باڑ کے پار، میرا سمندر – مرید بلوچ

670

باڑ کے پار، میرا سمندر

تحریر: مرید بلوچ
(بلوچ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ)

دی بلوچستان پوسٹ

یونیورسٹی کی چھٹیاں چل رہی تھیں۔ تقریبا دس دن پہلے ہی سنجر کوئٹہ سے واپس آبائی شہر آیا ہوا تھا۔ اسکا اس شہر میں اب کم ہی آنا جانا تھا مگر جب بھی آتا ہے اپنے دوست سنجر کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گذارتا۔

سنجر اپنے دوست کے ساتھ میدان میں بیٹھے ماضی کے لمحات کو یاد کر رہا تھا جب انکے والد ماہیگیری کے پیشے سے وابستہ تھے۔ وہ اکثر اوقات اپنے اسی دوست کے ساتھ کشتیوں پر سوار ہوتا، وہی کشتیاں اور سمندر کنارہ انکے کھیلنے کا میدان ہوا کرتے تھے۔

یار ساول سمندر کو نظارہ کرنے کا من ہو رہا ہے۔ ذہنی تھکاوٹ کے باعث مرجھے ہوئے سنجر نے فرمائش کی۔

منچھلے سانول نے دوست کے ذہنی تھکاوٹ کو محسوس کرتے ہوئے خوشی سے جواب دیا ” ہاں یار عرصہ ہوا ہے سمندر نہیں دیکھا ہے۔ 3 سال پہلے ایک بار کیپٹن عزیز کی سفارش پر وہاں گئے تھے جسکے بعد موقع ہی نہیں ملا۔ مجھے بھی چھوٹی آنکھوں والی بونی لڑکیوں کی اب یاد آ رہی ہے۔ ساول یہ کہہ کر شرارتی مسکراہٹ سے سنجر کی طرف دیکھنے لگا۔

چھوڑو یار ساول تم بس ہر وقت اسی موڈ میں ہوتے ہو۔ مجھے تو بس اس سمندر سے محبت ہے، اسکی کشتیاں، وہ کیکھڑے جنہیں ہم گلیل سے نشانہ بناتے، وہ چٹانیں جو ہمارے گھر ہوا کرتے تھے جن سے بچھڑے ہوئے اب عرصہ ہو چکا ہے۔

دوست کی اداسی کو سمجھ کر ساول نے جواب دیا ٹھیک ہے یار کوشش کرتے ہیں مگر اس بار کس کی سفارش پر چلیں میرا تو بس وہی 1 فوجی دوست تھا جو اب لاہور جا چکا ہے۔ سنجر نے بھی اداس چہرے کے ساتھ نا میں سر ہلایا۔

یار بغیر سفارش کے بھی سیکیورٹی اہلکار 1500 روپے لے کر راہداری بنا کر دے دیتے ہیں بشرطیکہ گوادر کا لوکل ہو۔ مگر میرے شناختی کارڈ پر پسنی کا پتہ درج ہے۔ دونوں کو کچھ دیر کے لئے پھر گہری خاموشی نے جکڑ لیا اور 10 منٹ مزید سوچ بچار کرنے کے بعد اس بات پر اتفاق کر لیا کہ سیکیورٹی اہلکار کو کچھ دے کر اجازت نامہ حاصل کر لیں گے۔

قریب آدھے گھنٹے بعد دونوں دوست باڑ کے ساتھ لگے 1 کمرے کی کھڑکی تک جا پہنچے جہاں سے انہیں راہداری ملنا تھا۔ یہ کمرہ زرد رنگ کا تھا جس پر 1 بورڈ لٹکا ہوا تھا اور اس پر چائینیز زبان میں کچھ درج تھا مگر یہ زبان انکی سمجھ سے باہر تھا اور انہیں اس کی ضرورت بھی نا تھی۔ وہ دونوں کھڑکی پر بیٹھے سیکیورٹی اہلکار سے بلوچی میں احوال کرنے لگ گئے۔

سیکیورٹی آفیسر گھبرایا ہوا سا تھا جس نے دھیمی آواز میں انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔

” شما منی لاپ ء چیا لگت جنگائے۔ اردو ء ھبر کن منی آفسر ہمد انت” وہ دانتوں کو دباتے ہوئے انہیں غصے سے گھورنے لگا۔ وہ دونوں بھی کچھ شرمندہ ہوئے اور معذرت کے ساتھ اردو میں “راہداری” کی درخواست کی۔

کچھ سوچ کر سیکیورٹی پر مامور اہلکار نے جواب دیا۔ آج کل راہداری پر پابندی ہے اور ویسے بھی اس ہفتے ” چائینا سے آفسرز کے فیملی” بیچ وزیٹ پر آئے ہوئے ہیں تم لوگ بلکل نہیں جا سکتے اگلے ہفتے آو، میں اپنے آفسر کو بھی سمجھا دونگا شاید راہداری مل جائے۔

یار آپ بھی یہیں کے لوکل ہو کچھ کرو ہمارے لئے ہم سائیڈ میں کہیں چلے جائینگے سمارٹ سٹی کے قریب بھی نہیں گذریں گے۔ کچھ کرو بھائی ہم کافی دور سے آئے ہوئے ہیں۔ ساول نے درخواست کیا۔

تم ضد کیوں کر رہے ہو میں نے کہا نا اگلے ہفتے میں آفیسر سے خود سفارش کرونگا آج کل حالات سخت ہیں کوئی بھی لوکل یہاں سے نہیں جا سکتا سوائے پورٹ پر کام کرنے والے ملازمین کے۔

میں مشہور ماہیگیر داد خدا کا بیٹا ہوں انہیں تم جانتے ہو نا۔ ہمارا خاندان سالوں تک یہیں رہتا تھا آپ ہمیں جانے دو راہداری کے فیس کے علاوہ بھی ہم آپ کا خیال بھی رکھ لیں گے ” سنجر نے جیب میں ہاتھ لگا کر اشارے سے بولا۔

ہاں ہاں جانتا ہوں اس “دادو” کو۔ آج کل پنچر کا کام کر رہا اس روڈ پر۔ سیکیورٹی اہلکار نے طنزا جواب دیا۔ مزید وہ کچھ بولتا اس سے پہلے ہی وہاں کا سیکیورٹی آفیسر بھی کمرے تک پہنچ چکا تھا۔ جسے دیکھ کر اہلکار یک دم سرخ ہو کر آگ بگولا ہو گیا۔

اب تم لوگ چلے جاو یہاں سے۔ میں کب سے تمیز سے بول رہا ہوں کہ تم لوگ آج نہیں جا سکتے مگر تم بھی ضد کر رہے ہو تو سنو تم لوگ بعد میں بھی نہیں جا سکتے اب چلے جاو یہاں سے ورنہ میں الارم بجا دونگا اور تمہیں وہ گارڈ مارتے مارتے یہاں سے بھگا دیں گے۔

سنجر اور ساول نے مزید بحث کرنے کو اپنی عزت داو پر لگانے کے مترادف جانا اور خاموشی سے ایک دوسرے کو خاموش رہنے کا عندیہ دیتے وہاں سے واپسی کا رستہ اختیار کر لیا۔ اس وقت تک مغرب ہو چکی تھی۔ سورج بھی بلکل ان دونوں کے چہرے پر خوشی کی مانند غروب ہونے جا رہا تھا۔ باڑ کے دوسری طرف لائیٹیں جل چکی تھیں اور روشن شہر انکی نظروں کے سامنے تھا مگر وہ اندھیر نگری کی جانب بڑھ رہے تھے جہاں لوڈ شیڈنگ جاری تھی، سڑک کچی تھی، پانی اب بھی کھارا تھا، نا یونیورسٹی تھی نا کوئی اچھا کالج اور نا ہی کوئی ہسپتال، ان کے پاس تھا بس وہی ایک ” سمندر” جو اب باڑ کے اس پار انکے ہاتھوں اور نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔