کوئٹہ: بھوک ہڑتال پر بیٹھے افراد کی حالت خراب ہونے پر آئی سی یو منتقل

436

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں تحریک بحالی بی ایم سی کی جانب سے چھوتے روز بھی احتجاج جاری ہے جہاں مطالبات کے حق میں تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے افراد کی حالت بگڑ رہی ہے۔

آج صبح تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے طلباء ڈاکٹر فضل سخی، فیض اللہ، طارق بلوچ اور بالاچ بلوچ کی حالت بگڑ گئی جنہیں سول ہسپتال کے آئی سی یو منتقل کردیا گیا۔

اس موقع پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر سخی بلوچ کی حالت خراب ہوچکی ہے نہ کوئی ایمبولینس ہے نہ کوئی طبعی امداد، اسے اس حالت میں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ ہم یہاں لاوارثوں کی طرح پڑے ہوئے ہیں اور نا اہل و بے اختیار جام حکومت اپنے بے اختیار ہونے کا رونا رو رہی ہے۔

خیال رہے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ حالت بگڑنے پر ڈاکٹر سخی کو پرائیویٹ گاڑی میں بٹھاکر ہسپتال منتقل کیا گیا۔

ٹی بی پی نمائندے کے مطابق گذشتہ رات ڈاکٹر سخی فضل بلوچ، ڈاکٹر جنباز مری، ڈاکٹر طارق، ڈاکٹر مشتاق نوشیروانی بلوچ، ڈاکٹر عمیر، بالاچ قادر، محمد اکبر شاہ، شکور بلوچ، عرفان، فیض اللہ خان، منظور شاہ، حسین جان، عبدلباسط شاہ، رمیز آغا، آغا محمد، احمداللہ ابراھیم، ڈاکٹر وہاب، بابل ملک بلوچ، عمران، تاج، حشمت اللہ اور خدائے رحیم کی حالت غیر ہوگی تھی۔

مذکورہ افراد میں سے ڈاکٹر طارق بلوچ، محمد اکبر شاہ، بالاچ قادر، ڈاکٹر جنباز مری اور ڈاکٹر سخی تین تا چار گھنٹے کومہ میں رہیں جنہیں آئی سی یو منتقل کرکے طبی امداد دی گئی۔

صحت سنبھلنے پر دوبارہ مظاہرین کیمپ آکر اپنا احتجاج جاری رکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مطالبات کے حصول تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ نااہل حکومت معاہدوں پر عمل درآمد کرنے سے منحرف ہے۔ انہیں وزیراعلیٰ ہاوس کے سامنے احتجاج بھوک ہڑتالی شرکاء نظر نہیں آرہے باقی اضلاع کا کیا حال ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ بحالی تحریک ایک عوامی تحریک بن چکی ہے۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اس حوالے سے کہا ہے کہ بولان میڈیکل کالج یونیورسٹی کے امور کابینہ کے آئندہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔ ہم نے طلباء سے ان امور کو کابینہ میں زیر غور لانے کا وعدہ کیا تھا جو پورا کررہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ یونیورسٹیاں آئینی طور پر گورنر کے تحت ہیں جو ان کے چانسلر بھی ہے اور ہر ایک کے اپنے اختیارات ہیں، ہم نے گورنر صاحب سے کہا ہے کہ یونیورسٹی پر سینٹ اجلاس کریں اور وہ کر بھی رہے ہیں جو ہمارے اختیار میں ہے اور ہم یہ بی ایم سی طلباء اور ملازمین کے لیے کرینگے۔

نیشنل پارٹی کے سینٹرل کمیٹی کے رکن اور صحافی گہرام اسلم بلوچ نے ٹوئٹر کہا کہ ہم اپنے دوستوں کو تڑپتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ کوئی بھی ریاست ماں، باپ کی حیثیت رکتھی ہے مگر وہ اپنے بچوں کو تڑپتا ہوا دیکھ کر بھی بے حس ہوچکا ہے۔ ان بچوں کو کچھ بھی ہوگیا ذمہ دار جام کمال سرکار ہے۔

ٹوئٹر صارف سلمان بلوچ نے لکھا کہ طلباء اور ملازمین کی صحت بگڑ رہی ہے، لیکن حکومت اس معاملے پر اپنے کان بند کرچکی ہے۔ سلمان نے اس کیساتھ ماہ رنگ بلوچ کی ویڈیو شئر کی جس میں وہ کہہ رہی ہے کہ ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں، بی ایم سی کیلئے ہم نے ہر حد پار کی ہے اور اس سے زیادہ بھی کرسکتے ہیں۔