سپاہِ صحابہ والوں تم جانتے ہو حسینی دکھ کیا ہوتا ہے؟ – محمد خان داؤد

248

سپاہِ صحابہ والوں تم جانتے ہو حسینی دکھ کیا ہوتا ہے؟

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

 

دستار والو!
کیا تم جانتے ہو، جب ایک ماں کچے گھر میں جلتے دئے کے ساتھ جلتی رہتی ہے دئیا جلتے جلتے بجھ جاتا ہے پر وہ ماں صبح تک جلتی رہتی ہے؟
دستار والو!
کیا تم جانتے ہو کہ دکھی ماؤں کی شامیں نہیں ہو تیں، صبحیں نہیں ہو تیں، ان دکھی ماؤں کی زندگیوں میں تو رات ہی رات کا بسیرہ ہوتا ہے؟
دستار والو!
تم چہروں پہ سجی داڑھی کیا، ماتھے کی مانگیں اور کاندھوں پہ لہرا تی زلفیں بھی مہندی سے سرخ کرتے ہو، لیکن یہ مائیں تمہاری طرح اپنی مانگیں مہندی سے سرخ نہیں کرتیں۔ وہ دکھی ہوتی ہیں ان کی مانگیں اُجڑی اُجڑی اور میلی میلی ہو تی ہیں۔
دستار والو!
کیا تم جانتے ہو کہ وہ مائیں شکم سیر ہو کر کھانا نہیں کھاتیں؟ وہ تو برائے نام بھی کھانا نہیں کھاتیں، ان کا صبح کا کھانا شام کو اُٹھا لیا جاتا ہے اور شام کا کھانا صبح کو اُٹھا لیا جاتا ہے۔
دستار والو!
تمہا رے ہاتھوں میں مکتب کی کتابیں ہیں
اور ان ماؤں کے ہاتھوں میں گم شدہ بچوں کی تصویریں۔
دستار والو!
تم اپنے منہ وضو کے پانی سے دھو رہے ہو
اور ان ماؤں کی آنکھوں سے اتنے اشک بہے ہیں کہ اب ان کے چہروں کے خدوخال ہی مٹ رہے ہیں
دستار والو!
تم مقرر ہو، تم تقاریر سے واقف ہو
تم ان ماؤں کی گونگی بولی نہیں جان پاؤ گے
دستار والو!
تمہا رے ہاتھوں میں جائے نماز اور تسبیحاں ہیں
ان ماؤں کے ہاتھوں میں لکھے پمفلیٹ، جن پمفلیٹوں پہ لکھا ہوا ہے
،،ظلم کے ظابطے، ہم نہیں مانتے!،،
دستار والو!
تم کو دکھ چھو کر بھی نہیں گزرا
اور ان ماؤں کا بسیرہ ہی دکھوں میں ہے
دستار والو!
تم لطیف کے ان الفاظ کو کبھی نہیں جان پاؤ گے
،،جئن کان جیڈیوں، مون وڈا وس کیا!،،
جبکہ وہ مائیں جی ہی ان الفاظ میں رہی ہیں

تم بندوق سے آتے ہو انہیں ڈراتے ہو۔ وہ مائیں اپنی بوڑھی آنکھوں سے تمیں تکتی ہیں۔ تم کتوں کی طرح ان پر بھونکتے ہو۔ وہ قلندروں کی طرح خاموش رہتی ہیں۔ تم یزید کی طرح ان پر ملفوظات بکتے ہو، وہ کربلا کے مسافروں کی طرح اپنے خیموں میں خاموش ہو جاتی ہیں۔ تم ریاست کے پالتو ہو۔ وہ دردوں کی ڈسی ہیں۔ تم اپنی بڑی گاڑیاں ان کے وجودوں پر لے کر چڑھ دوڑتے ہو۔ ان کے ہاتھوں سے اپنے پیاروں کی پرانی تصاویر گرنے لگتی ہیں۔ تم صحابہ کے سپاہی ہو، وہ حسین کے قافلے کے آخری رہ جانے والے مسافر ہیں۔ تمہا رے ہاتھوں میں آتیش گیر ہتھیار ہیں، جب کے ان ماؤں کے ہاتھوں میں شکستہ پرچم ہیں۔ اور پرچم بھی وہ جو ان کے سروں پر پوتیاں ہیں۔ تم اندھے ہو، وہ دیداور ہیں۔ تم بہت ہو وہ اکیلی ہیں۔ تم ہجوم ہو۔ وہ تنہا ہیں۔

دستار والو!
تم ان ماؤں پر گالیاں اور بندوق لیے چھڑ دوڑے پر تم درد سے واقف ہی نہیں ہو، تم کچھ نہیں جانتے۔ تم درد سے آشنا نہیں۔ تم اکیلائی کا درد نہیں جانتے، تم نہیں جانتے جب کسی گھر سے کسی کو تفتیش کے نام پر لے لیا جاتا ہے۔ تو پھر ایک دن کیا؟ ایک رات کیا، پر وہ کئی سالوں تک نہیں لوٹتا اور ان کے ہجر میں مائیں جلد بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ اور بچے بیگانے! تم نہیں جانتے جب کسی گھر کا اکیلا کمانے والا واپس نہیں لوٹتا، تو اس گھر میں کیامیں کیا کچھ بدل جاتا ہے۔ اس گھر کا دودھ، راشن ہی نہیں پر اس گھر میں ماں کی نظر بھی چلی جاتی ہیں، جو اپنے بیٹے کو دیکھ کر جیا کرتی تھی۔ سہاگن کی مانگ میں سفیدی در آتی ہے۔ باپ کی کمر جھک جاتی ہے، بہنیں اداس رہنے لگتی ہیں اور بچے روز پوچھتے ہیں کہ بابا کب لوٹے گا اور ماں کے پاس جھوٹ راشن کی طرح جلد ختم ہوجاتا ہے۔

دستار والو!
تم کسی کی شہ پر ہتھیار کے زور پر کسی بوڑھی ماں پر کتوں کی طرح حملہ تو کر سکتے ہو، پر اس بوڑھی ماں کی جلتی، بجھتی آنکھوں میں جھانک کر یہ نہیں دیکھ سکتے کہ ان آنکھوں نے آخری بار نیند کب کی ہے؟

یہ آنکھیں آخری بار آپس میں جھپی پاکر کب سوئی ہیں۔ پر تم تو اس بات کا حساب بھی نہیں رکھ سکتے کہ ان بوڑھی آنکھوں سے کتنے اشک پانی بن کر بہے؟

تم تو اس دل کا حساب بھی نہیں رکھ سکتے کہ وہ اپنوں کو یاد کرکے کتنی بار ڈوبا اور کتنی بار تیرا؟ کتنی بار دھڑکا اور کتنی بار رُکا۔
تم تو وہ دئیا بھی نہیں جو جب خلق سوتی ہے تو وہ ان دکھی جلتی ماؤں کے ساتھ جلتا رہتا ہے۔
سحر ہونے تک

دستار والو!
تم خود ہی بتاؤ تم کیا ہو؟ تم کیوں ہو؟ تم کون ہو؟
تم ریاست کے پگھار دار ہو، دکان دار ہو اور وہ مائیں دردوں سے بھری داستانیں۔

دستار والو!
تم میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ ان ماؤں کے دردوں کو پڑھ پاؤ
تم میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ ان ماؤں کے دردوں کا حساب رکھ سکو
تم میں اتنی اخلاقی جرئت ہی نہیں کہ ان ماؤں کا سفر ناپ سکو، جو سفر انہوں نے دکھ کی کیفیت میں طے کیا ہے۔
تم تو ان ماؤں کے پیروں کے ان نشانوں کو ہی نہیں گن پاؤگے جو نشان ان ماؤں کو اس سفر میں آئے ہیں، جو سفر ان ماؤں نے اپنے گم شدہ بیٹوں کی تلاش میں کیا ہے۔

دستار والو!
کسی ماں بہن، بیٹی پر بندوق لیے چڑھ دوڑنا بہت آسان ہے
پر اس ماں کے دکھوں کا ساتھی بننا اور سفر میں ان کے ساتھ چلنا بہت مشکل

دستار والو!
تم نے وہ کیا جو تمہارا ظرف تھا
اور وہ مائیں وہ کر رہی ہیں جو ان کا دکھ ہے
افسوس!
افسوس!
افسوس!
تم تو دیئے بھی نہیں جو ان دکھی ماؤں کے دکھ میں ان کے ساتھ پو ری رات جلتا رہتا ہے
جلتا رہتا ہے
جلتا رہتا ہے
تم وہی ہو
جو تم ہو
تم وہ ہرگز ہرگز نہیں ہو
جو تم کبھی نہیں بن سکتے
تم ان ماؤں کے پھٹے پرانے پرچموں کو کبھی شکست خوردہ نہیں کر سکتے
مائیں دکھوں کے ساتھ جینا سیکھ گئی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔