افغانستان کے صوبہ ننگر ہار کے شہر جلال آباد میں ایک جیل کو نشانہ بنایا گیا۔ بم حملے کے بعد حملہ آوروں اور فورسز میں جھڑپیں
مقامی عہدیداروں کے مطابق صوبہ ننگرہار میں ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی کو جلال آباد شہر کے پی ڈی 4 میں جیل کے داخلی دروازے پر دھماکا سے اُڑا دیا۔
ننگرہار کے گورنر کے ترجمان عطا اللہ خوگیانی کا کہنا ہے کہ داخلی دروازے پر کار بم دھماکے میں ایک شخص ہلاک اور 18 افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ مبینہ طور پر بالائی منزل پر عسکریت پسند موجود تھے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یہ حملہ جیل کے داخلی دروازے پر بم دھماکے سے شروع ہوا اور رکاوٹوں کو دور کرکے حملہ آوروں کے لئے راستہ کھول دیا گیا اور جہاں حملہ آوروں اور فورسز میں جھڑپ بھی ہوئی۔
دوسری جانب جیل کے اندر بھی فائرنگ کی اطلاعات ہے۔ اب تک اس واقعے میں دو افراد کے ہلاک اور 20 کے قریب زخمی ہونے کی اطلاعات ہے۔
آخری اطلاعات تک مقامی عہدیداروں کے مطابق فائرنگ کے تبادلے سے جیل کے قریب ہی سنا جاسکتا ہے۔ وزارت داخلہ نے بھی جلال آباد میں ہونے والے دھماکے کی تصدیق کی ہے لیکن انہوں تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
وضاحت:
په جلال اباد کې حمله او ډزې د اسلامي امارت په مجاهدینو پوری اړه نه لري.توضیحات:
حمله در شهر جلال آباد ربطی به مجاهدین امارت اسلامی ندارد.— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) August 2, 2020
اس سے قبل مقامی نامہ نگاروں کا کہنا تھا کہ اس دھماکے میں اب تک 16 افراد زخمی ہوئے اور ایک کی موت ہوئی ہے اور صحت عامہ کے حکام کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ تمام ہلاکتیں عام شہریوں کی ہوئی ہے۔
افغان طالبان نے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
خیال رہے آج طالبان اور افغان حکومت کے مابین عید کی جنگ بندی کا تیسرا دن ہے۔
دوسری جانب افغان خفیہ سروس نے دعویٰ کیا ہے کہ مشرقی افغانستان میں ایک آپریشن میں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے وابستہ ايک اہم عہدیدار کو ہلاک کر ديا گيا ہے۔
اس حواے سے افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس کی جانب سے ہفتے کی شب بیان جاری کیا گیا۔
بتایا گیا ہے کہ یہ آپریشن جلال آباد کے قریب کیا گیا اور اس کارروائی میں اسلامک اسٹیٹ کا ایک عہدیدار اسداللہ اورکزئی مارا گيا۔ اورکزئی افغانستان میں متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان ميں جنگی آپريشنز کے دوران زخمی اور ہلاک ہونے والے شہريوں کی تعداد ميں رواں سال کے پہلے چھ ماہ ميں پچھلے سال اسی عرصے کے مقابلے ميں تيرہ فيصد کی کمی نوٹ کی گئی ہے۔ يہ کمی دو وجوہات کی بنا پر ہوئی ہے۔ افغانستان ميں تعينات غير ملکی دستے اب شدت پسندوں کے خلاف کارروائی خود نہيں کرتے بلکہ افغان سکيورٹی فورسز کی جانب سے مدد طلب کيے جانے پر کارروائيوں کا حصہ بنتے ہيں، جس سے شہريوں کی ہلاکت ميں کمی ہوئی ہے۔ مزيد يہ کہ داعش کے حملوں ميں بھی کمی آئی ہے۔
اقوام متحدہ کی گذشتہ ہفتے جاری کردہ ايک رپورٹ کے مطابق افغانستان ميں رواں سال کے پہلے چھ ماہ ميں داعش نے سترہ حملے کيے، جن ميں شہری زخمی يا ہلاک ہوئے۔ پچھلے سال اسی عرصے ميں حملوں کی تعداد ستانوے تھی۔ رواں سال کے پہلے چھ ماہ ميں اسلامک اسٹيٹ کے حملوں ميں مجموعی طور پر 1,282 افراد ہلاک ہوئے جبکہ جبکہ پچھلے سال جنوری تا جون يہ تعداد 2,176 تھی۔