سرمچار کا خط جو پوسٹ ہونے سے رہ گیا – محمد خان داؤد

421

سرمچار کا خط جو پوسٹ ہونے سے رہ گیا

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

محبت!
میں تمہیں کیا نام دوں؟
بہت مشکل ہے وہ کہنا اور بہت آساں ہے وہ لکھنا
والدین جو اچھا سے نام دے کر اسے بار بار پکار کر اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں پر وہ عاشق کہاں جائیں، جو اپنی محبوبہ کو ایک بار بانہوں میں بھرتے ہیں تو وہاں پہنچ جاتے ہیں، جہاں فرشتوں کے بھی پر جلنے لگتے ہیں پھر محبوبہ نہ وہ رہتی ہے نہ یہ!
پھر وہ کیا بن جاتی ہے اسی بات کو سمجھنے کے لیے دل اور عقل لڑتے ہی رہتے ہیں۔

سنو! میں تمہیں کیا لکھوں؟ کیا پکاروں؟ کیا کہوں؟
پر تم بھی تو بتاؤ کہ تم میری زباں سے کیا سننا چاہتی ہو؟
وہ نام! جو سب لیتے ہیں۔ وہ نام جو بس میں نے پکارا۔
یا وہ مزہ جو میں نے تمہیں اپنی بانہوں میں بھرنے کے بعد پایا؟
وہ مزا جو ہمیشہ میرے ساتھ رہتا ہے
وہ مزے جسے محسوس کرکے میں تھکے، جھکے پہاڑوں کے سر بلند کر دیتا ہوں۔
وہ مزا جو مجھے ان پہاڑوں کے بیچ رہنے میں مدد کرتا ہے
وہ مزا جن سے میں غاروں، غفاؤں میں رہنا سیکھ گیا ہوں
وہ مزا جس کی طاقت سے میں پتھروں کو ٹھوکروں سے دور کر دیتا ہوں
وہ مزا جو میری رگ رگ میں رچ بس گیا ہے
وہ مزا جو تمہارے ہونے کا احساس دلاتا ہے
وہ مزا! جس سے زیست کا مزا پایا!
سنو!میں تمہیں کس نام سے پکاروں؟
جب کے تمہیں پہلا بوسہ دینے کہ بعد میں تو رہا ہی نہیں، بس تم ہی تم رہی ہو، تمہارے بدن کا پسینہ چکھ لینے کہ بعد اب کوئی اور چیز نہیں بھاتی۔ تمہاری آنکھوں میں ڈوب جانے کے بعد تمام ندیاں عجیب لگ رہی ہیں اور دل میں خیال آتا ہے کہ اگر کسی کو خودکشی کرنی ہی ہے تو وہ محبوبہ کی آنکھوں میں ڈوب کر کیوں نہیں مرتا، وہ خشک و تر ندی نالوں میں کود کر کیوں اپنا دشمن بنتا ہے؟

کیوں زخمی ہوتا ہے؟
کیوں جان دیتا ہے؟
کوئی آئے بہتی آنکھوں میں کود جائے اور مرجائے اور ایسا مرے کہ ان بہتی آنکھوں سے لاش بھی نہ ملے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ ان ہی آنکھوں میں مدفون رہے محبوب کی پتلیوں کی طرح!

تمہیں قربت میں لینے کہ بعد تمہاری سیاہ زلفوں کو چھونے کے بعد مجھے سیاہ بادلوں سے نفرت ہوگئی ہے، کیا وہ بادل جو بلوچستان پہ برستے بھی نہیں پہاڑوں کے دامنوں کو بھرتے بھی نہیں جو بلند و بالا پہاڑوں کے سروں پہ اپنی مینہ سے سرخ پھول کھلا تے بھی نہیں جو پھول لے جا کر کسی شہید کی قبر پہ رکھوں مجھے ان جاتے اور آتے بادلوں سے اب نفرت ہے۔

سنو! مجھے تمہاری سیاہ زلفوں سے محبت ہے۔
سنو!جب سیاہ زلفیں ہٹاتا ہوں تو چاند سا چہرہ سامنے ہوتا ہے
میں چاند کو نہیں چھو سکتا تو مجھے چاند عزیز کیوں ہو
میں تمہیں چھو سکتا ہوں میں تمہیں محسوس کر سکتا ہوں میں تمہیں اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں مہ کی طرح بھرسکتا ہوں۔ میں تمہیں جام کی طرح پی سکتا ہوں۔ تم ایسا چاند ہوکہ میری بانہوں میں آسکتے ہو۔

میں جب تمہاری زلفوں کو ہٹا کر تمہارا چاند سا چہرہ تکتا ہوں، تو مرشد لطیف کی بات پر اعتبار سا آنے لگتا ہے کہ
”میں نے محبوب میں دن اور رات یکساں دیکھے
محبوب کی سیاہ زلفیں میرے اوپر رات کو تاری کر دیتی ہے
اور جب سیاہ زلفیں ہٹاتا ہوں، تو سامنے چاند چمک رہا ہوتا ہے۔
یعنی محبوب میں سیاہ رات اور چمکتا دن ایک ساتھ موجود ہیں!
سنو!
تم سیاہ رات میں چمکتے دن ہو
اور چمکتے دن میں سیاہ رات
تم کیا ہو؟
کون جانے اور کیوں جانے؟
سنو! جو میں نے تمہارے بدن کو چوما مجھے نہیں معلوم کہ وہاں اب کیا کچھ اُگ آیا ہے؟

پر جوتم نے مجھے چوما، وہاں سرخ پھول اُگ آئے ہیں اور اب تو ان سرخ پھولوں میں خوشبو بھی سما گئی ہے، پر سنو! میں حیران ہوں، ان سرخ پھولوں میں گلابوں کی خوشبو نہیں۔ ان سرخ پھولوں میں تمہاری خوشبو رچی بسی ہوئی ہے اور میں جو جی ان بلند و بالا پہاڑوں میں جی رہا ہوں وہ ان ہی خوشبوؤں کی بدولت جی رہا ہوں۔ وگرنہ یہاں تو لانگ شوز والے بھی کچھ دن ہی ٹہر پاتے ہیں، پر یہ تمہارے جسم کی خوشبو ہے، جس کی وجہ سے ان پہاڑوں سے بھی محبت ہوگئی ہے۔

سنو! میں جہاں جہاں جاتا ہوں، تو وہاں تتلیوں کا رش لگ جاتا ہے اور اگر بیٹھ جاؤں تو تتلیاں میرے اوپر آکر گرنے لگتی ہیں، سرمچار پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ماجرہ ہے اور میں ان کو اپنا جسم دکھاتا ہوں، جہاں پر اب تمہارے بوسے گلاب بن کر جھول رہے ہیں، سرخ ان پر پھول اور ان پھولوں میں تمہاری رچی بسی خوشبو۔

اور بہت دور میں وہاں چلا جاتا ہوں جہاں میں نے تمہارے تپتے جسم کو اپنے لبوں سے چومہ تھا اور میں کانپنے لگا تھا اور میں ان سرمچاروں کو یہ شعر پوری وضاحت سے سمجھاتا ہوں کہ
”میں نے تو بس گلاب اُگائے ہیں
یہ تتلیاں تو خود ہی آئی ہیں!“
اور دھرتی کے دیوانے جب یہ رومانس سے بھرا شعر سمجھنے لگتے ہیں تو ان کا دل کرتا ہے کہ وہ پہاڑوں اور آکاش کے دامن میں چھید کر دیں وہ بہت سی گولیاں چلاتے ہیں، پر نہ تو پہاڑوں کے دامنوں میں چھید ہوتا ہے اور نہ ہی آکاش میں۔
سنو تم محبت ہو
مقدس ہو
پر میرا دیس تو نہیں ہو
میں پہاڑوں میں تمہارے دیس کی حفاظت کررہا ہوں
اور تم پہاڑوں کے دامنوں میں میری محبت کی حفاظت کرو
میں تمہاری مانگ کو میلی نہ ہونے دوں گا
تم میری محبت کو میلی نہ ہونے دینا
تم محبت ہو
پر دھرتی مقدس ہے
تم وہ ہو، یہ ہو، سب کچھ ہو
پر مجھے معاف کرو
تم بلوچستان نہیں ہو
تم بلوچستان ہو تو پہاڑوں میں آجاؤ
یا تو میں بلوچستان کو تم جیسا بنا کر لوٹوں گا
اپنے جسم پر میری محبت کی خوشبو کو مرنے نہ دینا
میں بھی تو سخت دھوپ اور ہواؤں میں تمہارے محبت کے پسینے کی حفاظت کر رہا ہوں!
دیس جیسی محبوبہ کاسرمچار جیسا عاشق
”اک سرمچار“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔