وہ یروشلم کی گلیوں میں ہوتا تو نبی ہوتا
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
کیا وہ صدا اب کبھی نہیں گونجے گی جس صدا کے ساکھی وہ پہاڑ بھی ہیں جن پہاڑوں پہ اب برف جم رہی ہے؟
کیا اب اس صدا کو ہنزہ کے کان کبھی نہیں سن پائیں گے جو صدا یکتا تھی،بہت خوبصورت تھی؟
کیا وہ صدا اب ان کانوں کو سنائی نہیں دے گی جو کان اس صدا سے ایسے آشنا تھے جیسے لوگ ایک دوسرے کی صورتوں سے آشنا ہو تے ہیں؟
کیا وہ صدا اس لیے تھی کہ اسے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جائے؟
کیا اس صدا کا یہی انجام ہونا تھا جو صدا سب سے نرالی تھی؟
کیا وہ صدا اب ان پہاڑوں پر پھول بن کر نہیں لہرائیگی جن پہاڑوں پر اس وقت برف جم رہی ہے؟
بلند و بالا پہاڑوں پہ برف تو جم گئی کیا وہ صدا بھی جم گئی جو زندگی میں ایک ولولہ پیدا کر دیا کرتی تھی
وہ صدا کہاں گئی جو بلند تھی جو بالا تھی؟
ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ ووٹ کاسٹ کرتے انساں اس صدا کو تلاش کرتے
پر ایسا نہیں ہوا۔
لوگ ہنزہ کی گلیوں سے نکلے ووٹ کاسٹ کیا اور پھر ہنزہ کی گلیوں میں کھو سے گئے
وہ لوگ کہاں کھو گئے؟ جن لوگوں کے لیے وہ صدا تھا وہ صدا کا پیکر تھا
اگر وہ یرو شلم کی گلیوں میں پیدا ہوتا اور یرو شلم کی گلیوں میں گم ہوجاتا تو یروشلم کے لوگ اور تل ابیب کے لوگ اسے نبی کہتے۔نبی لکھتے اور نبی پکارتے!
پر ہنزہ کے لوگ تو اسے بابا جان بھی نہیں لکھ رہے،بابا جان بھی نہیں کہہ رہے اور بابا جان بھی نہیں پکار رہے!
اس ضمیر کے قیدی کا کیا قصور ہے؟
یہ بس ڈاکٹر عمارعلی جان کی زمہ داری تو نہیں کہ وہ ہنزہ کی گلیوں میں آئے لال پرچم تھامے اور بابا جان کو رہا کرو کے نعرے لگائے اور ڈھلتی شام کو سگریٹوں کے دھونے میں بیٹھا یہ سوچے کہ آخر بابا جان کا کیا قصور ہے؟اور سوچتا رہے کہ میں تو لاہور سے چل کر ہنزہ کی گلیوں تک پہنچ جاتا ہوں پر ہنزہ کے لوگ اپنے گھروں سے چل کر ان گلیوں تک کیوں نہیں پہنچ پا تے جن گلیوں میں بابا جان کی رہائی کے لیے سانگ رچایا جاتا ہے؟
اور یہ سوچتے سوچتے ہو تی شام کو ڈاکٹر عمار علی جان سرخ پرچم کو لپٹے واپس لاہور کا قصد کرتے
اور ہنزہ سوچتا رہے کہ
”آئی دوا یاد میری عیسیٰ کو،میرے جان کے بعد!“
جاگتے شخص کو سلادیا گیا ہے یا سلانے کی کوشش لگاتار جا ری ہے پر ہنزہ کیوں نہیں جاگتا
وہ ندی جاگ رہی ہے جس کا نام ہنزہ ہے!
پر وہ لوگ نہیں جاگ رہے جو اس ندی کنارے آباد ہیں
وہ لوگ کیوں نہیں جاگتے؟
اس ندی سے ایسا کیا قصور ہوا ہے جو اس ندی کو ایسے لوگ ملے ہیں جو بس ماتھے کی آنکھوں سے نہیں سو رہے پر جو دل کی آنکھوں سے بھی سو رہے ہیں اگر وہ لوگ دل کی آنکھوں سے جا گ رہے ہو تے تو کیا وہ لوگ ایک ایسی آواز نہ بن جا تے جس آواز کے شور سے ہنزہ ندی بھی اپنا سر اُٹھا کر دیکھتی کہ میرے کناروں پہ کیا ہو رہا ہے اور یہ کیسا شور ہے؟کیا اس شور سے ہنزہ ندی اپنے بہنے کا راستہ نہ تبدیل کر دیتی جس سے وہ بیرک ہی ڈوب جا تی جس بیرک میں ہنزہ ندی کے بہاؤ جیسا بابا جان گزشتہ کئی سالوں سے بند ہے اور سلاخوں کے پیچھے اذیت سہہ رہا ہے
پر ہنزہ ندی کے کناروں پہ بسنے والے خاموش ہیں
اور ہنزہ ندی کرے تو کیا کرے؟
کاش اس خاموش ندی کی آواز کو کوئی تو سن سکے کہ
”زہر لگتی ہے مجھے آب و ہواے زندگی
یعنی تجھ سے تھی اِسے ناساز گاری،ہاے ہاے!“
ہنزہ ندی کو بابا جان کے بعد لوگ تو بہت ملے پر اسے کوئی سدھارتھ جیسا نہ مل سکا جو ندی کنارے بیٹھ کر ندی سے بھی پوچھ لیتا ہنزہ مجھے بتاؤ تمہیں کیا غم ہے تو ہنزہ ندی کہتی کہ مجھے یہ غم ہے کہ میرے کنارے آباد جو لوگ ہیں وہ انسان نہیں وہ تو بس جھنڈ ہیں جھنڈ!
اور سدھارتھ ہنزہ ندی سے کہتا کہ میں تمہا رے لیے کیا کر سکتا ہوں
تو ہنزہ ندی جواب میں کہتی کہ اگر تم میرے لیے کر سکتے تو تو بس اتنا کرو کہ
میرے کناروں پہ ہوش مند انسانوں کو آباد کر دو!
ہنزہ ندی کے کنارے ایسے ہوش مند انسان کب آباد ہونگے جو ڈاکٹر عمار علی جان کے ساتھ بابا جان کی رہائی کے لیے سرخ پرچم کو لہرائیں گے،بابا جان کی بازیابی کے لیے نعرے لگائیں گے جو نعرے ہنزہ ندی کی ہواؤں کے دوش پر اُڑتے وہاں تک پونچھ جائیں گے جہاں بابا جان اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا میں اپنی محبوبہ آزادی کی راہ تک رہے ہیں
اور محبوبہ آزادی اورکامریڈ بابا جان کے درمیان بس وہ لوگ حائل ہیں جو ہنزہ کے کنارے آباد ہیں۔
پر وہ باشعور انسان نہیں وہ،وہ جھنڈ ہیں جنہیں اپنی بھی خبر نہیں!
تو وہ لوگ گلگت بلتستان میں کسی رئیس کسی حاجی صاحب کسی ملک کے کہنے پر ووٹ تو کاسٹ کر سکتے ہیں اور اب کے بار انہوں نے بہت سے ووٹ کاسٹ بھی کیے پر ہنزہ کنارے آباد جھنڈ میں سے کسی نے بھی یہ نعرہ نہیں لگایا کہ
”بابا جان کو رہا کرو!“
کیوں کہ سدھارتھ جیسا کوئی آباد نہیں
پر ندی آج بھی سدھارتھ جیسے بابا جان کی منتظر ہے!
اور وہ سدھا رتھ جیسا شخص کہاں ہے؟
اسی سوال کا جواب لینے ڈاکٹر عمار علی جان ہنزہ کی گلیوں میں موجود ہے!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں