زرینہ بلوچ گھر لوٹ ہی جائیگی – محمد خان داؤد

164

زرینہ بلوچ گھر لوٹ ہی جائیگی

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

زرینہ کوئٹہ میں اپنا دُکھ کہنے کو کئی کلو میٹر چل کر وہاں سے آتی ہے جہاں اس کا گھر تھااور گھر میں بہت سے خواب اور پیا کا پیار تھا،پر اب تو وہاں کچھ بھی نہیں
نہ پیا اور نہ ہی گھر!
جی ہاں میں لکھ رہا ہوں کہ جہاں اس کا گھر تھا
اور اب جہاں اس کا گھر نہیں
پیا کے بن کیسا گھر
پیا کے بن تو دنیا جہنم ہو تی ہے
پر جب پھر بھی زرینہ اپنی آواز شال کی گلیوں میں لوٹ کر وہاں چلی جائیگی جہاں اس کا گھر تھا
اور گھر بھی کیسا؟
جس گھر کے لیے مخدوم نے لکھا تھا کہ
،،گھر کے ہر ذرے سے ناسُور کی بوُ آتی ہے
قبر کی!عُود کی!کافُور کی! بُوآتی ہے!
ہم اسیروں کی بھی اک عمر بسر ہو تی ہے
نہ تو موت آتی ہے، ہمدم نہ سحر ہو تی ہے!،،

حالاں کہ زرینہ کوئٹہ سے سیکڑوں میل دور رہتی ہے اور وہ کوئٹہ سیکڑوں میل چل کر آئی ہے،بس یہ کہنے کہ
،،سکھی پیا کہ ملیں تی چئیجاں
چاندنی تو سوا نہ تھیندی!،،
پر زرینہ کی یہ پکار کون سنے گا؟
کمال سرکار؟یا عمرانی سرکار؟
یا دونوں؟یا دونوں نہیں؟
پر اب تک یہی معلوم ہو رہا ہے کہ زرینہ کی پکار کوئی نہیں سن رہا جس پکار میں زرینہ اقتدار والوں سے یہی پوچھ رہی ہے کہ
،،وہ اپنے آپ کو شبیر بلوچ کی بیوی سمجھے یا بیواہ؟،،
زرینہ تو معصوم ہے۔زرینہ تو نادان ہے
پر نہ تو کمال سرکار معصوم اور نادان ہے اور نہ عمران سرکار معصوم اور نادان ہے
یہ دونوں سرکاریں اندھے، بہری اور گونگی ہیں اس لیے انہیں زرینہ کا درد نہ تو نظر آ رہا ہے اور نہ ہی سمجھ!
پر زرینہ کے سینے میں موجود دل نادان اور معصوم ہونے کے باوجود ناداں بھی نہیں اور معصوم بھی نہیں
وہ دل زرینہ سے ہولے سے کہہ رہا ہے کہ
،،اور بھی بیٹھے ہیں اے دل زرا آہستہ دھڑک
بزم ہے،پہلو بہ پہلو ہے،کلام آہستہ!،،
پر ناچاہتے ہوئے بھی زرینہ کی دل سے درد کی ٹھیس اُٹھ ہی آتی ہے اور وہ بزم اور رزم کا خیال نہ کرتے ہوئے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھ کر کہہ اُٹھتی ہے
،،ہائے شبیر
شبیر کو میرے سامنے لے گئے
اور یہ فسانہ نہیں یہ سچ ہے!،،

زرینہ تو بہت پیاری ے۔ وہ بہت معصوم ہے۔اس نے شبیر کی جبری گمشدگی سے پہلے تو کوئٹہ بھی نہیں دیکھا تھا وہ پہاڑوں کے درمیاں اپنے کچے گھر میں اپنے شبیر کے ساتھ بہت خوش تھی۔اسے کیا معلوم کہ شہروں کی بے حسی کیا ہو تی ہے؟اسے کیا معلوم کہ شہروں میں انسان نماں حیوان رہتے ہیں۔وہ نہیں جانتی کہ جب کوئی شہر میں دردوں کی دکان لگاتا ہے تو وہاں درد بکتے نہیں بس دردوں کی نمائش ہو تی ہے۔اسے کیا معلوم کہ جب وہ شہر میں اپنے پیا کو یاد کر کے روئیگی تو شہر کے بے حس لوگوں پر اس کے رونے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا جب کہ زرینہ کا دل ایسا ہے کہ جب پہاڑوں کے درمیاں کسی کے کچے گھر میں کوئی چراغ جلتا رہتا تھا تو اسے یہ سوچ کر نیند نہیں آتی تھی کہ،،شاید کوئی بیمار ہو!،،اور زرینہ پو ری پو ری رات جاگا کرتی اب جب وہ شہر کی گلیوں میں روتی ہے تو تب بھی شہر کے باسی رک کر بھی یہ نہیں معلوم کرتے کہ یہ کیوں روتی ہے؟
اس سے پہلے تو زرینہ نے شہر کی بلند و بالا عمارتوں کو نہیں دیکھا تو اب تو ان گلیوں سے بھی واقف ہو چلی ہے جو گلیاں گورا قبرستان سے ہوکر پریس کلب جا تی ہے
یہ شہر بے اماں ہے
یہ شہر بد اماں ہے
پر زرینہ تو معلوم ہے
کوئی تو اس کی سنیں کہ یہ کیا کہتی ہے؟
وہ سوال کرتی ہے۔وہ ریاست کا دامن پکڑ کر سوال کر تی ہے۔وہ اقتدار کے دھنی کا دامن پکڑ کر سوال کرتی ہے۔وہ منتخب اور لائے گئے وزیر اعظم کا دامن پکڑ کر سوال کرتی ہے۔و ہ وردی والوں کے چیف سے سوال کرتی ہے۔وہ وقت کے قاضی سے سوال کرتی ہے،وہ اس ملک سے سوال کرتی ہے،وہ اس ملک کے باسیوں سے سوال کرتی ہے
وہ مجھ سے سوال کرتی ہے
وہ تم سے سوال کرتی ہے کہ
،،وہ اپنے آپ کو شبیر بلوچ کی بیوی سمجھے
یا بیواہ؟،،

اس کا بس یہ معصومانہ سوال ہے
اسے اس شہر میں کوئی پلاٹ نہیں چاہیے۔اسے کوئی کرسی نہیں چاہیے،اسے کوئی گورنری نہیں چاہیے وہ تو بس یہ سوال کرتی ہے کہ وہ اپنے ماتھے پہ
سندور لگا رہنے دے کہ مٹا دے؟
وہ چوڑیاں پہنے کہ توڑ دے؟
وہ خوش فہمی میں رہے یا ماتم کرے؟
وہ خود روئے کہ اپنے گھر والوں کو دلا سے دے(جھوٹا ہی صحیح!)
وہ شبیر بلوچ کے فوٹو کو فریم کر واکے اوپر پھول چڑھا دے
یا اس فریم میں شبیر کی ہنستی ہوئی تصویر ٹانگ دے
وہ شبیر کی کتابیں سے دھول کو صاف کرے یا انہیں اُٹھا کر صندوق میں بند کر دے
وہ شبیر کے نئے پرانے کپڑے دھو کر پریس کرے یا نہیں کسی میں بانٹ دے یا کسی یاد کی طرح سنبھال کر رکھ دے
وہ شبیر کی فرمائیشوں کو یاد کر کے کسی کو رے پنے پہ لکھے
یا اس کی فرمائیشوں کو یاد کر کے بہت سا روئے!
وہ شبیر کے بستر کو سمیٹ دے یا اس ویسا ہی رہنے دے
اور وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے؟
پر زرینہ کا معصومانہ سوال کوئی نہیں سُن رہا کوئی بھی نہیں
،،میری آنکھوں کی زباں اور مِرے دل کی آواز
نہ سمجھنے کے لیے ہے اور نہ سنانے کے لیے!،،
پر پھر بھی زرینہ ریاستِ مدینہ سے سوال کر رہی ہے کہ
،،وہ اپنے آپ کو شبیر بلوچ کی بیوی سمجھے
یا بیواہ؟،،
پر ہم میں اتنی اخلاقی جرئت نہیں ہے کہ اس کی آواز میں آواز ملا کر ریاست سے پوچھیں کہ
وہ بتائے کہ زرینہ اپنے آپ کو کیا سمجھے؟
ہم بزدل ہیں
ہم ڈر پوک ہیں
ہمیں اپنے بچے اور اپنے گھر عزیز ہیں
ہمیں اپنی محبتیں اور اپنی محبوبائیں پیاری ہیں
ہم انتہائی ذلیل لوگ ہیں
ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں ہم جانتے ہیں ہمیں معلوم ہے کہ سیکڑوں بلوچ بیٹاں اس وقت روڈوں پر ہیں اور ان کی ایسی حالت ہے کہ
،،بات کیا تھی ذکر کس کا تھا ہنگام نشاط
مسکرانے والی آنکھیں ہچکیاں لینے لگیں!،،
کیا ایسے میں زرینہ وہاں لوٹ جائے جہاں پیا نہیں
اور پیا بن وہ گھر ایسا ہے کہ
،،گھر کے ہر ذرے سے ناسُور کی بوُ آتی ہے
قبر کی!عُود کی!کافُور کی! بُوآتی ہے!
ہم اسیروں کی بھی اک عمر بسر ہو تی ہے
نہ تو موت آتی ہے،ہمدم نہ سحر ہو تی ہے!،،
پر زرینہ کیا کرے وہ گھر تو لوٹ ہی جائیگی بن پیا کے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔