کیا بلوچ طلباء پنجاب کے تعلیمی اِداروں پہ بوجھ ہیں؟
تحریر: قمر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پچھلے چالیس دنوں سے بلوچ طلباء ملتان کےبہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے باہر احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھے تھے اور اب وہ ملتان سے اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ کررہے ہیں۔ یہ طلباء کیا چاہتے ہیں؟ اور اب چالیس دنوں کے مسلسل احتجاج کے بعد یہ اسلام آباد کی جانب مارچ کیوں کر رہے ہیں؟ کیا وہ پنجاب میں کوئی زمین کا ٹکڑا چاہتے ہیں یا پنجاب حکومت سے کوئی جعلی لوکل ڈومیسائل حاصل کرکے یہاں ملازمت کرنا چاہتے ہیں؟
جی نہیں! یہ وہی بلوچ طلباء ہیں جنہیں آج سے دس سال قبل بلوچستان اور پنجاب حکومت کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے بعد پنجاب کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے لایا گیا تھا۔ انہیں حکومت کی طرف سے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں چند مخصوص نشستیں اور چند اسکالرشپس فراہم کیے گئے تھے۔
ریزرو سیٹس پہ پڑھنے والے ان طلباء کو ہمیشہ سے یہ تاثر دیا گیا کہ ان پہ کوئی احسان کیا جا رہا ہے اور اسکالر شپ دینے والے ادارے یہ سمجھے کہ یہ چند سیٹس اور اسکالر شپس 70 سالوں سے بلوچستان میں جاری وسائل کی لوٹ مار کا مداوا ہیں۔ لیکن چند سال گُزرنے کے بعد متعلقہ اداروں کو یہ احساس ہوا کہ جس مقصد کے لئے وہ بلوچستان سے طلباء کو پنجاب کے تعلیمی اداروں میں لائے تھے، وہ مقصد کامیاب نہیں ہو رہا۔ تو کیوں نہ اب ان بلوچ طلباء کو واپس بلوچستان بھیجا جائے۔ اس خیال کو عملی جامہ پہناتے ہوئے، تعلیمی اداروں میں موجود بلوچ طلباء کو مختلف طریقوں سے victimize کیا گیا۔ جس کی ایک واضح مثال 2017 میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں دو طلباء تنظیموں کے درمیان ہونے والے تصادم کے نتیجے میں چالیس کے قریب بلوچ طلباء کو یونیورسٹی سے فارغ کرنے کا ہے۔
قائد اعظم یونیورسٹی سے نکالے گئے ان بلوچ طلباء کو اپنا تعلیمی سفر جاری رکھنے کے لیے اور اپنا داخلہ بحال کرنے کے لیے ایک مہینے تک مسلسل احتجاج کرنے کے بعد “تادمِ مرگ” بھوک ہڑتال پہ بیٹھنا پڑا۔ اس احتجاج کے دوران انہیں کئی بار پولیس کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور گرفتار بھی کیا گیا۔ آخر کار یونیورسٹی انتظامیہ نے اُن پہ بھاری جُرمانے لگا کر چند سٹوڈنٹس کا داخلہ بحال کر دیا اور باقیوں کو مکمل طور پر یونیورسٹی سے فارغ کر دیا۔
پنجاب اور اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں بلوچوں کو لا کر پڑھانا اُنکے احساسِ محرومی کو کم نہ کر سکا۔ کیونکہ بلوچوں کو یہاں بھی زبان اور قومیت کی بنیاد پہ تعصب اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کئی ایک طالب علموں کو ڈگری پورا کرنے کے باوجود کلیئرِنس کا بہانہ بنا کر ڈگری نہیں دی گئی اور کئی ایک کو آخری سِمسٹر تک پہنچنے کے بعد عصبیت کی بنیاد پہ victimize کرکے ڈراپ کر دیا گیا۔ یوں اِن سٹوڈنٹس کو چار چار سال تک پڑھنے کے باوجود بغیر ڈگری لئے واپس گھر جانا پڑا۔ جس کے نتیجے میں وہ شدید قِسم کے ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے۔ اور جب کوئی دوسرا بلوچ سٹوڈنٹ اس طرح کے منفی رویوں کے خلاف بولتا یا یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن کے متعصبانہ رویے کے خلاف احتجاج کرتا تو اسے “شدت پسند” یا “دہشت گردی” کے لیبل لگا کر سنگین نتائج کی دھمکی دی جاتی۔ تاکہ وہ اس قِسم کے تعلیم دشمن پالیسیوں کے خلاف آواز نہ اٹھائے۔
کیا وجہ ہے کہ جن سٹوڈنٹس کو حکومت کی جانب سے خود سیٹس اور اسکالرشِپس دیکر ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں داخلہ فراہم کیا گیا تھا آج وہی سٹوڈنٹس حکومت سے پڑھائے نہیں جا رہے۔ حکومت کی غلط تعلیمی پالیسیوں کا نتیجہ صرف بلوچستان کے طلباء ہی کیوں ہیں؟ بلوچ طلباء کے لئے ان کی اپنی زمین تنگ کرنے کے بعد اب ملک کے دوسرے تعلیمی اداروں میں بھی زمین کیوں تنگ کی جارہی ہے؟ جس زمین کے گیس اور سونے کے ذخائر سے یہ ملک پچھلے 70 سالوں سے چل رہا ہے آج اس سرزمین کے چند طلباء کو تعلیمی اداروں کے معیشت پہ بوجھ سمجھ کر باہر کیوں پھینکا جارہا ہے؟
بلوچ طلباء کے لئے اپنے جائز مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے کبھی لاپتہ سٹوڈنٹ لیڈرز کی بازیابی کیلئے، کبھی بلوچستان یونیورسٹی سکینڈل کے خلاف، کبھی بی ایم سی پرائیویٹائزیشن کے خلاف، کبھی بلوچستان میں انٹرنیٹ سروس کی غیرموجودگی میں آنلائن کلاسز کے انعقاد کے خلاف، تو کبھی حیات بلوچ جیسے نوجوانوں کی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں سرِعام وحشیانہ قتل کے خلاف احتجاج کرتے آرہے ہیں۔ کل وہ سمّی دین محمد، فرزانہ مجید اور علی حیدر بلوچ جیسے طالب علموں کی شکل میں کوئٹہ سے کراچی، اور کراچی سے اسلام آباد تک ماماقدیر کی سربراہی میں اپنے (لاپتہ) پیاروں کی بازیابی کے لیے لانگ مارچ کرنے پہ مجبور تھے۔ اور آج بلوچ سٹوڈنٹس کونسل ملتان کی شکل میں اپنے ریزرو سیٹس اور اسکالر شپس کی بحالی کے لیے ملتان سے اسلام آباد کی جانب پیدل لانگ مارچ کرنے پہ مجبور ہیں۔
بلوچ وہ واحد قوم ہے جسے اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی سے لیکر اپنے بنیادی تعلیمی حقوق کے حصول کے لیے ہزاروں میل پیدل لانگ مارچ کرنا پڑتا ہے۔ چالیس دن تک مسلسل بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے باہر احتجاجی کیمپ میں بیٹھنے کے باوجود، نہ بلوچستان حکومت اور نہ پنجاب حکومت کو یہ گوارا ہوا کہ وہ جا کر احتجاج پہ بیٹھے ان بلوچ طلباء کے مسائل سنیں اور انہیں حل کریں۔ تو مجبورًا بلوچستان اور فاٹا کے ریزرو سیٹس اور اسکالرشپس کی بحالی کیلئے آج بلوچ سٹوڈنٹس کونسل (ملتان) نے ملتان سے اسلام آباد تک لانگ مارچ شروع کر دیا ہے۔ یہ ہماری قومی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں ہر ممکن طریقے سے سپورٹ کریں، تعلیم سے دور رکھنے والی ہر سازش کو بے نقاب کرنے میں ان کی آواز بنیں اور تعلیم دشمن ہر پالیسی کے خلاف مزاحمت کریں، کیوںکہ مزاحمت ہی ہمارے بقا کی ضامن ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔