مجید بریگیڈ کی اندرونی کہانی
“مجید بریگیڈ کی بنیادوں، تاریخ اور فلسفے کو تلاشنے کی کہانی، اس سفر میں بی ایل اے سربراہ بشیر زیب بلوچ، مجید بریگیڈ کے کمانڈر حمل ریحان، مجید بریگیڈ لاجسٹک یونٹ کے انچارج بزگر خان سے ملاقات کی جائیگی”
ٹی بی پی فیچر رپورٹ
چیف ایڈیٹر میران مزار
ابتداء سے پہلے:
جولائی کی ایک گرم مرطوب شام کوئٹہ کے علاقے کلی اسماعیل میں واقع ایک چھوٹے سے مکان میں چار دوست کافی دیر سے ایک مدعے پر بغیر کسی نتیجے پر پہنچے بحث کررہے تھے۔ کچھ دن قبل انہوں نے دنیا تک اپنی آواز پہنچانے کا ایک سخت فیصلہ لیا تھا، لیکن یہ تکرار چل رہی تھی کہ اس فیصلے کو عملی جامہ کون پہنائے گا۔ قوم پرست اور مارکسسٹ نظریات سے متاثر چاروں نوجوانوں کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اگر انکا یہ مشن کامیاب ہوجاتا ہے، تو یہ بلوچ تاریخ کی دھارہ بدل دے گی، اسلیئے ہر ایک کی تکرار یہ تھی کہ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اسے ہی جانا چاہیئے۔ بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ چاروں اپنا نام پرچیوں پر لکھ کر ایک ڈبے میں ڈال کر قسمت پر چھوڑیں گے کہ قرعہ فال کس کے نام نکلتا ہے۔ جب ڈبے میں پڑے کاغذ کے پرزوں میں سے ایک نکال کر اسے کھول کر پڑھا جاتا ہے، تو اس پر نام “مجید لانگو” تحریر ہوئی ہوتی ہے۔ باقی تینوں دوست مجید کو گلے لگاکر مبارک باد دیتے ہیں۔
کچھ دنوں بعد 2 اگست 1974 کو اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کوئٹہ ایک جلسے سے خطاب کرنے آتا ہے۔ یہ وہ دور ہوتا ہے، جب بھٹو نے بلوچستان میں نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) کی حکومت برطرف کرکے تمام بلوچ قوم پرست رہنماؤں کو حیدرآباد جیل میں بند کردیا تھا اور شاہ ایران کی مدد سے بلوچستان میں ایک وسیع پیمانے کا آپریشن شروع کرچکا تھا۔ جس میں بڑی تعداد میں عام بلوچوں کی ہلاکتیں ہورہی تھیں۔ مجید لانگو اس آپریشن کے جواب میں براہ راست ذولفقار علی بھٹو پر خود کش حملہ کرنا چاہتا تھا۔ حملے کیلئے اسکے پاس محض ایک پرانا روسی ساختہ دستی بم ہوتا ہے۔ وہ جلسہ گاہ کے قریب ایک درخت پر چڑھ کر بھٹو کے گذرنے کا انتظار کرنے لگتا ہے، ذولفقار علی بھٹو کو دیکھ کر وہ قریب جانے کی کوشش کرتا ہے لیکن مطلوبہ جگہ تک پہنچنے سے پہلے ہی دستی بم اسکے ہاتھ میں پھٹ جاتا ہے۔
یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ مجید لانگو کے باقی تین ساتھی کون تھے، اور بعد میں انکا کیا بنا۔ وہ پکڑے و مارے گئے یا بعد کی طویل بلوچ مزاحمت کو منظم کرنے والے وہی تھے۔ لیکن یہ واقعہ تقریباً پانچ دہائیوں سے تمام قوم پرست بلوچ سیاسی کارکنوں اور مزاحمتکاروں کے حافظوں میں اسطرح نقش ہے کہ اب انکے شعور کا حصہ بن چکا ہے۔ مجید لانگو کے 2 اگست 1974 کے حملے میں ذولفقار علی بھٹو بچ گئے تھے۔ لیکن یہ حملہ ناکام نہیں ہوا تھا، اس حملے کے اثرات نے سالوں بعد ایک ایسے سلسلے کو جنم دیا جسے آج دنیا “مجید بریگیڈ ” کے نام سے جانتی ہے۔
مجید کی تلاش میں:
29 جون 2020 کو ایک سرمئی رنگ کی گاڑی میں سوار چار بلوچ نوجوان جدید ہتھیاروں سے لیس، پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے مختلف سڑکوں سے ہوتے ہوئے، پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے سامنے رکتے ہیں۔ گاڑی سے اتر کر وہ پہلے چیک پوسٹ پر تعینات گارڈز سے مقابلہ شروع کردیتے ہیں، جس میں تمام گارڈ اور دو حملہ آور مارے جاتے ہیں اور باقی دو حملہ آور اندر گھس کر لڑتے رہتے ہیں۔ کچھ دیر بعد باقی دو کے بھی مارے جانے کی خبر چلتی ہے۔ حکومت پاکستان حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک بہت خطرناک حملے کو ناکام بنادیا گیا ہے۔ دوسری طرف بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بی ایل اے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہتا ہے کہ حملہ ہماری “مجید بریگیڈ” نے کی ہے، نشانہ پاکستان کی معیشت تھی اور ہم اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
یہ حملہ پوری دنیا کے تمام بڑے نیوز چینلوں اور اخبارات میں جگہ بنالیتا ہے، لیکن اسکے ساتھ ہی بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں اور ایک نئی بحث کا آغاز ہوجاتا ہے۔ یہ بحث محض بلوچ تحریک کے نقادوں تک موقوف نہیں رہتی بلکہ بلوچ قوم پرست خود بھی اس بحث میں کثیرالرائے نظر آتے ہیں۔ بی ایل اے مجید بریگیڈ کے غیرمعمولی اہداف چننے کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ مجید بریگیڈ کے حملے کامیاب ہیں یا ناکام؟ ماضی کے برعکس بلوچ تحریک میں اچانک فدائی حملوں کی روایت اتنی تیزی سے کیوں پھیل رہی ہے؟ فدائی حملے بلوچ تحریک کیلئے فائدہ مند ہیں یا نقصاندہ؟ یہ اور اس جیسے کئی سوالات مجید بریگیڈ کے متحرک ہوتے ہی اور خاص طور پر آخری حملے کے بعد سے موضوعِ بحث ہیں۔
ان تمام سوالات اور مباحث پر بی ایل اے اور خاص طور پر اسکے مجید بریگیڈ کی طرف سے کوئی موقف میڈیا میں نظر نہیں آتا۔ دی بلوچستان پوسٹ ان سوالات کے جواب جاننے، مجید بریگیڈ کی حقیقی تاریخ، بنیادیں اور فلسفہ تلاشنے کیلئے ایک سفر پر نکلی ہے۔ اس سفر میں ہم بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بشیر زیب بلوچ سے ملیں گے۔ اس دوران پہلی دفعہ مجید بریگیڈ کے کمانڈر حمل ریحان بلوچ میڈیا سے بات کریں گے۔ ہمیں مجید بریگیڈ کے تربیتی مراکز، انکے رہائش گاہ، ابتک کے فدائی حملے کرنے والے حملہ آوروں کے پڑے ہوئے سامان دِکھائے جائیں گے۔ ہم ان فدائیوں کے قریبی دوستوں اور ٹریننگ میں مدد کرنے والے معاونین سے بھی بات چیت کریں گے۔ ہماری گفتگو مجید بریگیڈ کے لاجسٹک یونٹ کے انچارچ بُزگر خان سے بھی ہوگی جو اس پورے سفر میں ہمارے ساتھ رہیگا۔ خفیہ ذرائع سے مسلسل رابطوں کی کوشش کے بعد ہمیں اس شرط پر ملاقات کرائی جارہی ہے کہ ہم اپنے ساتھ مبائل، کیمرہ یا کوئی الیکٹرانک اوزار ساتھ نہیں رکھیں گے اور نا ہی علاقوں و کیمپوں کے نام و مقام ظاہر کریں گے۔ یہ زمینی سفر سرلٹھ سے شروع ہوکر قلات کے پہاڑوں میں ختم ہوگی اور تاریخی سفر 1995 سے شروع ہوکر مستقبل کے اندازوں تک پہنچے گی۔
بوڑھا پیغمبر:
90 کی دہائی بلوچ سیاست میں طوفان سے پہلے سمندر کی خاموشی سی تھی، جس کے بارے میں پاکستانی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ بلوچ ایک ہارے ہوئے طویل جنگ اور 15 سالہ جلاوطنی کے زخم چاٹ رہے تھے۔ اور بلوچ اس خاموشی کو قدیم کا جدید کے قالب میں ڈھلنے کا ساعت گردانتے ہیں۔
یہ 1995 کی بات ہے، جب ایک بوڑھا بلوچ قوم پرست مارکسسٹ کوئٹہ میں واقع اپنے گھر میں نوجوانوں کو جمع کرکے سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کرتا ہے۔ یہ تعلیمات روایتی اسکولوں اور سیاسی سرکلوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہاں سوال کرنا سکھایا جاتا ہے۔ جلد ان تعلیمی سرکلوں کو “حق توار ” (حق کی آواز) کا نام دیا جاتا ہے۔ اور اپنے استاد کو نوجوان “پیغمبر آزادی” کے نام سے پکارنا شروع کردیتے ہیں۔ پوری دنیا اس ” بوڑھے پیغمبر” کو سردار خیربخش مری کے نام سے جانتی ہے۔
ان ہی سیاسی نشستوں سے نوجوانوں کی ایک ایسی نسل جنم لیتی ہے، جو بلوچ مزاحمت کے جدید چہرے بلوچ لبریشن آرمی کو جدت کے قالب میں ڈھال کر، پورے بلوچستان میں منظم کردیتے ہیں اور آج سے پورے دو دہائی قبل سنہ 2000 میں باقاعدہ اپنے پہلی مسلح کاروائیوں کا آغاز کردیتے ہیں۔ ان نشستوں میں بہت غور سے باتیں سنتا اسلم دہوار نامی ایک جذباتی نوجوان بھی موجود ہوتا ہے۔ یہ نوجوان بہت جلد اس فیصلے پر پہنچ جاتا ہے کہ بلوچ مسئلے کا واحد حل محض مسلح جدوجہد ہے۔ یہ نوجوان بی ایل اے کو منظم کرنے میں سب سے زیادہ متحرک ہوجاتا ہے۔ یہی اسلم دہوار بعد میں جنرل استاد اسلم بلوچ کے نام سے بلوچ مزاحمتی تحریک میں سب سے زیادہ با اثر، محترم اور خطرناک شخصیت کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے اور 2017 میں بلوچ لبریشن آرمی کا سربراہ چنا جاتا ہے۔
خداداد صلاحیتوں کا مالک یہ نوجوان اسلم بلوچ، بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے محض پچاس کلومیٹر دور بولان میں اپنا بیس قائم کرکے، اپنے قائدانہ سفر کا آغاز ایک کیمپ کمانڈر کی حیثیت سے کرتا ہے۔ اسکے قریبی ساتھیوں کے مطابق اسلم ستر کی دہائی والا گوریلا جنگ نہیں چاہتا تھا۔ وہ اونچے پہاڑوں کے اندر چھپ کر لڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اسلیئے اس نے “اربن گوریلا جنگ” کیلئے نوجوانوں کی تربیت شروع کردی اور بہت جلد اس جنگ کو بلوچستان کے پہاڑوں سے نکال کر شہروں تک لےآیا۔ جب یہ جنگ شہروں تک پہنچی تو پورے جنگ کا نقشہ بدل گیا، اسکی گونج ہرطرف سنائی دینے لگی اور نوجوان بھی مزید متاثر ہوکر اس جنگ میں جوق در جوق شامل ہوتے رہے۔
لیکن اسلم اس جنگ کو مزید آگے لیجانا چاہتا تھا۔ حق توار کے نشستوں میں سے ایک نشست میں اٹھا ایک سوال ہمیشہ سے اس کے ذہن میں گردش کرتا رہا تھا۔ وہ اس خاص نشست کی باتیں اپنے حلقہ یاراں میں ہمیشہ دہراتا ہے، جب سردار خیربخش مری اپنے معمول کے ایک لیکچر کے بعد بیٹھے نوجوانوں سے سوال کرتا ہے کہ “دنیا کے تمام بڑی آزادی کی تحاریک میں فدائین موجود تھے، خود کش موجود تھے، بلوچ جنگجو پیدا کررہے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم فدائین پیدا کرنے سے قاصر ہیں؟”
سنہ 2008 میں بولان میں بی ایل اے کے “سارو” کیمپ میں اسلم بلوچ اپنے بااعتماد سینئر ساتھیوں کو جمع کرکے انکے سامنے اپنے نئے عزائم رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ “وہ بلوچ لبریشن آرمی کے اندر ایک نیا بریگیڈ قائم کرنا چاہتےہیں۔ یہ اعلیٰ تربیت یافتہ ہوگی اور محض فدائی حملے کریگی۔” ابتک اس بریگیڈ کا نا کوئی نام ہوتا ہے اور نا اس میں کوئی شامل، اور نا ہی کسی کو کوئی امید ہوتی ہے کہ اس میں کوئی شامل ہوگا۔ یہ محض دیوانے کا خواب لگتا ہے۔
مجید سے مجید تک:
یہ 17 مارچ 2010 تقریباً دوپہر دوبجے کا وقت تھا، جب پاکستانی فوج کوئٹہ میں گولیمار چوک اور وحدت کالونی کے قریب ایک گھر کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیتے ہیں۔ جب گھر میں موجود افراد کو پتہ چلتا ہے کہ وہ گھیرے میں آگئے ہیں، تو ان میں سے ایک نوجوان بندوق اٹھا کر ایک طرف سے فائرنگ کرتے ہوئے راستہ صاف کرکے اپنے ساتھیوں کو کہتا ہے کہ وہ اس راستے سے نکل جائیں، وہ پیچھے سے فوج کو روکے رکھے گا، اور بعد میں وہ بھی نکل آئیگا۔ ساتھیوں کی ضد کے باوجود وہ انہیں زبردستی وہاں سے نکال لیتا ہے۔ اس سارے منظر کا تجربہ وہ پہلے بھی کرچکا تھا، جب دو سال پہلے اسی طرح کے گھیرے سے بلوچستان کے ایک اور شہر حب چوکی میں نا صرف وہ اپنے ساتھیوں کو نکالنے میں کامیاب ہوا تھا بلکہ بعد میں زخمی حالت میں خود بھی نکل آیا تھا۔ لیکن اس بار فوج بہت بڑی تعداد میں آئی ہوئی ہوتی ہے اور دن کی روشنی ہوتی ہے۔ اسکے پاس صرف دو راستے ہوتے ہیں کہ وہ زندگی چنے یا ساتھیوں کو، وہ اپنے ساتھیوں کو بچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور ایک گھنٹے کے مقابلے کے بعد خود مارا جاتا ہے۔
اس نوجوان کے مارے جانے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے، کیونکہ بلوچستان کے زیر زمین دنیا میں اس نوجوان کو ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا ہے، اسے بلوچستان کا سب سے ماہر اور تیز طرار “اربن گوریلا” تصور کیا جاتا ہے۔ اس نوجوان کی شناخت مجید لانگو کے نام سے ہوتی ہے۔ یہاں ناموں میں مماثلت محض ایک اتفاق نہیں، بلکہ یہ ایک نسل کہانی ہے۔ جب 2 اگست 1974 کو مجید لانگو اول بھٹو پر فدائی حملے میں مارے جاتے ہیں، چند سالوں بعد انکے گھر میں اسکے چھوٹے بھائی کی ولادت ہوتی ہے۔ مجید کی یاد میں اس لڑکے کا نام بھی والدین مجید لانگو ہی رکھتے ہیں۔ آج ان دونوں بھائیوں کو بلوچ سماج میں مجید اول اور مجید ثانی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ محض دو بھائی ہی اس گھر سے بلوچوں کی آزادی کی تحریک کیلئے نہیں نکلتے، انکا منجھلا بھائی ایڈوکیٹ امیر بخش لانگو اسی سال 2010 میں فروری کے مہینے میں مارے جاتے ہیں۔ جسے بی ایل اے اپنا اعلیٰ کمانڈر قرار دیکر بلوچ مزاحمت کے بہادری کے اعلیٰ ترین لقب ” سگار بلوچ ” (بلوچوں کی تلوار) دینے کا اعلان کرتی ہے۔
اسی دن 17 مارچ 2010 کو اسلم بلوچ باقاعدہ بی ایل اے کے فدائی بریگیڈ کے قیام کا اعلان کرتا ہے، اور میڈیا میں ایک بیان جاری کرتا ہے، جس میں مجید برادران کے فدا ہونے کے فلسفے کو مشعل راہ گردانتا ہے، اور بی ایل اے کے اس فدائی بریگیڈ کو مجید ثانی سے منسوب کرکے اسکا نام “مجید بریگیڈ” رکھتا ہے۔ اور یوں بلوچ مزاحمتی تاریخ کے سب سے خطرناک، جدید اور ایلیٹ یونٹ کا جنم ہوتا ہے۔
سنت ابراہیمی:
اسلم بلوچ اپنے مجید بریگیڈ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے باقاعدہ کام شروع کردیتا ہے، وہ بی ایل اے کے جنگجوؤں سے ملاقاتیں تیز کردیتا ہے، انکی نشستوں میں اب اسکے لیکچروں کا محور یہ ہوتا ہے کہ کیوں بلوچوں کو ایک “فدائین یونٹ” کی ضرورت ہے؟ کیوں بلوچ کو فدائی حملے شروع کرنا چاہیئے اور ان حملوں کا اثر اور اہمیت کتنا ہوگا؟ اور کیسے فدائی حملوں سے پوری بلوچ تحریک کی ہیت بدلی جاسکتی ہے۔
سال 2010 کے اواخر میں بی ایل اے کا ایک جنگجو باز خان مری، اسلم بلوچ سے رابطہ کرکے ان سے ملنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ باز خان مری ایک انتہائی سادہ اور خاموش مزاج کا انسان اور دو بچوں کا والد ہوتا ہے۔ باز خان کے اسی سادہ و خاموش مزاجی کی وجہ سے اسکے ساتھی اسے “درویش” کہہ کر پکارتے ہیں۔ وہ اسلم بلوچ سے بولان میں بی ایل اے کے “بُزگر کیمپ” میں ملتے ہیں، اور تنہائی میں ایک لمبی گفتگو ہوتی ہے۔ آنے والے کئی سالوں تک اسلم بلوچ اس گفتگو کا حوالہ دیکر اپنے ساتھیوں سے اکثر کہتے ہیں کہ ” خدا سے میں بس ایک چیز مانگتا ہوں کہ وہ بلوچ ماؤں کو یہ استطاعت دے کہ وہ بازخان جیسے بچے جنم دیں۔”
30 دسمبر 2011 کو سابق پاکستانی وفاقی وزیر برائے پٹرولیم نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل اور اسکے ساتھیوں پر کوئٹہ میں ارباب کرم خان روڈ پر واقع انکے گھر پر ایک خود کش حملہ ہوتا ہے۔ شفیق مینگل پر یہ الزام ہوتا ہے کہ بلوچستان میں مبینہ طور پر فوج کی سرپرستی میں اس نے ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دیئے ہوئے ہیں۔ جو سینکڑوں سیاسی کارکنوں کے قتل و اغواء میں ملوث ہے۔ اسکے علاوہ بلوچستان کے علاقے توتک سے ملنے والی اجتماعی قبروں کا الزام بھی ان پر لگتا رہا ہے۔ اس خود کش حملے میں شفیق مینگل خود محفوظ رہتے ہیں لیکن انکے مبینہ ڈیتھ اسکواڈ کے تقریباً بیس اہلکار مارے جاتے ہیں۔ اس حملے کی ذمہ داری بی ایل اے مجید بریگیڈ قبول کرتی ہے اور میڈیا میں خودکش حملہ آور کی تصویر جاری کرتے ہوئے کہتی ہے کہ یہ حملہ انکے فدائی “بازخان مری عرف درویش” نے کی ہے۔ یہ مجید بریگیڈ کی پہلی باضابطہ کاروائی ہوتی ہے۔
بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کو اگلی کاروائی کیلئے 7 سال کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ 11 اگست کا دن بلوچ قوم پرستوں کیلئے بہت اہمیت کا حامل دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ریاست قلات نے 1947 میں انگریزوں سے آزادی کا اعلان کیا تھا۔ ہر سال بلوچ قوم پرست اس دن، علامتی طور پر یوم آزادی مناتے ہیں۔ اسی علامتی دن کا چناؤ کرتے ہوئے مجید بریگیڈ کا دوسرا فدائی حملہ 11 اگست 2018 کو بلوچستان کے علاقے دالبندین میں سیندک پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجنیئروں کے بس پر “ایس وی بی آئی ای ڈی” حملے کی صورت کیا جاتا ہے۔ اس حملے میں متعدد ہلاک و زخمی ہوتے ہیں۔ لیکن اس حملے کی سب سے منفرد بات خودکش حملہ آور ہوتا ہے، جس کی وجہ سے آنے والے سالوں میں بلوچستان میں جاری آزادی کی جنگ کا نقشہ و حرکیات بدلنے والے ہیں۔
حملہ آور کی شناخت 22 سالہ نوجوان ریحان اسلم بلوچ کے نام سے ہوتی ہے، جو بی ایل اے کے سربراہ اسلم بلوچ کا اپنا سگا بڑا بیٹا ہوتا ہے۔ اس دن تمام بلوچوں کے زبان پر یہ جملہ تواتر کے ساتھ سنا جاسکتا تھا “وقت کے ابراہیم نے آزادی کیلئے اپنی سب سے قیمتی چیز قربان کردی۔”
دس لاکھ کے خودکش:
سفر کے پہلے ہی روز ہمارا تعارف “بُزگر خان” سے کرایا گیا تھا، جو یہاں سے آگے سفر میں ہمارے ساتھ ہوگا، اور ہماری ملاقات بی ایل اے سربراہ سے کرائے گا۔ یہاں سے آگے رازداری کو مدنظر رکھتے ہوئے بی ایل اے کے دوسرے یونٹوں کے جنگجوؤں کو بھی جانے کی اجازت نہیں۔ تقریباً زندگی کی چالیس بہاریں دیکھنے والا بُزگر خان، بی ایل اے کے دیرینہ جنگجوؤں میں سے ایک ہے۔ وہ اسلم بلوچ کے بااعتماد اور قریبی ساتھیوں میں سے ایک رہے ہیں، اور مجید بریگیڈ کے قیام میں اسلم بلوچ کے ساتھ رہے ہیں، وہ اس وقت مجید بریگیڈ کے لاجسٹک سپورٹ یونٹ کے انچارج ہیں۔
ہم نے مجید بریگیڈ کو مزید سمجھنے کی جستجو میں، جب ان سے کچھ سوالات پوچھنے کی درخواست کی تو انہوں نے حامی بھرلی، ہمارا پہلا سوال یہی سمجھنا تھا کہ اسلم بلوچ نے کیا سوچ کر اپنے بڑے بیٹے کو فدائی مشن پر بھیجنے کا فیصلہ کیا؟ وہ تھوڑا سوچنے کے بعد ایک طویل گفتگو شروع کرتے ہوئے بولا “جب ریحان فدائی حملے کا فیصلہ کرچکا تھا اور حملے کی تیاری مکمل ہوچکی تھی، تو ایک ہمدرد دوست نے اسلم بلوچ کو اپنا بڑا فدائی حملہ کرنے کیلئے نا بھیجنے کا مشورہ دیا۔ وہ زور دیتے ہوئے بول رہا تھا کہ “کل کو ریحان تمہارا وارث و جانشین بنے گا، تمہیں اسطرح خود کو لاوارث نہیں کرنا چاہیئے۔ اگر تمہیں خود کش حملہ ہی کروانا ہے تو ایسے مدرسہ نما خود کش حملہ آوروں کی فیکٹریاں ہیں، جہاں دس لاکھ روپے میں تیار خود کش حملہ آور مل جاتے ہیں، وہاں سے ایک خرید لو۔” اسلم نے اسے سختی سے ٹوکتے ہوئے جواب دیا تھا کہ “اگر آج ہم خود کو اور اپنے بچوں کو قربان کرنے سے کترائیں گے، تو کل ہم کس منہ سے بلوچ ماؤں سے انکے لخت جگروں کی قربانی مانگیں گے؟ آزادی صرف انکا حق ہے، جو کسی غیبی طاقت یا کرائے کے قاتل کے انتظار کے بجائے اپنی جنگ خود لڑتے ہیں، اپنی قربانی خود دھان کرتے ہیں۔ آج ایک ریحانو جائے گا تو کل سو بہادر بلوچ بچے اور پیدا ہونگے۔ مقصد صرف ایک خود کش دھماکہ نہیں ہے بلکہ یہ راستہ دکھانا ہے کہ اس سے آگے یہ لڑائی کیسے لڑنی ہے۔ ایک ریحان کے جانے سے میں لاوارث نہیں ہونگا، میرا وارث میری قوم رہیگی۔”
اسلم بلوچ کے تمام اندازے صحیح نکلے، دالبندین فدائی حملے کے بعد مجید بریگیڈ بہت تیزی کے ساتھ متحرک ہوگئی اور اسکے رضاکاروں میں اضافہ ہونے لگا۔ صرف تین مہینے بعد 23 نومبر 2018 کو بی ایل اے مجید بریگیڈ کے تین مزاحمت کاروں نے کراچی میں چینی قونصل خانے پر ایک بڑا فدائی حملہ کرکے، مجید بریگیڈ کو دنیا بھر کے اخبارات کے سرخیوں تک پہنچادیا اور خطرے کی ایک نئی گھنٹی بجادی۔
ہم اپنی منزل کے قریب تھے، پہنچنے سے چند ساعت پہلے ایک طویل خاموشی کے بعد بزگر خان زیر لب بولنے لگا “اسلم ایک بہادر شخص تھا، لیکن اسکا دشمن بہادر نہیں ہے، اسلم نے جن دس لاکھ کے خودکشوں کو ٹھکرا دیا تھا، اسکے دشمن نے براہ راست مقابلہ کرنے کے بجائے، دس لاکھ کا خود کش حملہ آور بھیج کر اسے شہید کردیا۔”
بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ اور مجید بریگیڈ کے خالق اسلم بلوچ 25 دسمبر 2018 کو اپنے پانچ ساتھیوں کے ہمراہ ایک خود کش حملے میں مارے گئے تھے۔
پرانی جنگ، نیا خون:
25 دسمبر 2018 پہلا موقع نہیں تھا، جب بلوچ مزاحمت کے اس پراسرار دیومالائی کردار اسلم بلوچ کے مارے جانے کی خبریں گردش کررہی تھیں، اس سے پہلے وہ کئی حملوں میں بچ نکلے تھے اور ایک بار بولان میں فوج سے دوبدو لڑائی کے دوران تین گولیاں لگنے کے باوجود زخمی حالت میں وہ گھیرا توڑ کر نکل گئے تھے، جس کے بعد ایک سال تک حکومت انہیں مارنے کا دعویٰ کرتی رہی تھی۔ لیکن اس بار بی ایل اے نے خود اسلم بلوچ کے مارے جانے کی تصدیق کردی۔ بی ایل اے کی تصدیق کے بعد ہرطرف دفاعی تجزیہ نگاروں نے اسے صرف اسلم بلوچ کی موت نہیں بلکہ تیزی سے سر اٹھاتے خطرناک مجید بریگیڈ کا بھی موت قرار دے دیا۔
لیکن تمام اندازوں اور دعوؤں کے برعکس اسلم بلوچ کے مارے جانے کے محض چار ماہ بعد 11 مئی 2019 کو مجید بریگیڈ نے ابتک کی اپنی سب سے بڑی کاروائی کردی، جب مجید بریگیڈ کے چار مزاحمت کاروں نے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ریڈ زون کے اندر واقع چار ستارہ ہوٹل “پی سی” پر حملہ کرکے اس پر چوبیس گھنٹوں سے زائد عرصے تک قبضے کیئے رکھا۔ بی ایل اے نے دعویٰ کیا کے اس دوران انہوں نے کئی چینی کاروباری شخصیات سمیت متعدد فوجی اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد ہوٹل کو تباہ کردیا ہے۔ چوبیس گھنٹوں کے بعد گولیاں ختم ہونے کی وجہ سے حملہ آوروں نے خود کو اپنی آخری گولیاں مارکر ہلاک کردیا ہے۔ اور اسکے بعد 29 جون 2020 کا پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر چار مزید مزاحمت کاروں کا حالیہ حملہ ایک واضح اشارہ ہے کہ مجید بریگیڈ اسلم بلوچ کے بعد ختم ہونے یا کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط اور زیادہ مہلک ہوتی جارہی ہے۔ اسکی وجہ کیا ہے؟
اکیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی جب اسلم بلوچ زیرزمین بلوچ مزاحمتی تاریخ کے جدید ترین مسلح تنظیم بی ایل اے کو منظم کرنے اور زیر زمین رہ کر مسلح کاروائیوں میں مصروف تھے۔ اسی وقت بلوچ طلباء سیاست میں بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ کا ایک نوجوان طالبعلم تیزی کے ساتھ ابھر رہا تھا۔ جب نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچستان کی مسلح جنگ میں ایک دم تیزی آجاتی ہے، اسی وقت یہ دراز قد نوجوان سب سے بڑے بلوچ طلباء تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین منتخب ہوتے ہیں۔ نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے ردعمل میں، خان آف قلات ڈیڑھ سو سال کے طویل عرصے کے بعد جب 2006 میں بلوچستان کے سابق دارلحکومت قلات کے شاہی محل میں تمام بلوچ سرداروں کا تاریخی گرینڈ جرگہ بلاتا ہے، اور تمام بلوچ سردار اس میں شریک ہوتے ہیں تو اس نوجوان کو وہاں جرگے کے باہر نا صرف پاکستان کے خلاف بلکہ سرداروں و سرداری نظام کے خلاف بھی نعرے لگاتے اور تقریر کرتے دیکھا جاتا ہے اور پھر “بشیر زیب بلوچ” نام طلباء سیاست سے نکل کر پورے بلوچ سیاست تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ وہ دور ہوتا ہے، جب بی ایس او آزاد بلوچستان کی سب سے بڑی اور سب سے طاقتور تنظیم بن جاتی ہے۔
بی ایس او آزاد کے بڑھتے ہوئے مقبولیت، اثر انگیزی اور ریاست مخالف بیانیئے کو دیکھ کر 2008 کے بعد بی ایس او آزاد کے خلاف ایک بڑا ریاستی کریک ڈاؤن شروع ہوجاتا ہے۔ تیزی کے ساتھ اسکے سینکڑوں کارکنوں و لیڈروں کو گرفتار کرکے ہمیشہ کیلئے لاپتہ کردیا جاتا ہے اور سینکڑوں کو ٹارگٹ کلنگ میں قتل کردیا جاتا ہے۔ غیر مسلح ہونے اور تعلیمی اداروں کے نہتے طلباء ہونے کی وجہ سے یہ ریاست کا آسان شکار بن جاتے ہیں اور 2011 تک آدھے سے زیادہ بی ایس او آزاد کا صفایا کردیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ریاستی کریک ڈاؤن کے دوران بی ایس او آزاد کے روپوش چیئرمین بشیرزیب بلوچ اور اسلم بلوچ کا کہیں ملاقات ہوجاتا ہے۔ اپنے ساتھیوں کے یوں بے دریغ قتل عام کو دیکھ کر بشیر زیب اس نتیجے تک پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ بلوچستان میں آزادی کیلئے پرامن سیاسی جدوجہد اب ناممکن ہے۔ اس ملاقات میں وہ اسلم بلوچ کو اور اسلم بلوچ انہیں اپنے خیالات سے متاثر کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ بشیرزیب بلوچ پانچ سال بی ایس او آزاد کے چیئرمین رہنے کے بعد طلباء سیاست کو خیرباد کہتے ہیں اور بی ایل اے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اگلے 10 سال وہ سپاہی سے لیکر کمانڈر تک، پھر کمانڈر سے لیکر بی ایل اے کے اعلیٰ ترین ادارے سینئر کمانڈ کونسل کا رکن ہونے کا سفر طے کرتے ہیں۔ جب اسلم بلوچ مارے جاتے ہیں تو بی ایل اے میں قیادت کا نا کوئی بحران پیدا ہوتا ہے اور نا جھگڑا۔ وسیع سیاسی و جنگی تجربہ اور اسلم بلوچ کے قریب ترین رفیق ہونے کی وجہ سے بشیرزیب بلوچ بلا تنازعہ بلوچ لبریشن آرمی کے نئے سربراہ مقرر ہوجاتے ہیں۔ یہی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے کہ اسلم بلوچ کے بعد مجید بریگیڈ ختم نہیں ہوئی بلکہ مزید ابھرتی ہے کیونکہ تسلسل کبھی ٹوٹتا نہیں اور قیادت میں نیا خون اسے مزید خطرناک جہتوں تک پہنچادیتا ہے۔
ہماری مخالفت ہی ہماری ترجمانی:
جب ہماری ملاقات بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بشیرزیب بلوچ سے ہوئی تو شام کے کھانے کا وقت ہوچکا تھا۔ یہ تسلیم کیا جائے یا نہیں لیکن بلوچستان کی سیاست اور جو بھی مستقبل ہوگا اس پر بی ایل اے کا بہت بڑا اثر ہے، ان سے بہت سے سوالات پوچھے جاسکتے ہیں لیکن ہماری زیادہ دلچسپی مجید بریگیڈ اور فدائی حملوں سے متعلق انکا اور انکے تنظیم کا موقف خاص طور پر حالیہ مباحث کے تناظر میں جاننا تھا۔ روایتی بلوچی حال احوال اور کھانے کے بعد ہم نے باقاعدہ اپنے انٹرویو کا آغاز کیا۔
ٹی بی پی نمائیندہ: مجید بریگیڈ کیا ہے، اسکے تشکیل کے کیا مقصد ہیں؟
بی ایل اے سربراہ: مجید بریگیڈ دراصل عمل ارتقاء سے گذر کر بلوچ مزاحمت کی جدید ترین شکل ہے۔ جسے مزید جدید اور پختہ ہونا ہے۔ اسکے قیام کا مقصد ایسے اہداف تک رسائی ہے، جو روایتی گوریلہ طرز جنگ میں ممکن نہیں ہوتے۔ جیسے جیسے بلوچ آزدی کی جنگ آگے بڑھتی جارہی ہے، طوالت اپنے ساتھ فطری طور پر پیچیدگیاں بھی پیدا کررہی ہے۔ لیکن ان تمام تر پیچیدگیوں میں اس تحریکِ آزادی کا بنیادی فلسفہ فراموش نہیں ہونا چاہیئے کہ دشمن فوجی طاقت کے بل بوتے پر ہم پر قابض ہے اور اسے یہاں سے صرف لڑکر طاقت کے ذریعے ہی نکلنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیئے جدوجہد کے تمام جہتوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن سب سے زیادہ ہمیں اپنی توجہ اپنی جنگی صلاحیتوں میں بہتری، جدت اور اثرانگیزی پیدا کرنے پر مرکوز کرنا ہے۔ گر ہم ایک ہی طریق پر جامد رہے، اپنی جنگ میں جدت و شدت پیدا کرنے سے قاصر رہے، تو آسانی سے کچلے جائیں گے۔ ظاہر ہے، ہمارے پاس دشمن جیسے وسائل نہیں کہ فائٹر جیٹ خرید کر لڑیں۔ ہماری سب سے بڑی قوت ہمارے جوابی تشدد کا جواز اور قربانی کا جذبہ ہے اور طریقہ کار چھاپہ مار جنگ ہے۔ اسی لیئے ہمیں گوریلہ طرز جنگ کے سب سے موثر طریقے فدائی حملوں میں اپنی صلاحیتیں بہتر کرنی ہیں اور یہی مجید بریگیڈ کا مقصد ہے۔
جب ایک نظریاتی جہدکار اس فیصلے تک پہنچ جاتا ہے کہ مجھے کب، کیسے اور کہاں قربان ہونا ہے، جب وقت و جگہ کا تعین وہ خود کرتا ہے تو وہ دشمن کے جدید ترین اسلحہ جات سے بھی زیادہ خطرناک بن جاتا ہے۔ جب قومیں اس طرز کی قربانی کا راستہ چنیں پھر اسکا جواب دنیا کے کسی قوت کے پاس نہیں ہوتا۔ تبھی ہم دیکھتے ہیں کہ خوفزدہ دشمن فدا ہونے کے اس مقدس نظریئے کے بنیادی نظریاتی اساس پر حملے کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ انکی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح اس سوچ کو بلوچوں میں مضبوطی سے رائج ہونے سے پہلے ہی نظریاتی طور پر متنازعہ بناکر ختم کردیں۔
ٹی بی پی نمائیندہ: کیا وجہ ہے کہ بلوچ قوم پرستوں میں سے ہی ایک حلقہ فدائی حملوں کو تنقید کا نشانہ بناکر یہ الزام لگارہی ہے کہ ایسے کاروائیوں سے تحریک کی بدنامی ہوتی ہے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کی تحریک کو نقصان پہنچتی ہے؟
بی ایل اے سربراہ: اس امر کی وضاحت ہم پہلے بھی کرچکے ہیں کہ موجودہ تحریک بلوچوں کی سب سے طویل مزاحمت ہے، اور ہر طرح کی طاقت و جبر کا استعمال کرنے کے باوجود، دشمن اس تحریک کو ختم نہیں کرسکا ہے، اسکی سب سے بڑی وجہ اس تحریک کی مضبوط نظریاتی بنیادیں ہیں لہٰذا اب تحریک کو ختم کرنے سے زیادہ بلوچ قومی تحریک آزادی کا رخ غیرمحسوسانہ انداز میں موڑنے کی طرف توجہ دی جارہی ہے۔ بدقسمتی سے کچھ دوست بھی اس میں دانستہ یا نا دانستہ طور پر شامل ہورہے ہیں۔
سب سے پہلے ایک بات کو سمجھنا ازحد ضروری ہے کہ استحصال، غربت اور غلامی، قبضے کا ماحصل ہیں، جبکہ جبر، نسل کشی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اس قبضے سے نجات کیلئے جاری مزاحمت کا ردعمل ہیں۔ ان دونوں کو مدغم کرکے نہیں دیکھنا چاہیئے۔ یہ جنگ بلوچ قومی آزادی کیلئے ہم نے خود شروع کی ہے، پھر اس تحریک کو دبانے کیلئے دشمن انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہا ہے۔ اگر ہم مزاحمت ترک کرکے غلامی پر سمجھوتہ کردیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی رک جائیں گی۔ دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ کچھ حلقوں کی جانب سے تحریک کو دانستہ یا نادانستہ طور پر آزادی کے بجائے، تحریک کے ردعمل کیخلاف ایک تحریک بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ سیدھی راہ کو گول دائرہ بناکر اس میں چکر کاٹتے جانے کے مترادف ہے۔ یہاں دل گرفتہ بات یہ ہے کہ اس امر کا ادراک تک نہیں رکھا جارہا کہ اپنے مطالبات اس حد تک نیچے گرائے جارہے ہیں، اس طویل جدوجہد اور قربانیوں سے اتنے کم صلے کی توقع رکھی جارہی ہے کہ بدلے میں ایک آزاد انسان ہونے کے بجائے، محض ایک انسان ہونے کے حق کی مانگ کی جاتی ہے۔
ایسے رجحانات محض کچھ بلوچ سیاسی کارکنوں یا ڈائسپورا تک محدود نہیں ہیں، بلکہ بلوچ مسلح تنظیموں کو بھی متاثر و مفلوج کرنے کی کوششیں دیکھی گئی ہیں، اور یہی وجوہات تھیں، جن کے بنا پر جنرل اسلم بلوچ کی قیادت میں 2017 میں بلوچ لبریشن آرمی کے اندر بہت بڑی تنظیمی اور آپریشنل تبدیلیاں لائی گئیں۔
مجید بریگیڈ 2011 میں اپنی پہلی کاروائی کرتی ہے، اسکے بعد نا صرف مجید بریگیڈ بلکہ مجموعی طور پر بلوچ لبریشن آرمی کی کاروائیاں سست روی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ میں یہاں موقع کو مناسب سمجھ کر اسکا پس منظر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ یہ پورا سلسلہ ایک دوسرے جڑا ہوا ہے۔ 2011 کے بعد ہم نے دو تبدیلیاں دیکھنا شروع کردیں، اول یہ کہ بی ایل اے کے انتظامی صورتحال کو دانستہ طور پر اتنا سست اور پیچیدہ کردیا گیا کہ اسکے اثرات براہ راست بی ایل اے کے جنگی صلاحیتوں پر پڑنے لگے اور دوئم بی ایل اے کے بنیادی نظریئے و بیانیئے کو بدلا جانے لگا۔ انتظامی سست روی سے تقریباً جہد کاروں کو بیکار بٹھایا جانے لگا اور پھر انتہائی غیر اہم مباحث میں الجھا دیا گیا اور دوسری طرف جو بی ایل اے کا بنیادی فلسفہ تھا کہ “بلوچ قوم ہی ہمارے قوت کا سرچشمہ ہے اور اپنے قوت بازو پر اس جنگ کو منظم کرکے آزادی حاصل کی جائیگی” اس کو بدل کر یہ پرچار شروع کردیا گیا کہ بلوچ اس جنگ کو بغیر کسی بیرونی قوت کے حمایت کے نہیں جیت سکتا، لہٰذا اب مزید شہادتیں اور قربانیاں بیوقوفی ہونگی، بس اب بیرون ممالک جاکر سیاست کی جائے اور مدد مانگی جائے۔ یعنی ہزاروں شہادتوں کے بعد یاد آتا ہے کہ مرنا ضروری نہیں بلکہ بیرون ملک بیٹھنا چاہیئے تھا، یقیناً یہ فلسفہ آرام پسند ذہنیت کو بھاتی ہے، اور اس خیال کے گرد ہمیشہ ایک حلقہ جمع بھی رہے گا لیکن یہ بلوچ کی آزادی کے تقاضوں سے کوسوں دور بیانیہ ہے۔
2016 سے ہی تنظیم کے تمام سینئر کمانڈران نے یہ تبدیلی اور ساتھ میں پیدا کیا گیا مصنوعی جمود کو محسوس کیا، اس امر پر مباحثے شروع ہوئے، اختلافات اٹھے، جنرل اسلم بلوچ نے تنظیم کی مکمل طریقہ کار پر سوال اٹھاکر، ازسرنو ادارہ بندی کا مطالبہ کردیا۔ لیکن کوشش کی گئی کہ اسلم بلوچ کو تنظیم سے ہی کنارہ کش کیا جائے۔ بی ایل اے کے تقریباً تمام کمانڈران 2017 میں ایک نقطے پر متفق ہوئے اور بی ایل اے کی تنظیم نو کی، باقاعدہ ادارے تشکیل دیئے گئے، اور انہی اداروں نے جنرل اسلم بلوچ کو باقاعدہ رسمی طور پر بی ایل اے کا سربراہ اعلیٰ مقرر کردیا اور 17 اگست 2018 کو بی ایل اے کے سینئر کمانڈ کونسل اور آپریشنل کور کمیٹی نے بیرون ملک مقیم ایک شخص کو تنظیم کے بنیادی رکنیت سے فارغ کرکے یہ اعلان کیا کہ بی ایل اے کا بیرون ملک کوئی بھی نمائیندہ موجود نہیں۔
یہ تسلسل میں نے اسلیئے پیش کیا تاکہ سمجھا سکوں کہ کس طرح تحریک کا رخ موڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ سمجھنے کیلئے کہ یہ محض لفاظی نہیں بلکہ معروضی حقیقت ہے، آپ اس فرق کو اور بعد کے تسلسل تعامل کو دیکھیں۔ 2017 کے ان تبدیلیوں کے بعد بی ایل اے کی کارکردگی میں تیزی اور جدت آجاتی ہے، ٹہراؤ ختم ہوجاتا ہے، مجید بریگیڈ کو جہاں منجمد رکھا گیا تھا، وہیں سے دوبارہ تیزی کے ساتھ متحرک ہوجاتا ہے۔ ضرور یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر بی ایل اے کو 7 سال منجمد نہیں رکھا جاتا تو آج ہم کتنا آگے ہوتے۔ اب دوسری طرف دیکھیں جن پر ہمارا الزام تھا کہ وہ بی ایل اے کو مفلوج رکھ کر ایک قومی فوج کے بجائے محض بیرون ملک مظاہروں اور سوشل میڈیا تک محدود کرنا چاہتے ہیں، وہ آج کیا کررہے ہیں؟ وہ آج بیرون ممالک چند ایک مظاہروں اور سوشل میڈیا پر غیرضروری مباحث تک محدود رہ چکے ہیں۔
آج مخالفین ہم پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہم تحریک کو شدت پسندی کی جانب لیجارہے ہیں، ہم فدائی حملوں کی جانب تحریک کا رخ موڑ رہے ہیں۔ ہم سے یہ تقاضہ ہوتا ہے کہ ہم ان الزامات کا جواب دیں۔ دراصل ہم جواب دینا ضروری نہیں سمجھتے، کیونکہ ہم ان الزامات کو بسروچشم قبول کرتے ہیں۔ وہ وہی باتیں کررہے ہیں، جو ہم ہمیشہ سے کررہے تھے۔ بالکل ہم جنگ پر زیادہ توجہ دینا چاہتے ہیں، بالکل ہم بلوچ کی آزادی کی جنگ میں شدت پیدا کرنا چاہتے ہیں، بالکل ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ کے انسانی، شہری و سیاسی حقوق اسکے آزادی سے نتھی ہیں اور یہ آزادی ہم ایک مضبوط جنگ کے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں، بالکل ہم سمجھتے ہیں کہ مجید بریگیڈ کے فدائی حملوں سے ہم دشمن کا کمر توڑدیں گے۔ ہمارے مخالفین ہمارے نظریئے کی ترجمانی کررہے ہیں۔ اس موضوع پر ہماری جتنی مخالفت کی جائے ہمیں خوشی ہے، کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچ جنگ آزادی کے مخالف مختلف طریقوں، حیلے بہانوں سے مخالفت کرکے خود کو واضح کریں اور ایک لکیر کھنچ جائے۔ قوم اور خاص طور پر نوجوان یہ اچھی طرح سمجھ سکیں کہ اگر انہیں قومی آزادی کے اس مقدس جنگ کو آگے لیجانا ہے تو انکا راستہ کیا ہونا چاہیئے، تاکہ کوئی بھٹکے نہیں۔ یہ عملِ تطہیر ہے، سب واضح ہورہا ہے، لکیریں کھنچ رہی ہیں کہ کون کیا چاہتا ہے اور ہم انتہائی حق میں ہیں کہ یہ لکیریں واضح تر ہوتی جائیں۔ بی ایل اے کے ساتھی بلوچ جنگ آزادی کے پاسبان اور امین ہیں۔ ہم اس بات پر بالکل سمجھوتے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ تحریک کا رخ موڑ دیا جائے اور اسے انسانی حقوق کا ایک این جی او بنادیا جائے۔ ہم ماضی کی غلطیوں کو دوبارہ دہرانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
80 کی دہائی میں پچاس ہزار سے زائد مسلح بلوچ سرمچار جنگ کیلئے تیار بیٹھے تھے، لیکن سب کو یہ کہہ کر بٹھائے رکھا گیا کہ روس آئیگا اور ہم ٹینکوں میں بیٹھ کر بلوچستان فتح کریں گے۔ روس آنے کے بجائے واپس چلا گیا اور ہماری اتنی بڑی قوت انتظار کرتے کرتے لٹے پھٹے حالت میں واپس آگئی اور ضائع ہوگئی، کچھ دشمن کے لیویز کے سپاہی بن گئے، زیادہ تر دیہاڑی کی مزدوری ڈھونڈتے رہ گئے۔ اگر اتنی بڑی قوت پر بھروسہ کیا جاتا، انہیں جنگ کیلئے منظم کیا جاتا تو پاکستان سے ایک ایسی جنگ لڑی جاسکتی تھی کہ پنجابی کی نسلیں یاد رکھتیں۔ انہی غلط فیصلوں کا بابا مری کو ادراک تھا، اسلیئے آخری وقت تک وہ دوبارہ بیرونی قوتوں پر تکیہ کرنے کے بجائے، اس جنگ کو تیز کرنے پر زور دیتے رہے۔ آج ایک بار پھر کچھ لوگ جنگ کو ثانوی بنانے کی کوشش کررہے ہیں، جنگ کی حوصلہ شکنی کررہے ہیں، کھلے عام فدائین کی توہین کررہے ہیں تاکہ نوجوان اپنی قومی جنگ کی جانب راغب نا ہوں۔
ٹی بی پی نمائیندہ: کیا آپ بیرونی ملک امداد کے حصول کے خلاف ہیں؟
بی ایل اے سربراہ: ہم ایک قوم ہیں، ہم پر قبضہ کیا گیا ہے اور اس قبضے سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے ہم ضرور برابری کی بنیاد پر دوست اقوام سے مدد کی توقع رکھیں گے اور جنگ میں مدد مانگنا ہمارا حق ہے۔ جس طرح دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے مقبوضاجات نے اتحادی افواج سے مدد طلب و حاصل کی۔ لیکن ہم کسی سے بھی مدد اپنے قومی مفادات پر سمجھوتہ کیئے بغیر اپنے شرائط پر ہی قبول کریں گے۔ یہ بلوچ کی اپنی جنگ ہے، اگر آپ اپنی جنگ خود لڑرہے ہونگے تو کوئی مدد کرنے کا سوچ سکتا ہے، اگر آپ ایک مضبوط جنگ لڑرہے ہونگے تو کوئی آپکی مدد آپکے شرائط پر آکر کریگا، آپکو قومی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرنا پڑیگا۔ لیکن اگر آپ اپنی جنگ خود نہیں لڑیں گے اور انتظار میں ہونگے کوئی اور آپکو آزادی پلیٹ میں لاکر دے تو آپ احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔
ٹی بی پی نمائیندہ: جن حلقوں کی جانب آپکا اشارہ ہے، وہاں سے آپ کی تنظیم پر الزام لگتا آرہا ہے کہ آپ ایران کے پراکسی ہیں؟
بی ایل اے سربراہ: کیا آپکو ہنسی نہیں آتی، جب لندن میں بیٹھ کر ٹوئیٹر پر جناح کے پرانے کوٹھی کو خیرات میں مانگنے والا، وطن کے ان جانبازوں کو پراکسی کہے، جو اپنی مرضی سے سروں میں گولیاں کھاتے ہیں؟ آپ اس طنز پر غور کریں، جنہوں نے اس دلیل پر لڑنا چھوڑدیا کہ بیرونی امداد کے بغیر ہم آزادی حاصل نہیں کرسکتے، وہ انہیں پراکسی کہتے ہیں جو قومی آزادی کی عملی جنگ لڑرہے ہیں، جانیں دے رہے ہیں، فدا ہورہے ہیں۔ آپ کے اس سوال کا میں سیدھا جواب یہ کہہ کر دیتا ہوں کہ ہرگز نہیں، ایران یا کسی بھی ملک کا بی ایل اے پراکسی ہرگز نہیں۔ لیکن کیا یہ جواب قابلِ قبول ہے؟ بالکل نہیں، کیونکہ سوال ایسے لوگ اٹھارہے ہیں، جو جواب نہیں چاہتے بلکہ ابہام پیدا کرنا چاہتے ہیں، کسی بھی جواب سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ یہ ابہام کا طلاطم پیدا کرکے اپنے متنازعہ کرداروں کو اس افراتفری کے پیچھے چھپانا چاہتے ہیں۔ یہ محض بونے خیالات کے بونے لوگ ہیں، جو سمجھتے ہیں الزامات سے دوسرے کا قد گھٹا کر خود بڑا دِکھا جاسکتا ہے۔ ان آراء کو زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیئے۔
بلوچ لبریشن آرمی کی جنگ مشرق سے لیکر مغرب تک پوری بلوچ قوم اور بلوچ قوم کی تاریخی و نظریاتی سرحدوں کیلئے ہے۔ بی ایل اے ڈیورنڈلائن، گولڈ سمڈ لائن اور پاکستان کے نام نہاد صوبائی حد بندیوں کی تقسیم کو قبول نہیں کرتی۔ ہماری جدوجہد نوری نصیر خان کے بلوچستان کے سرحدوں کی آزاد حیثیت میں بحالی ہے۔ بی ایل اے ان تاریخی و نظریاتی سرحدوں پر ایک انچ کا بھی سمجھوتہ نہیں کریگا۔
ٹی بی پی نمائیندہ: ان الزامات کی بنیاد یہ بتائی جاتی ہے کہ عوامی مقامات پر ایسے حملے عالمی اصولوں کی خلاف ورزی ہے، اس سے تحریک کو عالمی سطح پر نقصان ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بی ایل اے کو دہشتگرد تنظیم قرار دیا ہے؟
بی ایل اے سربراہ: بی ایل اے نے کب عالمی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے؟ ہماری سرزمین پر قبضہ ہوا ہے اور ہم اس قبضے کے خلاف اپنی آزادی کیلئے مسلح مزاحمت کررہے ہیں اور یہ مسلح مزاحمت ہمارا قانونی، اخلاقی، فطری اور شرعی حق ہے۔ ہم اس جنگ میں کمزور فریق ہیں، ہم روایتی جنگ نہیں لڑسکتے لہٰذا ہم گوریلہ جنگ لڑرہے ہیں، چھاپہ مار حملے کرتے ہیں۔ گوریلہ جنگ عوام کے اندر رہ کر دشمن اور اسکے مفادات پر حملوں کا نام ہے۔ عوام پر حملہ کرنے اور عوام میں رہ کر حملہ کرنے میں نہایت ہی واضح فرق ہے اور یہاں بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اس واضح فرق کو مدغم کرکے بیان کیا جارہا ہے۔
بی ایل اے کے ان تمام فدائی حملوں کا جائزہ لیں، جو عوامی مقامات پر عوام کے اندر رہ کر تھے، ان میں کتنے بیگناہ شہریوں کی جانیں ضائع ہوئیں؟ ہمارے 13 فدائی شہید ہوئے لیکن انہوں نے ایک بھی بیگناہ عام شہری کو نہیں مارا۔ اگر ان 13 میں سے محض ایک جاکر مذہبی شدت پسند طرز کا خودکش حملہ کرتا تو کیا نتیجہ نکلتا؟ پوری دنیا کی تاریخ کھنگال کر نکالیں، مجید بریگیڈ سے زیادہ عوامی جانوں کا خیال رکھنے والا، کوئی بھی فدائی اسکواڈ آپکو نظر نہیں آئے گا۔ بلکہ آپ بی ایل اے کے دو دہائیوں کی کاروائیوں میں معصوم شہریوں کے نقصانات کا تناسب دنیا کے کسی بھی گوریلہ تنظیم سے لگاکر دیکھیں۔ بی ایل اے کی غلطیاں نا ہونے کے برابر ہونگیں۔
یہ باتیں کہ عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، محض من گھڑت باتیں ہیں، جن کا مقصد ابہام پھیلانا اور مجید بریگیڈ کو متنازعہ بنانے کی سعی لاحاصل ہے۔ جسکی وجہ فدائی نظریئے کے بنیادی اساس کو کمزور کرکے پنپنے سے روکنے کی کوشش ہے۔ آپ صرف تسلسل پر غور کریں کے یہ من گھڑت دلائل کیسے بدلتے رہے ہیں، آپ خود حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں۔ جب 11 اگست 2018 کو دالبندین میں چینی انجنیئروں پر فدائی حملہ کیا جاتا ہے، تو یہ حملہ عوامی مقام پر نہیں ہوتا، اور واضح طور پر ٹارگٹ بلوچ دشمن ہوتے ہیں۔ پھر اس حملے کی کیوں بے جا مخالفت کی جاتی ہے؟ اس وقت یہ من گھڑت پروپگینڈہ شروع کیا جاتا ہے کہ بی ایل اے بچوں سے خود کش حملے کروارہا ہے، کیونکہ ریحان بلوچ کی اصل عمر سے واقف نہیں ہوتے۔ جب یہ منظر عام پر آتا ہے کہ ریحان کی عمر 22 سال تھی تو کچھ اور بہانہ گھڑا جاتا ہے، اور ایک بیان دیا جاتا ہے کہ یہ فدائی حملہ جنرل اسلم بلوچ نے اپنے بیٹے سے، ذاتی نام اور نمود کیلئے کروایا۔ آپ یقین کرسکتے ہیں کہ ایک باپ اپنے جگر گوشے کو محض نام کیلئے خود کش حملہ کرواسکتا ہے؟ سب سے بڑھ کر یہ ایک فدائی نوجوان کے اعلیٰ شعور کی توہین نہیں ہے؟
اسی طرح ہر فدائی حملے کے بعد مختلف اختلافی جواز گھڑے گئے، مقصد محض اختلاف برائے اختلاف ہی رہی ہے۔ جب امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بی ایل اے کو دہشتگرد تنظیموں کے فہرست میں شامل کیا تو اس کے بعد بی ایل اے مجید بریگیڈ کی مخالفت کیلئے انہیں نیا تیار جواز مل گیا اور ان عناصر نے حقائق کو توڑ مروڑ کر عالمی اصولوں والا لفاظی اٹھا کر مخالفت شروع کردی۔
جہاں تک امریکی پابندیوں کا تعلق ہے، پاکستان گذشتہ طویل عرصے سے اس کوشش میں رہا ہے کہ بلوچ تحریک پر امریکہ میں علامتی پابندی عائد ہو لیکن انہیں اس میں کامیابی حاصل نہیں ہورہی تھی۔ امریکہ – طالبان مذاکرات کے دوران جب امریکہ کو دوبارہ پاکستان کی ضرورت پیش آئی کہ آئی ایس آئی کے کنٹرول کے طالبان کو مذاکرات کے ٹیبل پر لایا جائے تو پاکستان نے اسکے بدلے کچھ شرائط رکھے۔ ان شرائط میں سے ایک بی ایل اے پر پابندی تھی۔ بی ایل اے سب سے پرانی اور عالمی سطح پر نسبتاً زیادہ جانی پہچانی بلوچ مسلح تنظیم ہے۔ اسلیئے کسی اور تنظیم کے بجائے اس علامتی پابندی کیلئے بی ایل اے کا نام آیا۔ اس پابندی کا تعلق بی ایل اے کی کاروائیوں کی نوعیت سے نہیں بلکہ عالمی ڈپلومیسی سے ہے اور عالمی ڈپلومیسی کے بساط پر ہم کمزور کھلاڑی ہیں کیونکہ ہماری جنگ کے کمزور سطح کی وجہ سے عالمی قوت ہم سے زیادہ پاکستان میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں۔ یہ پابندی محض علامتی ہے، اس سے ہمارے آپریشنل صلاحیتوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اسی طرح ماضی میں جب برطانیہ کے ہیتھرو ایئر پورٹ سازش میں ملوث راشد رؤف کی حوالگی پر برطانیہ اور پاکستان کے مذاکرات ہوئے، تو برطانیہ نے راشد رؤف حوالگی کے بدلے بی ایل اے کو کالعدم قرار دیکر پابندیاں لگادیں۔ اس وقت بی ایل اے مجید بریگیڈ قائم بھی نہیں ہوئی تھی۔
ٹی بی پی نمائیندہ: کچھ ایسے دعوے سامنے آئے ہیں کہ ” کے ایس ای” حملہ آور بی ایل اے کے کارکن نہیں تھے، ان باتوں میں کتنی صداقت ہے؟
سربراہ بی ایل اے: ذرا ایسی دعوؤں کے پیچھے کارفرما ذہنیت پر غور کریں، بلوچ نوجوان شعور کے اس انتہاء تک پہنچ چکے ہیں کہ وہ ہنستے ہوئے، ایک دوسرے سے بغلگیر ہوکر، مقصد کی خاطر اپنی موت کا وقت و مقام چنتے ہیں، بغیر ہچکچائے خود کو قربان کردیتے ہیں اور ان ساہوکار ذہنیت کے لوگوں کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ ان نوجوانوں کا قوم کیلئے جو بہتا خون ہے، اس خون پر کس گروہ کا حق ہے؟ یہ بلوچوں کے بہادر بچے ہیں، جو کسی پارٹی کیلئے نہیں بلکہ اپنی دھرتی ماں پر قربان ہوئے ہیں اور یہ ساہوکار انکے ٹھنڈے جسموں پر پارٹی کے ٹھپے ڈھونڈ رہے ہیں۔ آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ لوگ آج کے نوجوانوں کے شعور کی سطح سے، قومی جنگ سے اور بلوچستان کے حقیقی معروضی حالات سے کتنا کٹ چکے ہیں۔
بلوچ نوجوان مختلف مزاحمتی تنظیموں کے ذریعے تحریک کا حصہ بنتے ہیں، پھر وقت کے ساتھ وہ جس تنظیم میں زیادہ ذہنی ہم آہنگی محسوس کرتے ہیں، اس پلیٹ فارم سے جدوجہد کا انتخاب کرتے ہیں۔ مذکورہ فدائین نے بھی اسی طرح بی ایل اے مجید بریگیڈ میں ذہنی ہم آہنگی پاکر اپنے مقصد کے حصول کیلئے اس پلیٹ فارم کا انتخاب کیا تھا۔
میں مزید ایک بات واضح کرنا چاہوں گا، مجید بریگیڈ نے بلوچ قومی تحریک میں جدوجہد کی ایک نئی جہت متعارف کردی، نوجوانوں کو یہ راہ دِکھایا کہ دشمن پر انتہائی اثر انگیز وار کرنے کا یہ انتخاب بھی انکے پاس موجود ہے۔ گوکہ مجید بریگیڈ بی ایل اے کا ایک عسکری ونگ ہے لیکن یہ بی ایل اے تک موقوف و محدود نہیں۔ یہ ایک قومی پلیٹ فارم ہے۔ کوئی بھی عام بلوچ، چاہے اسکا تعلق کسی بھی تنظیم سے نا ہو، یا کوئی بلوچ جہد کار جو بی ایل اے کے علاوہ کسی اور مسلح تنظیم سے اپنے خدمات سرانجام دے رہا ہو، وہ مجید بریگیڈ کا حصہ بن سکتا ہے۔ مجید بریگیڈ کے فدائی بننے کیلئے بی ایل اے کا رکن ہونا ضروری نہیں بلکہ باقی بلوچ فدائین کی طرح شعور کی انتہاء تک پہنچنے اور قربانی کے فلسفے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہم واپس لوٹ آئیں گے:
بی ایل اے سربراہ بشیرزیب بلوچ سے مجید بریگیڈ اور اسکے گرد جاری حالیہ مباحثے کے علاوہ دوسرے موضوعات پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی، لیکن ہمارے اس سفر و تحقیق کا بنیادی مقصد مجید بریگیڈ کی بنیادوں کو سمجھنا ہے، اسلیئے باقی موضوعات پر بات چیت جدا شائع کرنے کا فیصلہ کرکے اگلے دن علی الصبح ہم اپنے سفر کے اگلے پڑاؤ کی جانب روانہ ہوگئے۔
طویل مسافت کے بعد اس بار جب ہم رکے تو ہمارے “راہ بلد” بُزگر خان کو یہ نہیں بتانا پڑا کہ ہم پہنچ چکے ہیں بلکہ مانوس میدان کو دیکھ کر ہم خود ہی سمجھ گئے۔ یہ وہی تربیتی میدان تھا، جسے ہم متعدد بار بی ایل اے کے جاری کردہ ان ویڈیوز میں دیکھ چکے تھے، جن میں مجید بریگیڈ کے جنگجوؤں کو تربیت لیتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
ہمیں تربیتی میدان یا اس سے آگے جانے کی اجازت نہیں تھی، بزگر خان ہمیں قریب ہی واقع ایک ٹھکانے کی طرف لے گیا اور بتایا کہ دوران تربیت یہ مجید بریگیڈ کے جنگجوؤں کے استعمال میں رہتی ہے، اور اسٹاک ایکسچینج حملہ آوروں نے اپنے آخری سفر کا آغاز یہیں سے کیا تھا۔ انکا کچھ سامان اب بھی یہیں پڑا ہوا ہے۔ ہم تھوڑی دیر وہیں ٹہرے، وہاں زیادہ کچھ نہیں تھا، ایک کونے میں بی ایل اے مجید بریگیڈ کے روایتی یونیفارم کے چند جوڑے سلیقے سے لپٹے رکھے تھے، دوسرے کونے میں اردو اور بلوچی کی بہت سی کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ ہم نے از راہ اشتیاق ان کتابوں کے نام پڑھے، جن میں نشانیاں رکھی ہوئی تھیں۔ ان میں فرانز فینن کی کتاب افتادگان خاک، گنی بساؤ کے مارکسسٹ رہنما آملیکار کبرال کی حالاتِ زندگی اور تعلیماتِ ماوزے تنگ اوپر رکھے ہوئے تھے۔ ہم موقع کے اس طنزیہ پہلو پر متوجہ ہوئے بنا نہیں رہ سکے کہ چینی مفادات پر حملہ کرنے والے اسکی سبق چیئرمین ماوزے تنگ سے لے رہے ہیں۔
بُزگر بلوچ نے وہیں سے ایک نوٹ بک اٹھاکر ہمیں دِکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ اسٹاک ایکسچینج حملہ آور سلمان حمل کی ہے، ہم نے پہلے صفحے پر نظر دوڑائی تو ایک بلوچی شعر لکھا ہوا تھا، جس کا مطلع یوں تھا ” ہاک ءِ وشبوہ ءَ ھواریں پدا واتر کائیں – جنگ ء، ما کسہاں کاریں پدا واتر کائیں” ( مٹی کی خوشبو کا حصہ بنکر ہم واپس لوٹ آئیں گے – ایک رزمیہ قصہ بنکر ہم واپس لوٹ آئیں گے)
جنت کے محافظ:
17 مارچ 2010 کو مجید بریگیڈ کے رسمی اعلان کے بعد سے 25 دسمبر 2018 تک مجید بریگیڈ کی کمانڈر کی ذمہ داریاں اسکے خالق اسلم بلوچ کے پاس رہے۔ 2017 میں بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بننے کے بعد بھی وہ بدستور مجید بریگیڈ کے کمانڈر رہے۔ لیکن 2018 میں انکے مارے جانے کے بعد بی ایل اے کے سربراہ اسلم بلوچ کے دست راست بشیر زیب بلوچ مقرر ہوئے جبکہ مجید بریگیڈ کی کمانڈ ایک ایسے گمنام اور بااثر کردار نے سنبھالی جو 12 سالوں تک اسلم بلوچ کے ہمراہ مختلف محاذوں میں رہا تھا اور مجید بریگیڈ میں اسلم بلوچ کی لیفٹینٹ کی حیثیت سے کام کرتا رہا تھا۔
مجید بریگیڈ کے کمانڈر “کمانڈر حمل ریحان بلوچ” کو بی ایل اے کے اندر دوسرا طاقتور ترین شخص تصور کیا جاتا ہے، جو محض براہ راست بی ایل اے سربراہ کو جوابدہ ہوتا ہے۔ اس سے قبل کمانڈر حمل ریحان کسی بھی صحافی سے ملنے یا انٹرویو دینے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ مجید بریگیڈ کے کمانڈر کسی بھی میڈیا ادارے کو انٹرویو دینے پر راضی ہوئے ہیں۔
دیو ہیوکل جسامت کے مالک کمانڈر حمل ریحان جب ہم سے ملاقات کیلئے پہنچے تو انہوں نےسیاہ رنگ کے نقاب سے اپنا منہ ڈھانپا ہوا تھا۔ اسکے ہمراہ دو مسلح محافظ بھی تھے۔ ہمیں پہلے بتایا جاچکا تھا کہ کمانڈر حمل چار زبانوں بلوچی، براہوئی، اردو اور انگلش پر مکمل عبور رکھتے ہیں، اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ مختصر بات چیت کے بعد یہ طے ہوا کہ ہم انٹرویو بلوچی زبان میں کریں گے اور سوالات کا محور محض مجید بریگیڈ رہے گا۔ ہمیں محض ایک گھنٹے کا وقت دیا گیا، ہم نے وقت ضائع کیئے بغیر سوالات پوچھنا شروع کردیئے۔
ٹی بی پی نمائیندہ: مجید بریگیڈ کن عوامل کو مدنظر رکھ کر اپنے اہداف چنتی ہے؟
کمانڈر مجید بریگیڈ: کسی بھی ہدف کو چننے سے قبل اسکے سیاسی و علامتی اہمیت اور عالمی اثر انگیزی کو دیکھا جاتا ہے۔ ہر ہدف اپنے تئیں سیاسی اور عسکری، دو پہلو رکھتا ہے۔ عسکری ٹارگٹ وقتی طور پر بڑا نظر آسکتا ہے، لیکن اسکے اثرات دور رس نہیں ہوتے۔ جبکہ جس ٹارگٹ سے سیاسی فوائد حاصل ہوں، وہ ہوسکتا ہے وقتی طور پر بڑا نظر نہیں آئے لیکن اسکے اثرات انتہائی دور رس ہوتے ہیں۔ لہٰذا کسی ہدف کی علامتی اہمیت، ہمارے چناؤ کے عمل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسکے علاوہ کسی ہدف کو چنتے وقت ” کولیٹرل ڈیمیج” کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، ایسے ہدف چنے جاتے ہیں، جن میں عام شہریوں کے نقصان کا اندیشہ نا ہو یا کم سے کم ہو۔ اسکے علاوہ یہ مدنظر رکھا جاتا ہے کہ ہدف پاکستان کیلئے کتنا معاشی اہمیت رکھتا ہے۔ دشمن کے کمزور معیشت پر وار کرکے اسے زیادہ نقصان دیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ پی ایس ایکس پر ہونے والے حملے کے اثرات پاکستانی معیشت پر دیرپا ہونگے اور ہمیشہ سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ لگانے سے پہلے اس حملے کے بارے میں سوچیں گے۔
ٹی بی پی نمائیندہ: اس خطے کے دوسرے مذہبی شدت پسند تنظیموں کے خودکش حملہ آوروں اور مجید بریگیڈ کے خودکش حملہ آوروں میں کیا فرق ہے؟
کمانڈر مجید بریگیڈ: فرق وہی ہے، جو قوانین عالم میں قتل برائے قتل اور قتل برائے دفاعِ ذات ( سیلف ڈیفنس) میں ہے۔ بادی النظر دونوں عمل میں یکسانیت کی شبیہہ کے باعث ایک جیسے دِکھ سکتے ہیں لیکن انکے محرکات و مقاصد اتنے متضاد و مختلف ہوتے ہیں کہ آپ تقابل تک کیلئے انہیں ایک خانے میں نہیں ڈال سکتے۔ وہ اپنے نظریات و طریق زندگی دوسروں پر زبردستی تھونپنے کیلئے حملے کرتے ہیں اور ہم کہہ رہے ہیں ہمارے گھر میں، ہماری زمین پر، ہمیں آزادی کے ساتھ اپنی مرضی سے جینے دیا جائے۔ ہمارا تشدد جوابی و دفاعی تشدد ہے۔ بنیادی فرق ہی فلسفے کا فرق ہے۔
اسکے بعد جب آپ بلوچ فدائین پر غور کریں کہ وہ فدائی بننے کے فیصلے تک کیسے پہنچتے ہیں، تو فرق اتنا واضح ہوتا نظر آئے گا کہ آپکو بیچ میں ایک لکیر کھینچنی پڑیگی۔ مذہبی شدت پسند خود کش حملہ آور تیار کرتے ہیں، وہاں کم عمری سے اس کام کیلئے اذہان تیار کیئے جاتے ہیں، برین واشنگ ہوتی ہے۔ جبکہ مجید بریگیڈ کا اس بارے میں اصول بالکل واضح ہے کہ فدائی تیار نہیں کیئے جاتے بلکہ یہاں بلوچ نوجوان پختہ عمری میں ایک سیاسی عمل سے خود گذر کر اس فیصلے پر ازخود پہنچتے ہیں، فیصلے پر پہنچنے کہ بعد وہ مجید بریگیڈ کے رضاکار بنتے ہیں۔
ہم نے مذہبی شدت پسندوں کی وہ نرسریاں دیکھی ہیں، جہاں وہ اپنے خود کش حملہ آوروں کو تیار کرتے ہیں، ان جگہوں میں سالوں تک انکا رابطہ باہری دنیا سے کاٹ دیا جاتا ہے تاکہ وہ باہری دنیا دیکھ کر فیصلہ بدل کر بھاگ نا جائیں، وہ زیادہ تر کم عمر لڑکے ہوتے ہیں، انہیں روز یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ “کافروں” پر حملہ کریں گے، انہیں اپنے ٹارگٹ کا حملے کے وقت تک پتہ نہیں چلتا اور جب حملہ کرتے ہیں اس وقت بھی وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ کیا ٹارگٹ ہے، یہ نہیں جانتے کہ کیوں ہے۔ جبکہ مجید بریگیڈ کا یہ پہلا اصول ہے کہ فدائی فیصلہ کرنے والے کا عمر عالمی جنگی اصولوں کے مطابق 18 سال سے زائد ہو تاکہ وہ جان سکے کہ میں کیا کررہا ہوں۔ فدائی کی ذہنی حالت اور سیاسی نظریاتی پختگی کو دیکھا جاتا ہے۔ مجید بریگیڈ میں فدائین کا رابطہ باہری دنیا سے بالکل نہیں کاٹا جاتا، انہیں آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے، اسلیئے آپ نے دیکھا ہوگا کہ جرائد میں انکے مضامین چھپتے ہیں، وہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں، کچھ اپنے دوستوں و عزیز اقارب سے بدستور معمول کی طرح رابطے میں رہتے ہیں، صرف یہ پابندی ہوتی ہے کہ وہ اپنے فیصلے اور مشن کی کسی کو بھنک لگنے نا دیں۔
مجید بریگیڈ میں ہر ایک کو یہ مکمل آزادی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنا فیصلہ واپس لے سکتا ہے۔ مجید بریگیڈ کے اصولوں کے مطابق بار بار فدائین سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ اگر وہ اپنا فیصلہ واپس لینا چاہتے ہیں تو فوراً بلاجھجھک لے سکتے ہیں۔
سب سے بڑا فرق یہ کہ مجید بریگیڈ کے فدائین ہدف کے چناؤ کے عمل میں ساتھ ہوتے ہیں، ہدف چننے، منصوبہ سازی کرنے میں انکا بڑا کردار ہوتا ہے۔ انہیں پورا حق ہوتا ہے کہ وہ اگر ہدف کے سیاسی مقاصد سے متفق نہیں ہیں تو وہ ہدف بدل دیں۔ انہیں پورا علم ہوتا ہے کہ وہ کہاں حملہ کررہے ہیں اور کیوں کررہے ہیں، کامیابی کی صورت میں کیا ہوگا اور ناکامی کی صورت میں کیا ہوگا۔ وہ جانتے ہیں اور انہیں واضح طور پر آگاہ کیا جاتا ہے کہ جس وقت وہ اپنے ہدف تک محض پہنچ گئے اور پہلی گولی چلالی، انہوں نے اپنے مشن کا زیادہ اہم سیاسی مقصد حاصل کرلیا، اس سے آگے انکے مشن کا عسکری پہلو شروع ہوتا ہے، جسے اگر وہ سر کرنے میں کامیاب نہیں بھی ہوتے تو پھر بھی مشن کامیاب ہے، یعنی وہ اپنی زندگی میں ہی اپنے مشن کو کامیاب ہوتا دیکھتے ہیں اور انہیں پورا اندازہ ہوتا ہے کہ اسکا مطلب کیا ہے کیونکہ دوران تربیت وہ اپنے مشن کے سیاسی پہلوؤں کا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں۔
سب سے بنیادی اور واضح فرق فدائی حملہ کرنے سے اپنی ذات کیلئے کیا توقع رکھنا ہوتا ہے۔ مذہبی شدت پسندوں کے برعکس بلوچ فدائین کسی جنت کی لالچ میں حملہ نہیں کرتے، بلکہ جن بلوچ فدائین کو میں جانتا ہوں ان میں سے اکثر مذہب پر یقین نہیں رکھتے تھے، اور جو مذہب پر یقین رکھتے تھے وہ بھی سیکولر خیالات کے مالک تھے۔ انکا جنت انکی سرزمین بلوچستان تھا۔ یہ اپنی سرزمین کی آزادی اور اپنی آواز دنیا کے بند کانوں تک پہنچانے کیلئے موت کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ کسی جنت کے وعدے کیلئے نہیں مرتے، بلکہ یہ اپنے جنت کے محافظ ہیں۔
ٹی بی پی نمائیندہ: پاکستان کی جانب سے مجید بریگیڈ کے حملوں کے بعد دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حملہ ناکام کردیا گیا، آپکے نزدیک کامیابی و ناکامی کا پیمانہ کیا ہے؟
کمانڈر مجید بریگیڈ: ایک فدائی مشن کا آغاز اس وقت ہوجاتا ہے، جب فدائین اپنی تربیت مکمل کرکے منصوبہ سمجھ کر یہاں سے رخصت ہوتے ہیں۔ اسکے بعد ایک مشن کو ہم مختلف مراحل میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا مرحلہ کامیابی کے ساتھ اس شہر تک پہنچنا ہوتا ہے، دوسرا مرحلہ ٹارگٹ تک پہنچنا ہوتا ہے، تیسرا مرحلہ اندر گھسنا یا حملہ کرنا ہوتا ہے۔ جیسے ہی تیسرا مرحلہ کامیابی سے مکمل ہوگیا، اسکا مطلب ہم نے مشن کے سیاسی مقاصد حاصل کرلیئے، ہماری آواز دنیا تک پہنچ گئی اور یہیں سے ہم مشن کو کامیاب تصور کرتے ہیں۔ اگر تیسرے مرحلے سے پہلے فدائین پہلے یا دوسرے مرحلے میں پکڑے یا شہید کیئے جائیں تو ہم مشن کو ناکام تصور کرتے ہیں، جس کی نوبت ابھی تک مجید بریگیڈ کو پیش نہیں آئی ہے۔ تیسرے مرحلے کے بعد پھر آخری یا چوتھا مرحلہ آتا ہے، جو ہمارے عسکری پہلو کا حصہ ہوتا ہے۔ اس میں ہدف پر قبضہ کرنا یا اسے تباہ کرنا ہوتا ہے، جس کا انحصار ہدف پر ہے۔
ٹی بی پی نمائیندہ: بلوچ قوم پرستوں کے کچھ اندرونی حلقوں کی جانب سے مجید بریگیڈ کے فدائی حملوں کی مخالفت اور انہیں دہشتگردی قرار دینے کی باتیں سنائی دیتی ہیں اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
کمانڈر مجید بریگیڈ: جب رواں مزاحمت کا آغاز ہوا تو زیادہ تر خالی جگہوں پر کریکر دھماکے کیئے جاتے تھے، اس وقت بھی بلوچ قوم پرستوں کے اندر ہی ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو محض کریکر دھماکوں کو دہشتگردی و شدت پسندی کا نام دیتا۔ پھر وقت کے ساتھ یہ طبقہ غائب ہوگیا۔ قوم نے جنگ کو مکمل قبول کرکے اپنا لیا۔ بلوچ مزاحمت ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے ترقی یافتہ اور زیادہ شدید شکل اختیار کررہی ہے اور اس تسلسل کو جاری رہنا چاہیئے، تبھی کامیابی ممکن ہے۔ مجید بریگیڈ رواں بلوچ تحریک کی ترقی یافتہ شکل ہے، شدت اور جدت کو تمام لوگ فوراً قبول نہیں کرسکتے، وقت لگتا ہے، شاید کچھ لوگوں کو وقت لگے سمجھنے میں لیکن یہ سمجھ ضرور آجائے گا کہ وقت کے ساتھ بلوچ مزاحمت کا بدلنا اور آگے بڑھنا بہت ضروری ہے اور ہمیں تبدیلیوں کیلئے تیار رہنا چاہیئے، ہوسکتا ہے ہماری آنے والی نسل ایک اتنی شدید جنگ لڑے جسکا اب ہم تصور نہیں کرسکتے، پھر ضروری نہیں کہ ہم اسلیئے انکی مخالفت کریں کیونکہ ہم ان جیسا آج نہیں لڑسکے۔
بظاہر خودکو خیر خواہ ظاہر کرنے والے ایسے لوگوں کے تجزیات کا دارومدار حملوں کی صحت و معروضی حقائق کے بجائے ایسے ” پولیٹیکل کریکٹ کلچر” پر ایکسپوز ہونا ہوتا ہے، جو بلوچ مزاج، بلوچ حالات، بلوچ جنگ، بلوچ جنگ کے تقاضات سے میل نہیں کھاتی۔ اس میں کافی عمل دخل پاکستان کے مضبوط پروپگینڈہ کا بھی ہے، جس سے نا چاہتے ہوئے بھی اچھے خاصے بلوچ آزادی پسند بغض معاویہ میں آکر شکار ہوجاتے ہیں۔ یعنی پاکستان کو ہر حال میں یہ ثابت کرنا تھا کہ اسٹاک ایکسچینج حملہ ناکام ہوا، اس بات کی حد درجہ تشہیر کی گئی، انکا مقصد سرمایہ کاروں کا اعتماد جیتنا تھا۔ لیکن یہی پاکستانی بیانیہ یہی ہمارے خیرخواہ بھی دہرانا شروع کردیتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک انتہائی کامیاب حملہ ہوتا ہے۔
جہاں تک دہشتگردی کا تعلق ہے تو دنیا اسکی تشریح اپنے مفادات کے تحت استعمال کرتی آئی ہے، کمزور جب تک اپنی دفاعی جنگ جیت نہیں جاتی، تو اسکی جنگ برحق ہونے کے باوجود ہمیشہ سے ہی دہشگردی ہے۔ امریکہ کو ترکی کی ضرورت پڑی تو انہوں نے کردوں کے “پی کے کے” کو دہشتگرد قرار دے دیا۔ جب دولت اسلامیہ کیخلاف انہیں کردوں کی ضرورت پڑی تو اسی “پی کے کے” سے “وائی پی جی” کی صورت میں اتحاد کرلیا۔ لیبیا اور شام کے حکومت باغی گروہ انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے کے باوجود امریکہ کے اتحادی ہیں۔ آپ کمزور ہیں تو ایک پٹاخہ بھی پھوڑ لیں تو دہشتگرد ہیں لیکن اگر طاقت حاصل کرلیا تو سب آپ میں اپنے مفادات دیکھنا شروع کردیں گے۔ جس کی لاٹھی اسکی بھینس والی اس دنیا میں اگر ہمیں اپنی بقا کی جنگ جیتنا ہے تو ہمیں اپنی پوری توجہ ایک مضبوط قومی طاقت کے تشکیل پر مرکوز کرنا ہوگا۔ ایک بات یاد رکھیں، دو قوموں کی جنگ میں ایک قوم کا ہیرو دوسرے قوم کا دہشتگرد ہوتا ہے، جب آپکو اپنا وہ ہیرو دہشتگرد نظر آنے لگے جسے آپکا دشمن قوم بھی دہشگرد پکار رہا ہے، تو پھر آپ کو دیکھنا چاہیئے کہ آپ کہاں کھڑے ہیں۔
ٹی بی پی نمائیندہ: گذشتہ ڈھائی سالوں سے مجید بریگیڈ کے فدائی حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے، کیا وجہ ہے کہ اچانک بلوچ نوجوان اس جانب راغب ہورہے ہیں، جبکہ 2011 کے پہلے حملے کے بعد 7 سالوں تک اس جانب کوئی نوجوان راغب نہیں ہوا؟
کمانڈر مجید بریگیڈ: یہ بات درست نہیں کہ 2011 کے بعد کوئی بلوچ نوجوان مجید بریگیڈ کی جانب راغب نہیں ہوا۔ مجید بریگیڈ بدستور کام کررہا تھا اور اسکے فدائی تیار تھے لیکن کچھ مصنوعی پیدا کردہ رکاوٹوں کی بنا پر فدائی حملے روکے گئے۔ اس دوران مجید بریگیڈ کے کچھ فدائی شہید بھی ہوئے، لیکن وہ فدائی مشن کے بجائے بی ایل اے میں خدمات کے دوران شہید ہوئے۔ ان فدائین میں شہید حق نواز بادینی، شہید صدام بلوچ، شہید جانان بلوچ، شہید چیئرمین فتح اور شہید بابر مجید شامل ہیں جو جنرل اسلم بلوچ کے ہمراہ شہید ہوئے تھے۔ یہ تمام مجید بریگیڈ کے باقاعدہ فدائی تھے۔ ایک بات میں واضح کردوں کہ جب ایک بلوچ جہد کار مجید بریگیڈ سے رابطہ کرکے فدائی بننے کا محکم فیصلہ کرلیتا ہے۔ جب تک وہ اپنا فیصلہ نہیں بدلتا، وہ ایک بلوچ فدائی ہے، اگر وہ اپنے مشن سے پہلے شہید ہوتا ہے بلکہ کوئی اپنے اسی فیصلے کے ساتھ فطری موت ہی مرجاتا ہے تو وہ ایک بلوچ فدائی ہی ہے اور وہ بلوچ تاریخ و مجید بریگیڈ میں ایک فدائی کی حیثیت سے ہی زندہ رہے گا اور یاد رکھا جائیگا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 2018 سے مجید بریگیڈ کے فدائی حملوں میں تیزی آئی ہے۔ اسکی وجہ جنرل اسلم بلوچ کا بی ایل اے کا سربراہ بن کر ایک طرف رکاوٹوں کو دور کرنا تھا، دوسری طرف انکے فرزند ریحان بلوچ کا فدائی حملہ تھا، جس نے بلوچ نوجوانوں کے اعتماد میں اضافہ کردیا۔
ٹی بی پی نمائیندہ: مجید بریگیڈ کی تعداد کتنی ہے؟
کمانڈر مجید بریگیڈ: تنظیمی رازداری کی وجہ سے ناصرف مجید بریگیڈ بلکہ بی ایل اے کی تعداد ظاہر کرنے کی سخت ممانعت ہے۔ لیکن اتنا ظاہر کرسکتا ہوں کہ یہ تعداد دشمن کے اندازوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ مجید بریگیڈ محض فدائی حملہ کرنے والے جانبازوں تک محدود نہیں۔ بریگیڈ کے تین یونٹ ہیں۔
1۔ آپریشنل یونٹ، اس میں وہ فدائین ہیں جو ٹارگٹ پر جاکر فدائی حملہ کرتے ہیں۔
2۔ لاجسٹک یونٹ، اس میں بریگیڈ کے سہولت کار، رسد پہنچانے، آمدورفت کے ذمہ دار ساتھی ہیں۔
3۔ انٹیلیجنس یونٹ، یہ بریگیڈ کا انٹیلیجنس ونگ ہے۔
اختتام سفر:
ہم کمانڈر حمل ریحان سے مزید سوالات پوچھنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے اپنی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ اسے دیر ہورہی ہے، اب اسے واپس جانا ہے، اس کا مطلب ہمارے سفر کا بھی اختتام تھا، لیکن ہمیں وہ جواب، وجوہات اور فلسفے مل گئے تھے، جن کی تلاش میں ہم آئے تھے۔
بلوچ فدائی حملوں کا تصور دنیا بھر کیلئے شاید نیا ہو لیکن یہ بلوچ اجتماعی مزاحمتی شعور کا اتنا مضبوط حصہ ہیں کہ یہ ہمیشہ سے ہی متوقع تھے۔ بلوچ فدائی حملوں کی جڑیں 2 اگست 1974 کے بجائے 13 نومبر 1839 سے ملتی ہیں، جب بلوچوں کے لشکر نے انگریزوں کے جدید اسلحہ سے لیس فوج سے مقابلہ یقینی موت کو دیکھ کر کیا تھا اور تمام اس وقت کے بلوچ بادشاہ، خان محراب خان سمیت شہید ہوگئے۔ اسے بلوچوں کا سب سے بڑا فدائی حملہ کہا جائے غلط نہیں ہوگا۔ اس فدائی رجحان کی جڑیں اس سوچ سے ملتی ہیں کہ بلوچ اپنی زمین اور تاریخ سے خطے کے کسی بھی دوسرے قوم کے مقابلے زیادہ جڑی ہوئی ہیں۔ وہ ہمیشہ خود کو زمین و تاریخ کا مقروض سمجھتے ہیں اور قرض اتارنے کی یہ روش ان میں نسلی اور خودرو ہے۔ ہم نے اپنے سفر کے دوران متعدد بلوچ جنگجوؤں سے بات کی، بلوچ جنگجو خود کو سرمچار کہتے ہیں، جس کا مطلب فدائی ہی ہے۔ ایک عام بلوچ جنگجو اور مجید بریگیڈ کے ایک فدائی میں ہم نے محض اتنا سا باریک فرق دیکھا کہ ایک سرمچار بھی موت کو قبول کرکے ہر وقت اس کیلئے تیار رہتا ہے اور فدائی اسی موت کا وقت و مقام چنتے ہیں۔ معلومات پر پتہ چلا کہ گذشتہ ڈھائی سال میں مجید بریگیڈ کے خودکش حملہ آوروں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ عام جنگجو سرمچار جنگ میں مارے گئے ہیں۔ اس امر کو دیکھ کر پھر زیادہ حیرت نہیں ہوگی اگر مستقبل میں فدائی حملوں کی شدت اور تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوجائے۔
جب ہم بی ایل اے کے سربراہ بشیرزیب سے رخصت ہورہے تھے، تو ہم نے جاتے جاتے ان سے پوچھا کہ مجید لانگو اول کے فدائی حملے سے لیکر پی ایس ایکس حملے تک کے تمام فدائی حملوں کا جائزہ لیں، ان سب نے ضرور اپنے سیاسی و نظریاتی مقاصد حاصل کیئے ہونگے لیکن کیا وجہ ہے کہ بلوچوں کے فدائی حملے دوسرے شدت پسند تنظیموں کے فدائی حملوں کی طرح مکمل کامیاب نہیں ہوتے اور اپنے حتمی عسکری مقصد تک نہیں پہنچے۔ کیا اسکی وجہ بلوچ کی نفسیات ہے یا کچھ اور تو انہوں نے کہا “بلوچ فدائین بنیادی طور پر پیشہ ور قاتل نہیں بلکہ انسان دوست سیاسی کارکن ہیں، انکا بنیادی مقصد اپنے سیاسی مطالبات کو دنیا تک پہنچانا ہوتا ہے، بلوچ مارنے نہیں مرنے جاتے ہیں، لیکن اس دن سے ڈرنا چاہیئے جب بلوچ مارنے نکلیں گے۔”