مزاحمت
لونگ چے بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مزاحمت سے کسی حملہ آور یا مدمقابل طاقت سے وجود کی تحفظ، اسے قائم رکھنے اور حملہ آور یا جارِح قوت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کی کوشش کو کہا جاتا ہے۔ مزاحمت لفظ میں اتنی قوت اور توانائی پائی جاتی ہے کہ کسی بھی فسطا (فاشسٹ) یا جابرحکمران کے رونگھٹے کھڑے کردے ۔ یہی وہ لفظ ہے، یہی وہ عمل ہے، جو انسان کو محکومیت ، غلامی اور اندھیرے سے نکال کر ایک روشن مستقبل کی جانب لے جاتا ہے۔ مزاحمت اس وقت جنم لیتی ہے جب کسی معاشرے میں یا کسی قوم کے ساتھ ہونے والی نا انصافیاں اپنی حدود کو پار کرکے عروج پر جا پہنچتے ہیں۔ جہاں لوگوں کو بنیادی ضروریات ، منظم سہولیات، تعلیم وغیرہ سے محروم رکھا جاتا ہے۔ بلکہ ان سہولیات کی حقوق تلفی کی پاداش میں لوگوں کو غلامی جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ان کے قدرتی وسائل و زخائر کا ہٹ دھرمی سے لوٹ مار کی جاتی ہے ۔ آخر کار یہی محکوم طبقہ غم و غصہ کی شکل اختیار کرتی ہے جو مزاحمت کی صورت دیکھنے کو ملتی ہے ۔ دنیا میں جہاں بھی سامراج نے کسی قوم کی وسائل کے استحصال کا رجحان بنایا ہے تو کہیں نہ کہیں وہاں کے باشندے سر اٹھا کر جینے، مزاحمت کرنے کے دامن کو پکڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
سامراج جو وقتی طور پر انکی مزاحمت کو کچلنے میں کامیاب تو ہوا ہے، مگر مستقل طور پر وہ کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکا ہے، کیونکہ سامراج کا ظلم جونہی بڑھتا جاتا ہے ، مزاحمتی تحریکیں بھی سر اٹھانا شروع کرتے ہیں بالآخر سامراج اور محکوموں کی یہ لڑائی کسی نتیجے پر آپہنچتا ہے اور وہ ہے آزادی ۔ آزادی جب تک نہیں مل جاتی یہ مزاحمتی تحریکیں نہ تو خاموش رہتے ہیں اور نہ ہی رہ سکتے ہے ۔
تاہم اگر ہم Red Indians کا مثال لیں تو دنیا کے نقشے پر ایسی بھی مزاحمتی تحریکیں رہی ہیں جنہیں سامراجی قوتوں نے مستقل طور پر دفنادیا ہے۔ اور نہ ہی وہ لوگ پھر سے مزاحمت کی حالت میں رہے ہیں ۔ یہ اُن کے عوام کی کوتاہی کہیں یا ریاست کی سخت ترین اور شاطر چال، یا ان میں موجود کچھ رہبروں کی خودپرستی، کیونکہ اگر مزاحمتی رہنماوں کو خود پرستی یا عیاشی کی لت لگ جائے تو وہ انفرادیت پسند بن جاتے ہیں لہٰذا اپنے قوم کی بقا کو داؤ پر لگا لیتے ہیں۔ بالخصوص بلوچستان میں بھی یہی زہریلا پن دکھائی دیتا ہے۔ اِن کی واضح مثال نیشنل پارٹی یا بی این پی کو ہی لیں، ۔ یہ مزاحمتی تحریکیں تو نہیں ہیں ، پارٹیز ہیں اور پارلیمانی سیاست کرتے ہیں ۔ مگر سامراج کی بوٹ بالیشی اور منفی پروپگینڈہ کرنے میں کلیدی کردار کام ادا کرتے ہیں۔ ایک طرف یہ قوم پرست ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو دوسری طرف سامراج کے بشمول اپنوں کے خلاف حکمتِ عملیاں بناتے ہیں۔ عوام کے سامنے خیرخواہ اور فیاض بننے کا ڈرامہ کرتے ہیں تو دوسری طرف اپنے پالے ہوئے کرایہ کے ڈیتھ اسکوڈز سے معصوم نہتے شہریوں کو اجتمائی قبروں کا زینت بناتے ہیں ۔ قصہ اِدھر ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کے مضبوط طلباء کو بلوچ آزادی پسند تحریکوں کے خلاف بھی ورغلاتے ہے۔ یہ وہ پارٹیز ہیں جو دونوں کشتیوں میں تیرتے ہیں۔ یہ خودپرستی اور لالچ رہنماؤں سے اُن کا ضمیر چھین لیتا ہے۔
مگر دوسری جانب ایسے شخصیات بھی وجود رکھتی ہیں جنھوں نے اپنے قوم کو اور خود کو ہمیشہ کےلئے تاریخ میں امر کیا۔ آپ کیوبا کو دیکھے، ویت نام کو دیکھے۔ کاسترو ، ہوچی منہ ، کامریڈ کم ال سنگ ، منڈیلہ اور کئی شخصیات ہیں تاریخ میں جنہوں نے ہزار مصائب برداشت کئے اور اپنے قوم کو اندھرے سے نکال کر روشن مستقبل کی طرف لےگئے۔
یہ مزاحمتی تحریکں بھی انہی سے بنتی ہیں، یہ نظریات کی بنیاد پر بنتے ہیں، انکے پیش نظر ایک مقصد ہوتی ہے جسکی تکمیل ان کامقصد ہوتا ہے۔ اگر تحریک سامرج کے خلاف ہو تو انکا مقصد ایک آزاد ملک ہوتا ہے۔اگر مزاحمت ریاست اور حکومت کے خلاف ہوتو ملک میں موجود نظام اور اسکی پالسیوں کو ختم کرناہوتا ہے ۔لیکن مزاحمتی تحریک کسی مقصد، کسی ایسی ایشو پر مبنی ہو جو سماج کو ترقی کی بجاۓ مزید پسماندہ کرے تو صورتحال اور نتائج مختلف ہونگے منفی ہونگے۔
جیسا کہ ہندوستان میں خلافت تحریک دونوں مزاحمتی تحریکیں تھیں۔ مگر ان تحریکوں کے علماؤں نے یہ نہیں سوچا کہ خلافت ایک فرسودہ نظام ہوکر ختم ہو رہا ہے ان کی احیاء کی جدوجہد کرنا توانائی کو ضائع کرنے مترادف تھا۔ اسی طرح ہندوستان کو دارلحرب کہہ کر ہجرت کرنا ایک افسوسناک عمل تھا جسکا نقصان ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو اٹھانا پڑا۔ ان تحریکوں نے ان میں سیاسی شعور و آگہی پیدا کرنے کی بجاۓ انکو گمراہ کیا اسی لئے اگر مزاحمتی تحریکیں پسماندہ خیالات کے بناء پر ہوتی ہیں تو یقینا نتائج منفی ہونگے۔
علاوہ ازیں ہم طالبان کا جائزہ لیتے ہے تو ایک طرف تو غیر ملکی سامراج کے خلاف مزاحمت کررہا ہے۔ مگر دوسری طرف انکا مقصد شرعی نظام کو قائم کرنا جوکہ انکے پسماندہ ذہنوں کا پیداور ہے۔ انکی مزاحمت نہ کہ جدیدت سے بلکہ جمہوریت کے بھی خلاف ہے۔ انسانی رواداری کے بھی خلاف ہے۔ مزاحمتی تحریکیں تو ہمیشہ سے سماج سے قنوطیت اور جمود کو توڑ دیتے ہیں اور روشن مستقبل کی طرف لے جاتے ہیں۔ مزاحمتی تحریکیں جوش و جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ اسطرح عوام میں الگ سی توانائی پیدا کرتا ہے، جو انہیں جبرو استعماریت سے نجات دلاتا ہے۔ یہی مزاحمتی تحریکیں بلوچستان میں بھی کئی دہائیوں سے چلتی آرہی ہیں جوکہ موجودہ دور میں ایکٹو اور سنجیدہ ہوچکے ہیں۔
بلوچستان میں مزاحمت میر مہراب خان سے شروع ہوا تھا جوکہ آج تک تسلسل کے ساتھ چل رہی ہے۔ سامراج کے خلاف پہلی مزاحمت میر مہراب خان نے کیا تھا۔ میر مہراب خان نے 1839 میں برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کی تھی اگرچہ ان کے پاس وسائل بھی کم تھے۔
بلوچ مزاحمت میں پرنس کریم نے ایک نئی روح پھونک دی تھی، یہ اس وقت ہوا جب پرنس کریم پاکستان کے غیر قانونی الحاق اور خانءِاعظم کی شرمناک پسپائی پر پنجابی فوج کے خلاف مزاحمت کی۔ خان کے چھوٹے بھائی اور مکران کے پرنس کریم نے مسلح مزاحمت شروع کی۔ جس پر انھیں خان کی حمایت نہ مل سکی۔ پاکستانی آرمی کے مطابق 1948 کے موسم بہار میں پرنس کریم آزاد بلوچستان کے قیام کےلئے افغانستان گیا تھا اور وہاں سے پرنس کریم کو کوئی حمایت نہیں مل سکی پاکستان کے حکام کی جانب سے جوابی کاروائی کی دھمکی پر خان نے اپنے بھائی کو پسپائی پر آمادہ کیا اور یقین دلایا کہ اسکو پاکستانی فوج سے معافی دلوائی جائیگی اور اسکا پورا خیال رکھا جائیگا لیکن کچھ اطلاعات اس طرح بھی ہیں کہ ہربوئی کے مقام پر پرنس کریم اور پاکستانی حکام کے ایک سمجھوتے پر دستخط کیا، جو پرنس کے نمائندوں کے ساتھ طے ہوگیا جس میں قران پر حلف اٹھایا گیا کہ اسکی پاسداری کی جائیگی مگر پاکستانی فوج نے گھات لگا کر حملہ کیا اور مخالفت کی۔
جب پرنس کریم کو دھوکے سے قران کا حلف دے کر پہاڑوں سے نیچھے اُتروایا گیا اور معاہدے کی خلاف ورزی کی تو خان قلات یورپ، ترکی عراق، سعودی عرب، جگہ جگہ گھومتے رہے مگر اسے کسی کی بھی حمایت نہیں مل سکی، تو انہوں نے غم و غصے اور مزاحمت کے کاروان کو مزید آگے لے جانے کی شروعات کی۔ سترہ اکتوبر 1957 کو جھالاوان میں مزید فوج کشی ہوئی اور فوج مزید کاروائی کی غرض سے داخل ہوا جھالاوان کے قبائلی سردار نواب نوروز خان جو اس وقت 90 سال کے عمر کے تھے اُنھوں نے تقریباً ایک ہزار ساتھیوں کے ہمراہ مزاحمت کا آغاز کیا۔ نواب نوروز خان کے گھر پر بمباری کی گئی۔ جائداد کو بھی ضبط کر لیا گیا تاہم اس نے کاروائی ختم نہیں کی۔ پاکستانی زرائع کے مطابق اس موقع پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا نوروز خان اور اُن کے ساتھیوں کو ون یونٹ ختم کرنے کے شرط پر ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کیا گیا ان سے بھی وہی وعدہ کیا گیا کہ اُنھیں معافی دی جائیگی پرنس کی طرح ، یہاں پر بھی قران پر حلف اُٹھایا گیا اور نواب کو ساتھیوں سمیت پہاڑوں سے اُترنے پر آمادہ کیا گیا اور اسکی خلاف ورزی کی گئی۔ نواب کے بیٹوں اور ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا اور نواب کو عمر قید کی سزا سُنا دی گئی، ان کے چھ سے ساتھ ساتھیوں کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔
پھر شیر محمد مری سامنے آگئے۔ شیر محمد مری کے بعد بہت سارے نام ہیں جنہوں نے اس کاروان کو رکنے نہیں دیا ان میں خیربخش مری ، بالاچ مری، نواب اکبر بگٹی ، نے اس مزاحمت کو انجام تک پہنچایا ۔ ان تمام لیڈران کے بعد پھر جنرل اسلم نے بخوبی یہ کارنامہ سرانجام دیا جس کی وجہ سے آج اس سطح پر آکر مزید ایکٹو ہوچکا ہے ۔ آج نہ ہمارے پاس میر مہراب خان ہے ، اور نہ ہی پرنس کریم ، نواب نوروز خان ، شیر محمد مری ، بالاچ مری ، خیربخش مری ، اور جنرل اسلم، مگر اُنکے نظریات ہمارے ساتھ ہیں۔ اس مزاحمت کو اپنے انجام تک پہنچانے ہمیں بھی اِس کا دامن پکڑنا ہوگا۔ مزاحمت کی اس خشک اور پُر کٹھن راستے پر چلنا ہوگا کیونکہ آزادی ہی زندگی ہے اور مزاحمت وہ وسیلا ہے وہ راستہ ہے وہ مشن ہے جو آزادی پر ہی ختم ہوجاتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔