دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | اومیتانی بانک Princess of Hope
اور آج، ہم تقدس کی قدموں میں تھے۔ میرا وطن ایسا شان دار کہ اپنے مظاہر کے آگے جھکا جھکا کر غیر کے آگے جھکنے کے سارے امکانات ختم کردیتا ہے، ہاں مگر باضمیروں کو۔ ہم ”پرنسس آف گڈ ہوپ“ کی عظمت میں حیران تھے۔ ہم لولاکی احترام میں ایک دوسرے سے لفظ بھی کہے بغیر، گاڑی سے نیچے اترے۔ سانس تھامے، ساری توجہ اُسی عظیم ساخت کی شہزادی کی طرف۔ اب ہم بہ یک وقت ساٹھ سالہ بچے بھی تھے، اوردھرتی کے کلچر اور سولائزیشن کے ذمے دار ترجمان بھی۔ ہم اسی مٹی کے عاشق بھی تھے، اورمحبوب بھی۔ ہم منظر ہم ناظر۔ سامع بھی ناطق بھی، عکس بھی عکاس بھی، حیرت بھی حیران بھی، خمار بھی مخمور بھی۔ ہم اس کے محافظ بھی تھے تباہ کن بھی………… سرزمین تیرے ساتھ کتنا پیچیدہ رشتہ ہے ہمارا۔
اگر یہ منظر امریکہ میں ہوتا تو ”سونے کی تلاش“ اور”میکاناز گولڈ“ نامی بے شمار ناول لکھے جاتے، کئی فلمیں یہاں بنائی جاتیں۔ کئی امین مالوف کتنے جبل الموت تخلیق کرتے ۔ بلوچ! تو نے کتنے مواقع ضائع کردیے، تیری کتنی صدیاں خالی گزر گئیں!!
ہم نے توقیر کی، ادب احترام کیا، نشے کی اتاہ حالت میں موجود فطرت کو سلام کیا، ہم جتنا قریب جاسکتے تھے گئے، مگر امید کی دیوی کا دامن پھر بھی سو ڈیڑھ سو میٹر دور ہی رہا۔
نہ جانے وہ کب سے اُس بیابان میں بے نام کھڑی تھی۔ ہوا کی تھپیڑیں کھاتی ہوئی، یا پھر اُس کی موسیقی سنتی ہوئی۔ ہوا جو ریت سے آلودہ رہتی ہے۔ جب راہ، شاہراہ نہ تھی تو وہ کس قدر تنہائی محسوس کرتی ہوگی۔ نظر اندازی کا غم بہت اندوہ ناک ہوتا ہے۔ بس ایک عظیم الجثہSplinx (ابوالہول) ہی اُس کا پڑوسی تھا مگر وہ بھی اس حال میں کہ خود بھی گِل اوراس کے پابھی بہ گل۔ ارددگرد تو بس مٹی کے مٹیالے رنگ کی عجیب اور بڑی بڑی بے ترتیب سیکڑوں میٹر طویل ڈھیریاں ہیں۔ سیکڑوں میٹر بلند اشکال۔ یہیں سو گنا بڑا ابوالہول کا مجسمہ فطرت نے بنایا ہوا ہے۔
سیکڑوں میٹر بڑایہ Sphinx مٹی کے بہت اونچے پلیٹ فارم پہ بنا ہے۔ اتنا دیوہیکل کہ انسان دنگ رہ جائے۔ ایسا لگتا ہے جیسے سر عورت کا اور بدن شیر کا ہو۔ فطرت کی شاہ کار۔ سب سے بڑا انسان کا بنایا ابوالہول تو مصر میں ہے۔ سالانہ ہزاروں لوگ دنیا بھر سے اِسے دیکھنے آتے ہیں اور اس کے بنانے والوں کی تعریف کرتے ہیں۔ حیرانی ہوتی ہے کہ بلوچستان کے ساحلی علاقے میں ایک قدرتی Sphinx موجود ہے جو مصر والے سے عظیم مشابہت رکھتا ہے۔
صدیاں اور ہزاریاں اسی طرح گزرگئیں تب چین نامی ملک کو بہت بھوک نے ستایا۔ بلوچی زبان میں ”آف ڈھاگ“ ایک ایسی حالت کو کہتے ہیں جب آپ پانی پیتے جاؤ پیتے جاؤ مگر پیاس مٹتی نہیں۔ چین بھی ایک ایسی حالت سے دو چار ہوگیا ہے۔ بحیثیت ملک اُسے ”زرڈھاگ“ ہوگیا ہے۔ زرکی پیاس، پیسہ جمع کرنے کی لت۔ پیسہ پیسہ!!!۔ اسے سونے چاندی سے دفنا دو، تب اُس دَم گُھٹی کیفیت میں بھی وہ ”پیسہ پیسہ“ مانگے گا، آکسیجن نہیں۔
وہ زمانہ گیا، یا پھر جانور میں فرق ہے، جب ہم کہا کرتے تھے کہ ڈائن بھی پڑوس کے سات گھر چھوڑ کے تباہی مچاتی ہے۔لگتا ہے کہ ڈائن اور ڈریگن میں فرق ہے۔ ڈریگن کے لیے اڑوس پڑوس، حلال حرام، ذبیحہ جھٹکا سب بکواس۔ چنانچہ زر و جواہر کے لیے بھوکے چین نے اپنے بہی خواہوں کی مدد سے اپنے ڈریگن کا منہ ہماری طرف کرکے اُس کا کانٹے دار لگام کھول پھینکا۔ اُس اژدہا کے منہ سے نکلے آگ کے شعلے خالص نہ تھے۔ اب کے وہاں سے ابلتا ہوا ایک سیاہ مائع نماز ہر آتش فشاں کی طرح بہنے لگا۔ جس کا ایک سرا کاشغر تھا، اور دوسرا گوادر۔ راستے میں جو چیز بھی آئی، سلامت نہ بچی۔ سب ہم وار۔ اِسے وہ ”شاہراہ“ کہتے ہیں: ہائی وے۔ کاشغر گوادر کا ہمارا حصہ ”کوسٹل ہائی وے“ کہلایا۔
اور یہ لاوا بالکل ”اچھی امید کی شہزادی“ کے مجسمے کے قریب سے گزرا۔ اچھا ہوا شاہزادی محض مجسمہ ہے۔ اگر یہ ذرا بھی حرکت کرتی ہوتی تو آج وہ بھی چین کے ڈریگن کے بے انت و مہیب پیٹ کے کسی کونے میں ہوتی۔ سرمایہ داری نظام سے بڑا اژدھا کیا ہوسکتا ہے۔ سامراجیت سے بڑا ڈریگن ابھی تک دنیا نے نہ دیکھا۔
اس شہزادی کے پاس سے گز رتے ہوئے اس جمے ہوئے لاوا کو کوسٹل ہائی وے کہتے ہیں۔ اور اِس کے اوپر کاروں، ٹرکوں، ویگنوں، اور بسوں کی ”گوش و ہوش شکن“ ریل پیل ہے۔
آج ہم اکیسویں صدی کی مغربی دنیا کی شہزادی کے متبرک ذہن و دہن سے مشہور کردہ نام والی قدیم سے بھی قدیم اپنی مشرقی شہزادی کے درشن کررہے تھے۔ اس درشن میں ہم سب ا پنے ہوش و ہواس کی گم شدگی سے بھی بے خبر کھڑ ے تھے۔
بلوچستان آفاقی مصور کا ورکشاپ ہے۔ اس کی ہوا آزر، اس کی مٹی پکاسو، اس کا پانی وان گوغ، اور اس کا سورج صادقین۔ ایک وسیع کینوس ہے بلوچستان۔ یہ اپنے بچو ں سے بھی اسکلپچر بنواتا ہے، اور خود بھی خوب صورت پینٹنگز کرتا ہے…… بس آپ ہنگول ہو آئیں، شرطیہ طور پر آپ بلوچستان کی جمالیاتی حس کی تکریم کرنے لگیں گے۔
ہم حکومت کو ”خدارا، خدارا“ والا غلامی بھرا لفظ نہیں کہیں گے، ہم اُسے اپنی فولادی کُوھلی (مٹکے نما بہت بڑا مٹی کا برتن جس میں اناج ذخیرہ کیا جاتا ہے) سے پیسہ نکالنے کو بھی نہیں کہیں گے۔ ہم اُس کے ورلڈ بینکی سوچ سے عاری پولٹری فارمی چہروں اور نازک دماغوں پہ زور دینے کی بات بھی نہیں کریں گے۔ وہ کچھ نہ کرے۔ بس ”اے سکندرِ اعظم، تم موسمِ سرما کی سردی میں فلاسفر، ڈایوجنیز اور دھوپ کے بیچ کھڑا مت ہو“۔ بس اے حکومت! تم انسانوں اور اِن مناظر کے بیچ رکاوٹ نہ بنو۔
یہ ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ہنگلاج کو پیسوں، دماغوں، مددگاروں، ماہروں کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ ہنگلاج اب محض مقامی عجوبہ نہیں رہا۔ ٹوراِزم کا یہ وسیع و عریض خطہ اس قدر اہم اور زرآور ہے کہ پاکستان نے اِسے صوبائی نہیں، مرکزی کنٹرول میں دے رکھا ہے۔ اس کی دیکھ بحال کے لیے ورلڈ بنک پیسہ دیتا ہے، بے شمار این جی اوز اِس پہ پل رہے ہیں۔ اس لیے یہ ایک بین الاقوامی درجے کی جگہ ہے۔………… یہ جگہ اس قدر خوب صورت ہے کہ ملین ڈالروں کی سالانہ آمدن ٹورازم سے ہوسکتی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کالج اور یونیورسٹی طلبا کے ہنگول پارک کی بہ نسبت بہت کم خوب صورت اور کم دلچسپ علاقوں کے مطالعاتی دوروں پر حکومت ِبلوچستان ہر سال کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے، کوئی اسے یہ سمجھائے کہ ذرا یہ مناظر بھی تو دیکھو، ورطہِ حیرت میں رہتے ہوئے ساری زندگی، زندگی سے محبت کرتے رہو گے۔
ہما را مشا ہدہ ہے کہ آپ جب بھی مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کی سڑاند بھری محفلوں میں بیٹھتے ہیں تو آپ کواُن کی گفتگو میں دبئی، فرانس اور امریکہ کے حرام کے ذرائع سے کیے گئے متعفن دوروں کی قے آور دوہرائی ملے گی۔ جہازوں، ایر پورٹوں، کافی ہاؤسوں، لفٹوں ٹراموں، اور ٹائیوں کی خریداری کے قصے ملیں گے۔ جب کہ یہاں اپنے وطن میں محض آواز لگانے کے فاصلے پر بین الاقوامی معیار کے عجوبے موجود ہیں۔ بالکل پڑوس میں۔ جہاں فطرت بھرپور شان اور جوانی اور حسن میں جلوہ افروز ہے۔ سینما ہال میں نہیں، لیپ ٹاپ میں نہیں بلکہ پہاڑوں دریاؤں کے پیچ و خم میں۔ یہاں فیس بک اور ٹوئیٹر آپ کو کچھ نہیں دے سکتے، بلکہ الٹا آپ انہیں مالا مال کرسکتے ہیں۔ نہ یہاں ڈوبتے ٹائی ٹانک پہ آئس برگ کی بولیاں لگتی ہیں نہ ٹی وی ریٹنگ کے لیے کھردری بھدی بھاری آوازوں کو گلیمرائز کیا جاسکتا ہے۔ یہاں انفرادی گلیمر چلتا ہی نہیں۔ ضم ہوجائیے فطرت میں، حصہ بن جائیے بلوچستان کا، حسن وشان و تمکنت و بھاری پن آپ کو گود لے گا۔
ہم گود لیے چار بچے نہ تھے،ہم تو ماں جائے بچے ہیں، سمو کی ماں بلوچستا ن کے۔
ہم نے اُس روز قلم کو نہیں چھوا، ہم کیمرے کی عظیم ترین نعمت سے مزین و مسلح تھے۔ ہم آج سب سے زیادہ مقروض تھے عراق کے سائنس دان ابن الہیشم کے جس نے پہلا کیمرہ ایجاد کیا تھا۔ ہم نے کتنی تصویریں اتروائیں۔ نیلگوں آسمان کی، مٹیالے دیو ہیکل قلعوں مجسموں کی، ساتھ ہی موجود شفاف نیلے سمندر کی۔ عجیب زمانہ آگیا کہ اب اپنے سارے جذبات کا اظہار موبائل فون کے کیمرے سے فوٹو کھچوا کر کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ہیشم صاحب کے بیٹے کی ایجاد اب بہت بہتر بنائی جاچکی ہے۔ہم اِس زبردست ایجاد کی نعمت (فوٹو گرافس) کو وہیں سے دنیا کے کسی بھی کونے، جی ہاں کسی بھی کونے کو بھیج سکتے تھے۔ اور وہ بھی پلک جھپکتے میں۔ سرمایہ داری نظام برباد بھی بڑا کرتا ہے، مگر آسائشیں بھی بڑی دیتا ہے۔
ہم ٹکنالوجی کی نعمت پر شکر و صبر کرنا چاہتے تھے کہ ایک بار پھر نظر پُر شکوہ شہزادی پر پڑی۔ وہ ابھی تک دور دیکھ رہی تھی۔ یعنی ابھی انسانی علم نے مزید بے شمار ایجادات کرنا تھی۔ مگر مجھے یقین ہے کہ شہزادی اُس وقت بھی نیچے نہیں دیکھے گی۔ ارے بلوچو! چلتے ہی جاؤ، کوئی سٹاپ، فل سٹاپ نہیں۔ اچھی امید کی شہزادی کا حکم ہے کہ سائنس اور علم کے حصول کے لیے نگاہیں دور افق پر ٹکائے چلتے جاؤ۔ سچ، سائنس اور اِنسانوں کے لیے سہولتوں کی جستجو اور تقسیم میں کوئی آرام، کوئی سستانا نہیں۔
ہم نے شہزادی کی منشا پڑھ لی، اُس کا فرمان پلو میں باندھا، اور نہ رکنے کے لیے چل پڑے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔