میر عبدالعزیز کرد کون تھے
تحریر و تالیف: کامریڈ علی ظفر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میر عبدالعزیز کرد جس کی زندگی کی 28 سال جیلوں میں گذری۔ میر عبدالعزیزکرد 1907ءکو مستونگ میں میر ٹلن خان کے گھر میں پیدا ہوئے۔ پانچ سال کا تھا والدہ کا انتقال ہوا۔ میر عبدالعزیز کرد نے کمسنی میں ہی سامراج مخالف سیاسی اثر اپنے والد سے لیا۔ان کے والد ٹلن خان ریاست قلات کے ملازم ہونے کے باوجود بھی اپنے سیاسی خیالات کی وجہ سے انگریز سامراج اور ان کی حامی سرداروں کے خلاف تھا۔میر عبدالعزیز کرد نے کم عمری ہی میں 1920ء میں اولین بلوچ شہری منظم سیاسی تنظیم “ینگ بلوچ “کی بنیاد رکھی۔ اور جدید انداز کی سیاست شروع کی۔ بلوچ قبائلی معاشرے میں سیاست کرنے کا نیا تجربہ تھا، جلسہ جلوس، ہڑتالیں اور قراردادیں۔ “ینگ بلوچ “کا مقصد ملکی ملازمین کے حقوق کا تحفظ کرنا تھا انہوں نے اس طرح زندگی کا زیادہ تر حصہ جیلوں میں گذارا۔ وہ ہمیشہ سرداری نظام کے خلاف تھے ۔وہ جیلوں سے رہا ہو جاتا تو واپس اپنا سیاسی تحریک شروع کرتا۔لیکن پھر ان کو گرفتار کیا جاتا۔لیکن وہ اپنے مقصد پہ ڈٹے رہتے۔
میر عبدالعزیز کرد ہمیشہ عوام سے جڑے رہےاور اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ وہ آزادی ء وطن کے لیے بے صبر عاشق تھے۔”بلوچستان میں سیاست کا بنیاد رکھنے والا میر عبدالعزیز کرد 15اپریل 1969ء کو ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوکر عزیز آباد مستونگ میں آسودہ خاک ہوئے۔
سرمایہ دارانہ نظام قوم و ملت کے لیے ناسور کی حثییت رکھتا ہے۔بلوچستان کے خانہ بدوش لوگوں کو چھت مہیا کرنا چاہیے۔روٹی اور تعلیم کا بندوبست ہواور ان کی صحت کا انتظام ہو۔
مستقبل کے بلوچ معاشرےکے بارے میں یہ خیالات بلوچ قوم کے بزرگ میر عبدالعزیز کرد کے تھے۔جو اس نے نصف صدی پہلے کہے تھے ۔انہی فقروں کی عصمت بچاتے بچاتے اور ان دو فقروں کی ترویج کرتے کرتے بلوچوں کا یہ سفید ریش زندگی بتاگیا۔
وہ اور اس کے ساتھی انہی آدرشوں کے لیے مر مر کر جیتے رہے اور جی جی کر کام کرتے رہے۔اس کے بعد بلوچ قوم کے اندر بے شمار سچے اور باشرف فلاسفر، دانشور اور سیاست دان آئے۔وہ سب بھی اپنے اپنے تجربوں اور اپنے اپنے حالات سے گزر کر اسی دو نقاطی منشور پر پہنچے اور یہی وہ کم سے کم نکات ہیں۔جن سے آج بھی ہر ایماندار اور نیک انسان متفق ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
بلوچ سیاسی تحریک میں میر عبدالعزیز کرد کی بڑی اہمیت ہے۔اس لیے کہ کرد صاحب وہ اولین شخص ہے ۔جس نے قبائلی معاشرے کے اندر سے ابھر آنے والے نومولود شہری مراکز کی اہمیت کو جانچ کیا تھا ۔ اور اس طرح بلوچ تاریخ میں عبدالعزیز کرد وہ پہلا شخص ہے۔جس نے شہری مراکز کا انداز سیاست شروع کیا۔اور بلوچوں میں قرارداد جلسے کی جدوجہد متعارف کردی۔
پمفلٹ، پوسٹر، اخباراور ہڑتالیں جیسی باتیں جو بلوچ سیاست میں بلکل نئی باتیں تھیں۔اس لیے میرا دعویٰ ہے کہ قبائلی طرز مزاحمت کی روایتی فضا میں ایک نئے داؤ پیچ کی بنیادیں ڈالنے والے میر عبدالعزیز کرد کا مقام بلوچ تاریخ میں کبھی بھی مدہم نہ ہوسکے گا۔ تب والد نے عزیز اور اس کے چھوٹے بھائی غلام حسین کی تربیت خود کی انھیں مستونگ کے انگلش ورنیکلر مڈل سکول میں داخل کردیا۔مگر وہ ابھی بارہ برس کا تھا۔جب والد کا بھی انتقال ہوگیا اس بناء پر وہ مڈل کا امتحان نہ دے سکا۔گویا اس کی روایتی اور باقاعدہ تعلیم پرائمری(یابلوچی میں منّو مڈل) ہی رہی۔
لیکن ڈگریوں والی تعلیم پر بڑے انسانوں کا انحصار بھلا کب رہاہے۔دیگر بڑے انسانوں کی طرح کرد صاحب نے بھی اپنی خود تعلیمی کا سلسلہ زندگی بھر جاری رکھا۔اس نے مہاتما گاندھی ،مصطفی کمال پاشا، اور غازی امان اللہ خان وغیرہ کی تحاریک آزادی کا بغور مطالعہ کیا اور سعدی، مولانا آزاد، غالب، بیدل، جامی، نظیری، حافظ اور اقبال کا کلام پڑھا۔یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ہمارے سارے سیاسی اکابرین میں یہ خصوصیات مشترک تھیں۔ میر عبدالعزیز کرد کا والد میر ٹلن خان خود بھی ایک آزاد منش بلوچ تھا۔ شہری مراکز والی ہماری اس ابتدائی سیاست کے خدوخال بھی بہت دلچسپ ہیں۔
یہ سیاست ایران، ترکی، افغانستان، اور روس میں جاری سیاسی اتھل پتھل اور ہندوستان میں برطانیہ دشمن تحریک سے بہت متاثر رہی پڑھے لکھے لوگوں میں یہ بلوچ قومی تحریک 1920ءمیں معرض وجود میں آئی ملحوظ نظر رہے کہ بلوچ قومی تحریک کا یہ نیا جنم عظیم اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کے محض تین سال بعد منشکل ہوتا ہے کیا مضبوط پس منظر ہے جدید بلوچ سیاست کا بلوچستان میں جمہوری انداز والی شہری سیاست کی داغ بیل ڈالنے والے اس اولین شخص میر عبدالعزیز کرد نے 1920ء میں “ینگ بلوچ”کے نام سے اپنی تنظیم قائم کی یہی تنظیم ہماری سیاسی تحریک کا آغاز تھی۔
یہ تنظیم برطانوی سرکارکی ناک کے نیچے بنی تھی ۔اس لیے فطری طور پر اسے خفیہ ہی رہنا تھا۔اس تنظیم کا مقصد ملکی (مقامی) ملازمتوں کے حقوق کا تحفظ کروانا تھا۔جنہیں بہت حقارت سے دیکھا جاتا تھا۔اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے ملازمین بہت دبدبے اور برتری والے تھے۔روزگار کی ساری سہولتیں بھی انھی نان لوکل خارجی لوگوں کے عزیزوں رشتہ داروں کو حاصل تھیں۔
بعد میں اس تنظیم کا نام بدل کر “انجمن اتحاد بلوچستان “رکھا گیااور اسے باقاعدہ سیاسی پارٹی کے بطور لیاگیا۔اس پلیٹ فارم سے یہ انسان دوست افراد عوام میں انگریز سامراج سے آزادی اور قومی یک جہتی کا شعور پہنچاتے رہے۔
یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان بھر میں انگریزی حکومت کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔بالخصوص کمیونسٹ پارٹی اور انڈین نیشنل کانگریس کی تحریکیں قومی جدوجہد کی شکل اختیار کرچکی تھیں۔اور ان کے اثرات آس پاس کی قوموں پر پڑ رہے تھے۔عوام الناس باشعور ہوتے جارہے تھے۔عوام کا یہ سیاسی شعور اس بات کا متقاضی تھا۔کہ ایک ایسی سیاسی پارٹی کی تشکیل ہو جو خود اپنی سرزمین کے مخصوص حالات کا ادراک رکھتی ہو۔اور یوں وہ سامراج دشمنی کی جدوجہد میں عوام کی منظّم رہنمائی کرے۔
میر عبدالعزیز کرد کو بھی آزادی کی خشک ہوا کی تلاش تھی۔وہ ایک ایسی آواز سننے کو بے تاب تھا جو اسُے آزادی وطن کا پیغام دے عزم و حوصلہ عطا کرے۔
اسی زمانے میں (1929ء) میں کرد صاحب کو ایک درویش منش تعلیم یافتہ اور سامراج دشمن ساتھی ملا۔اس کے اُس کے اس نئے ساتھی کا نام یوسف علی مگسی تھا۔اچھی قسمت والوں کو ہی اچھے دوست ملا کرتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نواب مگسی اپنے ڈھنگ سے اور اپنے نظریے کے مطابق سامراج دشمن کرتے کرتے لاہور کے ایک اخبار تک رسائی پاگیا تھا۔اس نے لاہور کے ایک اخبار “مساوات “میں (جسے ڈاکٹر محمد عالم چلاتا تھا) ریاست قلات کے اُس وقت کے جلاد طبع وزیراعظم شمس شاہ کے خلاف ایک زبردست مضمون لکھا ۔جس کا عنوان تھا”فریاد بلوچستان” شمس شاہ گجرات، پنجاب کے ایک گاؤں پیر چٹاں کا رہنے والا تھا۔وہ پہلے پٹواری بنا اور بعد میں انگریز نے اُسے قلات کا وزیراعظم بناڈالا۔
اُس زمانے میں سرکار مخالف مضمون لکھنا بہت بڑا جرم ہوتا تھا اور پھر شمس شاہ جیسے قہار و جبار حاکم کے خلاف لکھنا تو خاندان بھرکی تباہی دعوت دیتا تھا، دانت پیس پیس کر شمس شاہ نے مگسی کو مستونگ جیل بجھوادیا ۔جہاں اس پر بڑی کڑی نگرانی رکھی جانے لگی اور بیرونی دنیا سے اس کے رابطوں پر سخت پابندی لگادی گئی۔مگر خیالات۔نظریات۔بھلا نظر آنے والے چیزیں ہوتی ہیں کیا؟
اور یہاں تو خیالات و نظریات کا مالک عبدالعزیز کرد خود ایک چھلا وہ انسان تھا۔اُس نے جب یہ خدائی مدد دیکھی تو ٹپک کر اسے حاصل کرناچاہا۔
کرد صاحب نے کمال مہارت اور رازداری سے نواب یوسف علی خان مگسی سے رابطہ پیدا کیا اور قلات تحصیل کے نائب کے توسط سےمگسی صاحب کو اپنی پارٹی کی دستاویزات، انجمن کا دستور اور دیگر لٹریچر خفیہ طور پر بھجوادیا اُس کے بعد بلوچستان کی غلامی اور عوام کی پست معاشی سماجی حالت پر بحث مباحثے کیئے۔اور اپنی تحریک اور اس کے مقاصد کے بارے میں آگاہ کیا۔سامراج دشمن یوسف فوراً متفق ہوگیا۔
یوسف علی مگسی اُس تحریک کا ممبربن گیا جس کے کارکنوں کو اپنے کاز کے ساتھ اس قدر اخلاص تھاکہ ان میں سے ہر ایک نے سورۃ یٰسین پر دستخط کرکے اس کے منشور کا پابند رہنے کا حلف اُٹھارکھاتھا مگسی کے آن ملنے سے بلوچستان کی اس پہلی باضابطہ سیاسی پارٹی کے قیام کا برملااعلان کیا گیا اور اس کے لیے بارہ رکنی مجلس عاملہ کا انتخاب بھی عمل میں لا گیا۔یہ وہی دورہے جب وزیراعظم قلات شمس شاہ نے علاقہ جھل مگسی کا کنٹرول براہ راست ریاست قلات کے اختیار میں لے لیا۔
پہلی بار انجمن نے چیرہ دستوں کے خلاف ایک پمفلٹ شائع کرنے کا مقصد کرلیا۔اس سلسلہ میں نواب عزیز مگسی اور میر عبدالعزیز کرد لاہور گئے اور وہاں اُن دونوں کے دستخطوں سے “شمس گردی” کے نام سے ایک پمفلٹ شائع ہوکر بلوچستان پہنچا۔ڈکٹیٹر تو پمفلٹ سے ایسے ڈرتا ہے جیسے یہ اُس کی موت کا پروانہ ہو۔بلوچ تاریخ میں یہ اولین سیاسی تحریروں میں سے ایک ہے۔
جس کا کچھ لہجہ کچھ ہوں ہے۔
قدیم رواج کی روُ سے یہ عام جمہوری رعایا کا مسلمہ حق ہے ۔کہ وہ اپنا فرمان رواخوہ منتخب کرے۔
بلوچ اپنے اس حق سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔اس لیے برٹش حکومت کی توجہ اس طرف خاص طور پر مبذول کراتے ہوئے اپیل کی جاتی ہے کہ براہ مہربانی رعایا کے اس حق کو شمس شاہ کی ذاتی خواہشات پر قربان نہ کیا جائے۔ہم یہ تسلیم کرتےہیں کہ انتخاب جانشین تخت قلات کا مسلہ حل کرنے کے لیے چند سرداروں کے سامنے پیش کیا جائے گا ۔لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جب تک شمس شاہ برسراقتدار ہے اس وقت تک سردار اُس سے ڈرتے ہیں۔اور اُس سے بیزاراور تنگ ہونے کے باوجود اُس کی مخالفت نہیں کرسکتے۔۔۔لیکن ہم یہ واضح کیئے دیتے ہیں کہ سرداروں کا ایسا کوئی انتخاب صحیح تسلیم نہیں کیا جائےگا جو اپنے ملک کی روایات کو پس پشت ڈال کر اپنے ان قبائل کے صلاح مشورے کے بغیر کریں گے جن کی وہ نماہندگی کررہےہیں۔
واضح رہے کہ ریاست قلات کی عام رعایا کوئی ایسا حکمران نہیں چاہتی جو وزیراعظم کا دست نگر بن کر خالی تخت کو برائے پُر کرے اور جس کو رعایا اور ملک کی بہبود سے سروکار نہ ہو ہم ایسا حکمران چاہتے ہیں جو تخت پر بیٹھتے ہی سب سے پہلے دستوری اور ذمہ دار حکومت کا اعلان کرکے جمہوری رعایا کے تخت نماہندگان کی ایک اسمبلی قائم کرئے جس کی ایک باضابطہ کابینہ وزارت ہو۔
یوسف عزیز مگسی اور عبدالعزیز کرد کے مضامین اور اُس کی سیاسی سرگرمیوں سے خوف زدہ ہوگئی اس سب کا تدارک ضروری ٹھہرا۔چنانچہ جنوری 1934ء کو کرد کو گرفتار کرلیا گیا ۔جرگہ سسٹم موجود تھا۔اس”ہر مرض کا علاج ” سے کسی بھی ناپسندیدہ شخص کو سزادلوانا انتہائی آسان بات تھی۔چنانچہ طلب کیا گیا شاہی جرگے کا اجلاس اور میر عبدالعزیز کرد کو ہوگئی تین برس کی قید ۔مگر وہ بھی خاص قید نہیں بلکہ با مشقت جرم کیا اخبار میں لکھنا۔
چنانچہ اس پڑھے لکھے اور جمہوری سیاست کرنے والے انسان کو مچھ جیل بجھوادیاگیامگر یہ اقدام تو انگریز کا تھا جو قبضہ گیر تھا، استعمار تھا سامراج تھا۔اُس کے مقابلے میں آزادی پسندی تھی ،روشن فکری تھی، وطن کی آزادی تھی ۔اتنا بڑا تضاد صرف تین برس جیل سے بھلا کیا ختم کیا یوسکتا تھا ۔کرد صاحب نے پارٹی کے نام جو پیغام دیا ،اُسے چباچباکر پڑھنے کی ضرورت ہے۔
بابو)(عبدالرحمان کرد) نے اُس کی قومی خدمات کو یوں سراہا۔
کنا خواجہ کنا رہبر متو پیدا نما ہمسر
سپہ سالار جنگا تا ننا ناموس ننگا نا
اونا پن بے بہا گنجے اونا غم ننکے صد رنجے
کریس اَس
گرم بازارے بلوچ اینو کہ بیدارے۔
میر عبدالعزیزکرد بلوچ سیاست کے بانیوں میں شمار ہوتاہے میر عبدالعزیزکرد جیسے بلوچوں نے بلوچ قوم کو سیاست کا راست دکھایا اور سیاست سکھائی۔
حوالہ ۔ڈاکٹر شاہ محمد مری ۔عشاق کے قافلے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں