بلوچستان سماجی کارکن حمیدہ نور نے کہا کہ حیات بلوچ کے ماورائے عدالت قتل نے جہاں سیکیورٹی اداروں کی بربریت اور حد سے تجاوز اختیارات کو دنیا کے سامنے واضح کیا ہے وہاں موجود اہلکاروں کی فوجی تربیت جس میں بلوچستان کے لیے ایک پالیسی ایک سوچ کی بھی نشاہدہی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا حیات بلوچ کے قتل کے بعد جو ملک گیر احتجاج شروع ہوئے ہیں وہ نوجوانوں میں ابھرتے شعور کی واضح مثال ہے ، لیکن دوسری جانب کچھ نوجوانوں کی جانب سے جو دیگر شہروں کی بڑی جامعات میں زیر تعلیم تھے نے احتجاجاً اپنی ڈگریاں نامکمل چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہیں جو کہ میری نظر میں یہ وہ فیصلہ ہے جو ریاست ہمارے نوجوانوں سے چاہتی ہے کہ بلوچستان میں جہالت ہو، کوئی تعلیم حاصل کرکے شعور کی بلندیوں تک نہ پہنچے ہمارے نوجوان غیر شعوری طور پہ اسی پالیسی کو اپنا رہے ہیں۔
حمیدہ نور نے کہا اب آتے ہیں حیات بلوچ کے قتل پہ، کیا سیکیورٹی اہلکار نے حیات سے تعلیمی کوائف پوچھ کے قتل کیا؟ کیا اسکو پتہ تھا یہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا ہے اس کو قتل کرو اس وقت حیات ایک مزدور کی حالت میں اپنے والد کے ساتھ محنت کر رہا تھا، تو کیا اسے اس وجہ سے قتل کیا گیا کہ حیات تعلیم حاصل کر رہا ہے یہ چند سوالات قابلِ غور ہے لہذا ان پہ سوچنا چاہیے یہ ایک جذباتی فیصلہ ہوسکتا ہے لیکن تعمیری نہیں، نوجوانوں کو اپنے فیصلے پہ نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔
سماجی کارکن نے مزید کہا حیات کا قتل اس مائنڈ سیٹ کوظاہر کرتا ہے جس میں بلوچستان میں رہنے والے لوگ خاص کر بلوچوں پہ ہر طرح کے ظلم اور گولی مار دینے کی اجازت ہے جوشاید باقی شہروں میں کرتے ہوئے کوئی نا کوئی قانون فالو کیا جاتا ہوگا لیکن بلوچستان میں کھلی چھوٹ ہے۔
انہوں نے کہا اگر احتجاج کرنا ہے تو شعوری و فکری طور پہ اپنے قلم کو استعمال کریں یہی ہم سب کی طاقت ہے، جذباتی فیصلے مستقل مزاجی نہیں اگر آپ ڈگریاں چھوڑ رہے ہیں تو متبادل راستہ کیا ہے آپ کے پاس، وہی ماسوائے مزدوری کے یا کسی بیچ کا راستہ اختیار کرکے مزید نقصان کھانے کی دوڑ۔
حمیدہ نور نے کہا اس سوچ کو کاوئنٹر کرنے کے لئے تعلیم کو اولین ترجیح دیں تاکہ آپ خود سمیت معاشرے کی فلاح وبہبود کیلئے تگ و دو کر سکو، ایک بار پھر سے نوجوانوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ اس فیصلے پر نظرِ ثانی کریں اور حیات بلوچ کے قتل کے خلاف شعوری جدوجہد کا دامن تھامے رکھے۔