کریمہ بلوچ مبینہ قتل، کراچی اور لاہور میں مظاہرے اور ریلیاں

566

سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی ٹورنٹو میں مبینہ قتل کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر عوام کی بڑی تعداد نے کراچی پریس کلب کے سامنے جمع ہوکر احتجاج کیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر آج کے احتجاج میں خواتین کی بڑی تعداد شریک تھی، جبکہ کراچی کے مختلف علاقوں سے بلوچ، پشتون اور سندھی سیاسی کارکنوں کے علاوہ انسانی حقوق کمیشن کے نمائندوں طلباء و طالبات بھی بڑی تعداد میں شریک تھے۔

احتجاج میں شامل خواتین اور بچوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر بلوچی، انگلش اور اردو زبان میں کریمہ بلوچ کے لیے انصاف کے نعرہ درج تھے۔

مظاہرے سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ماما قدیر بلوچ، لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی مہلب، یوسف مستی خان اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کریمہ بلوچ قتل کو حادثہ یا طبی قرار دینا درست نہیں ہے، بلوچ اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے صاف و شفاف طریقے سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کریمہ مزاحمت کی علامت ہے، نظریے مرتے نہیں بلکہ وہ ہماری رہنمائی کرتی رہیگی۔

انہوں نے کہا کہ کریمہ آج ہزاروں سیاسی کارکنوں کی سیاسی ماں ہے، کریمہ کی تربیت سے احسان، شہداد اور پیرک جیسے نوجوان پیدا ہوتے ہیں۔

مقررین نے کہا کہ بلوچ قوم اور انکے ہمدرد کریمہ بلوچ کی موت کو ریاستی اداروں کا کارستانی قرار دیتے ہوئے کینڈا سے صاف شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ساجد حسین اور کریمہ بلوچ کو ایک ہی طریقے سے مارا گیا اور نشانات مٹانے کے لیے خودکشی کا ڈرامہ رچایا جارہا ہے۔

مقررین نے کہا کہ عارف، بارکزئی، راشد حسین، ساجد حسین، کریمہ کو بیرون ممالک سے ریاست نے اپنا نشانہ بنایا۔ کینیڈا کو اپنی غلطی تسلیم کرکے معافی مانگ لینی چاہیے وہ بلوچستان کی بیٹی کی حفاظت نہیں کرسکی۔

دریں اثناء پنچاب کے دارالحکومت لاہور میں بھی طلباء و طالبات سمیت دیگر مکاتب فکر کے لوگوں کی بڑی تعداد نے کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کینڈین حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ موت کی تفتیش کو صاف و شفاف طریقے سے انجام دے کر کریمہ کی خاندان اور قوم کو انصاف فراہم کریں۔

خیال رہے کہ تاحال کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کے وجوہات سامنے نہیں آسکی ہیں۔ اہلخانہ اور بلوچ سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں قتل کیا گیا ہے جبکہ ٹورنٹو پولیس کہ مطابق اب تک کسی جرم کے مرتکب ہونے کے شواہد نہیں ملے ہیں۔