ہمارے ہاں کتاب اور دانشور مدفون ہیں ۔ نادر انور بلوچ

408

ہمارے ہاں کتاب اور دانشور مدفون ہیں

تحریر ۔ نادر انور بلوچ

گذشتہ کچھ سالوں میں ڈر اور خوف کی وجہ سے ذہن منتشر اور جمود کا شکار ہوگیا تھا، جہاں لکھنا پڑھنا بس صرف ایچ ای سی کا دیا ہوا وہ کورس کنٹینٹ تھا جسے ہر سمسٹر میں رٹہ لگا کر پاس کرنا تھا، کیونکہ دوسری کتابیں فلسفہ، ادب، تاریخ، شاعری، اور قوموں کی انقلابی تاریخ کے کتابیں کسی تخریبی مواد سے کم نہ تھیں، جس کی وجہ سے لکھنے کو دل چاہتے ہوئے بھی نہ لکھ سکا اور نہ ہی کتابوں سے لگاو رکھا. اکثر جب میں گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیئے گھر آتا تھا، جب میں نے اپنے وہ کتابیں (جس میں میگزین، شاعری، تاریخ اور میرا ڈائری ہوا کرتا تھا جس میں ہر وقت میں کچھ نہ کچھ لکھنے کی کوشش کرتا) ، وہ غائب تھی اور گھر میں ان کا وجود نہیں تھا، باتوں ہی باتوں میں نے والد صاحب سے کتابوں کی بارے میں پوچھا وہ کہاں غائب کردیئے ہیں، تو والد صاحب نے معصومانہ انداز سے جواب دیتے ہوئے کہا بیٹا وہ کتابیں دفن کردیئے گئے ہیں، جب بارش ہوا تھا تو انہیں پانی بہا کے لے گیا. جن کتابوں کو دوستوں کے ہاں سے ایک ایک کرکے چوری کیا تھا، انہیں دریا بُرد کیا گیا ہے.

اسی طرح ہی بلوچستان میں اہل دانش غائب ہو جانے کی ڈر سے کتراتے ہیں، وہ لکھنے سوچنے یا کسی موضوع یا مسائل کے بارے میں لب کشائی سے گریز کرتے ہیں. وہ اپنے اندر کی تمام پوشیدہ صلاحیتوں کو دفن کرکے بیگانگی اختیار کر جاتے ہیں کہیں اسے بھاری قیمت ادا کرنا نہ پڑے. دانشور اور کتابیں کسی بھی قوم کے حقیقی ترجمان ہوتے ہیں، وہ قوم کے رہنما اور استاد ہوتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے ہمیں کتاب کو دفن کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہم دنیا کی اس خطے میں رہ رہے ہیں جہاں کتاب اور شعور کو جرم ہی سمجھتے ہیں. دنیا میں ترقی اور خوشحالی کے راز علم و ہنر میں پنہاں ہیں اور ہمارے ہاں کتاب کو بندوق کی نوک پر رکھ کر اس کی اصل ہیت کو بگاڑ کر طبقاتی نظام تعلیم کو ہمارے نصاب کا حصہ بنا کر ایک متعصب نظام تعلیم رائج کیا گیا ہے.

ترقی پسند دانشوروں اور مصنفین کو زیر زمین گاڑھ دیا گیا ہے تاکہ حقیقت کی پرچار نہ ہوجائے، جس سے انقلابی سوچ پروان چڑھ جاتے ہیں. آزادی اظہار رائے پر پابندی اور میڈیا کی اس حد تک سنسرشپ کی گئی ہے تاکہ زمینی حقائق کو چھپائیں جس سے سامراجی طبقے کی اجارہ داری قائم رہے. خطے کے تمام بڑے جامعات اور دیگر درسگاہوں کو انڈسٹریز کی طرح ٹریٹ کیا جا رہا ہے تاکہ آنے والے نسل کے دماغ میں گاربیج ڈال کر اور ان سے گاربیج والی صنعتوں کو آگے لے جائے. اکثر تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین اور اور ان کی سیاسی سماجی اور ادبی سرگرمیوں کو پابند کیا گیا ہے تاکہ ان کی علمی اور شعوری سرگرمیاں منتشر رہے اور ان میں جستجو سوچ و بچار کی صلاحیتیں جمود میں پڑ جائیں. یہاں آذادانہ منشیات کے بیوپار اور اسلحہ کی نمائش ہوسکتا ہے مگر کتاب رکھنے اور لکھنے کی آزادی چھین لی گئی ہے. ہر وہ الیگل چیزیں جو خلاف قانون ہیں اس کی مکمل طور پر آزادی دی گئی ہے، لیکن علم اور شعور سے وابستگی کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے.

بنیادی تعلیم ہر فرد کیلئے لازم ہونا ہر ریاست کی آئین کا حصہ ہے اور ریاست کی ذمہ داری ہے، مگر یہاں ہر فرد کے لئے تعلیم کی فروغ تو دور کی بات اگر وہ نجی تعلیمی اداروں میں بمشکل تعلیم کے حصول کیلئے کوشاں ہے تو بھی اس کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے. گذشتہ کچھ سالوں میں کئی ایسے پرائیویٹ ایجوکیشنل سینٹرز کو بند کیا گیا ہے اور انہیں دوبارہ کھولنے پر دھمکایا گیا ہے، بلکہ گوادر اور خضدار میں ان نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ پروفیسر رزاق بلوچ اور سر زاہد آسکانی کو شہید کیا گیا اور پنجگور میں نجی تعلیمی اداروں کو بند کرنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں کیونکہ تعلیم پر اجارہ داری صرف سامراجی طبقے کی ہے. کئی بکسٹال اور چھاپہ خانوں کو سیل کرنا اس بات کی غمازی ہے کہ بالادست طبقے کی منشاء کے بغیر کسی بھی علمی اور اکادمی نسخہ کو تخریبی مواد سے تشبیہ دے کر اس کی اشاعت کو ممنوع قرار دیا جائے.
کسی بھی معاشرے میں اگر کتابوں کو دفن کرنا یا جلانا علم و دانش کو پابند سلاسل کرنا اور طبقاتی نظام تعلیم کو نصاب تعلیم بنانا صرف ایک بالادست طبقے کی اپنے زیر دست کالونی میں ہی ہوا کرتا تھا . ہم بھی ان بد قسمت قوموں میں ایک ہے جہاں اپنی مرضی سے نہ لب ہی بلبلا اٹھتا ہے کہ سچ کو بیان کیا جائے، اور نہ ہاتھ میں جنبش ہوتی ہے کہ سچ لکھا جائے. یوں ایک تاریخی اور سماجی بیگانگی کی پُر تکلف دور چلی جارہی ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔