میں غلام دیس میں محبوبہ کا بوسہ نہیں لیتا! – محمد خان داؤد

186

میں غلام دیس میں محبوبہ کا بوسہ نہیں لیتا!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

اس کے کانوں میں جب چی کے یہ لفظ گونجنے لگے کہ”قوموں کے حقوق لفظوں کی جادو گری سے نہیں بلکہ سیسے کی گولی سے ملتے ہیں سامراجی راکاس بس اس قوم کے سامنے جھکتا ہے جس کی انگلیاں رائفل کے ٹریگر پر ہو تی ہیں!”

تو اس نے محبت بھرا دل بہت پیچھے چھوڑ دیا۔وہ دل جس دل کو بارش کی بوندیں اچھی لگتی تھیں۔ وہ دل جسے قوس قزا بھاتی تھی۔ وہ دل جس پر بارش کی بوندوں سے پیدا ہونی والی موسیقی اثر کرتی تھی۔ وہ دل جو ٹپ ٹپ ٹپ کے ساتھ دھڑکتا تھا اور جیسے ہی وہ ٹپ ٹپ رکتی تو معلوم ہوتا کہ دل بھی رُک رہا ہے۔ وہ دل جسے رنگ بھاتے تھے۔ وہ دل جسے بدنوں کی خوشبو دیوانہ کر جاتیتھی۔ وہ دل جسے جھولتے پستانوں سے پیار تھا۔ وہ دل جس دل کو وہ منظر روک لیتا تھا جس منظر میں کسی جوان لڑکی کے پستانوں سے پسینہ بہتا تھا اور دور کسی کا سانس رُکتا محسوس ہوتا تھا۔ وہ دل جسے خوبصورت چہرے کسی اور ہی دنیا میں پہنچادیتے تھے۔ وہ دل جب کسی سے یہ سوال کرتا سنتا کہ کیا تم نے کبھی چاندکو قریب سے دیکھا ہے تو دو ہاتھ آگے بڑھاتے اور کہتے صبر کرو اور وہ دونوں ہاتھ کسی کے چہرے سے سیاہ زلفیں ہٹاتے اور کہتے “ہاں بہت قریب سے!”

وہ دل جس دل کو رنگوں سے محبت تھی۔وہ دل جسے سب رنگ بھاتے تھے پر جس کو سب سے اچھا رنگ انسانی جسموں کا بھاتا تھا اور ان رنگوں میں بھی لڑکیوں کا رنگ اور ان رنگوں میں بھی چہرے کا رنگ اور ان رنگوں میں بھی پستانوں کا رنگ
گلابی!گلابی!

وہ دل جسے تتلیوں سے محبت تھی۔ وہ دل جسے اُڑتی تتلیاں اچھی لگتی تھیں۔وہ دل جو رنگ بہ رنگی تتلیوں کے پیچھے بھاگا کرتا۔وہ دل جسے مورتیوں سے محبت تھی۔وہ مورتیاں نہیں جو مندروں میں پیوستاں ہو تی ہیں پر وہ مورتیاں جو چلتی پھرتی ہیں۔وہ دل جسے خوشبو اپنی اور کھنچتی تھی وہ خوشبو نہیں جو عطر فروش بیچا کرتے ہیں۔وہ خوشبو نہیں جو بند بوتلوں میں ہوا کرتی ہے۔و ہ خوشبو نہیں جو پھولوں سے آتی ہے۔پر وہ خوشبو جو بدن میں ہوا کرتی ہے۔وہ خوشبو جو جسموں میں ہوا کرتی ہے۔وہ خوشبو جو پسینہ ہو کر فضا میں بکھر جا یا کرتی ہے۔وہ خوشبو جس خوشبو کے لیے جون ایلیا نے لکھا تھا کہ
“یہ جو گیلی گیلی شبنم ہے
یہ رات میں کی گئی محبت کی مزدوری کا پسینہ ہے!”
وہ دل جو جو چاہتا ہے کہ کوئی نسوانی آواز بھی تو اس نام کو پکارے
وہ دل جو محبت کے گیت گاتا ہے
وہ دل جو بس محبت کی بولی جانتا ہے
وہ دل جو سینے میں رہ کر سینے میں نہیں ہوتا
وہ دل جو محبت سکھاتا ہے اور پھر محبت کے بڑھ جانے پر ساتھ چھوڑ جاتا ہے
وہ دل جو اکیلا اکیلا ہو کر بھی اکیلا نہیں ہوتا
وہ دل جو ہجومِ یاراں میں رہ کر بھی اکیلا اکیلا ہوتا ہے
وہ دل جسے نسوانی پسینہ وہاں لے جاتا ہے جہاں محبت کا جنم ہوتا ہے
وہ دل جو، دل نہیں رہتا
وہ دل جو عذابِ جاں بن جاتا ہے
پر جب محبت میں بسنے والے لوگ چی کی یہ بات سنتے ہیں کہ
“قوموں کے حقوق لفظوں کی جادو گری سے نہیں بلکہ سیسے کی گولی سے ملتے ہیں سامراجی راکاس بس اس قوم کے سامنے جھکتا ہے جس کی انگلیاں رائفل کے ٹریگر پر ہو تی ہیں!”

تو پھر وہ محبت والے دل کو بہت پیچھے چھوڑ آتے ہیں،پھر ان کے سینوں میں وہ دل نہیں رہتا جس دل کو پستانوں کے پسینے سے پیار ہوتا ہے۔پھر اس سینے میں وہ دل بستا ہے جس دل کو پہاڑوں کی چوٹیوں اور پہاڑوں کے دامنوں سے پیار ہوتا ہے۔پھر وہ دل،دل نہیں رہتے پھر وہ جذبہ بن جاتے ہیں جو دیس کی محبت میں دھڑکتا رہتا ہے۔پھر اس دل کو رات چاند قریب سے دیکھنے کی چاہ نہیں رہتی پھر وہ دل چاہتا ہے کہ اس کا جسم ان ہی پہاڑوں پر گولی کھا کر بلندی سے گرے اور جہاں جہاں اس کو خون گرتا جائے وہاں وہاں سُرخ پھول اُگتے جائیں اور کل وہ پھول اس کی محبوبہ کی مانگ میں سجیں
پھر اس دل میں محبوبہ کو بوسہ لینے کی چاہ جب جاگتی ہے جب وہ چاہتا ہے کہ اس کا دیس آزاد ہو
وہ غلام دیس میں محبوبہ کو اپنی بہانوں میں نہیں بھرتا
وہ غلام دیس میں محبوبہ کی مانگ میں پھول نہیں سجاتا
وہ غلام دیس میں محبوبہ کے پستانوں کو نہیں چومتا
وہ غلام دیس میں چاند کو بہت قریب سے نہیں دیکھتا
وہ غلام دیس میں سیاہ زلفوں سے نہیں کھلیتا
وہ غلام دیس میں نکاح نہیں کرتا
وہ غلام دیس میں غلام بچے نہیں جنتا
وہ غلام دیس میں لال لبوں کو نہیں چومتا
وہ غلام دیس میں محبت کی باتیں نہیں کرتا
وہ غلام دیس کی چاندنی میں محبت سے بھرے ننگے جسم نہیں دیکھتا
اسے محبت،سے محبت اور غلامی سے نفرت ہو تی ہے
پر اسے غلام دیس میں محبت سے بھی نفرت ہو تی ہے
وہ چی کی اس بات کو جان جاتا ہے کہ
“قوموں کے حقوق لفظوں کی جادو گری سے نہیں بلکہ سیسے کی گولی سے ملتے ہیں سامراجی راکاس بس اس قوم کے سامنے جھکتا ہے جس کی انگلیاں رائفل کے ٹریگر پر ہو تی ہیں!”
اس لیے وہ سب کچھ بہت پیچھے چھوڑ کر وہاں چلا جاتا ہے جہاں اس کے ساتھ محبت نہیں پر بندوق ہوتی ہے اور وہ آزاد آنکھوں سے آزاد دیس کا سپنا دیکھتا ہے

اور وہ سپنا آزاد ہوتا ہے
بلکل آزاد
معصوم بچے کی آنکھوں کی طرح!
آزاد
اور ترو تازہ!!!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔