جما دے گا
آزادی باقی رہے گی
کانئرو!تم تمام ہو جاؤ گے
کریمہ بھی آزادی تھی
باقی رہے گی
پر تم تمام ہو جاؤ گے
بہت جلد
بہت جلد
بہت جلد!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں