پاکستانی فورسز کے ہاتھوں حیات بلوچ کا قتل ، بلوچستان میں احتجاجی مظاہرے جاری

391

کوئٹہ، خضدار اور پسنی میں ریلیاں، شمع روشن

بلوچستان کے ضلع خضدار میں فورسز کے ہاتھوں تربت آبسر میں قتل ہونے والے طالبعلم حیات بلوچ کے قتل کے خلاف برمش یکجہتی کمیٹی خضدار کی جانب سے کینڈل واک کا انعقاد کیا گیا۔

کینڈل واک میں بچوں نے بھی شرکت کی، شرکاء نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے، جن پر حیات بلوچ کے قتل کے خلاف نعرے درج تھے۔

جبکہ پسنی سے آمدہ اطلاعات کے مطابق سول سوسائٹی پسنی کی جانب سے تربت میں ایف سی اہلکار کے ہاتھوں قتل ہونے والے طالب علم حیات مرزا کے قتل کے خلاف احتجاج کیا گیا۔

پسنی پریس کلب سے لیکر ماشاء اللہ چوک تک ایک خاموش ریلی نکالی گئی ریلی میں عام طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شریک رہے جبکہ خواتین کی بڑی تعداد نے بھی ریلی میں حصہ لیا۔

پسنی میں احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے حیات مرزا کے قتل کو بلوچ نسل کشی قرار دیا ،
سول سوسائٹی کی جانب سے ماشاء اللہ چوک پر شمع روشن کیئے اور حیات مرزا کی فیملی سے اظہار یکجہتی کیاگیا ۔

اس موقع پر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حیات مرزا کے قتل کی جوڈیشل انکوائری کی جائے اور جرم میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے انہوں نے کہاکہ آج جس طرح پسنی کے لوگوں نے حیات مرزا کے قتل اور ناانصافی کے خلاف یکجاہ ہوکر ریلی نکالی ہے امید ہے کہ پسنی کے عوام اپنے نوجوان نسل کو بچانے کے لیئے منشیات کے خلاف بھی اسی طرح میدان میں آکر احتجاج کرینگے۔

دریں اثنا صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے بڑی تعداد میں طلباء و طالبات نے جمع ہوکر حیات بلوچ کی یاد میں شمع روشن کیے۔

اس موقع پر طلباء رہنماؤں نے حیات بلوچ کے قتل کا مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قتل میں ملوث ایف سی اہلکار کو فی الفور سزا دیا جائے اور انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔

جبکہ بلوچ اسٹوڈنٹ ایچوکنشنل آرگنائزیشن نے 22 اگست کو پاکستان بھر میں احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

یاد رہے کہ حیات بلوچ کا تعلق ضلع کیچ سے تھا۔ وہ کراچی یونیورسٹی میں فزیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم تھے۔ 13 اگست کو ایک بم دھماکے کے بعد ایف سی اہلکاروں نے انہیں فائرنگ کرکے قتل کیا تھا۔

اس وقت حیات بلوچ کے قتل کے خلاف بلوچستان کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں لوگ سراپا احتجاج ہیں اور انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں۔

واضح رہے بلوچستان میں مبینہ طور پر فورسز کے ہاتھوں بلوچ نوجوانوں کا ماورائے عدالت قتل اور گمشدگیاں ایک سنگین مسئلہ ہے، جس پر عرصہ دراز سے احتجاج ہوتے آرہے ہیں۔ ان احتجاجوں کی شدت میں گذشتہ ہفتے حیات بلوچ کے قتل کے بعد شدت دیکھنے میں آئی ہے۔