سورج کا شہر (سفر نامہ) | قسط 26 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

674

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
گوادر واپس جانے نہیں دیتا!

بلوچ اپنے عقیدوں میں بہت لبرل ہے۔ مگر جب پشین، قندھار، اور جھنگ، ہزارہ کے سارے ملا اکٹھے ہوجائیں اور کلاشنکوف سے مسلح ہوکر ذکریوں کی عبادت گاہوں پر حملہ کرنے تربت پہنچیں، کرفیو کی نوبت آئے، کافر، غدار کے فتوے بٹیں، تو اگلا بھی بلوچ ہے، ضد میں آکر کوئی بھی اعلان کرسکتا ہے۔ اور توبہ ہے بلوچ کی ضد سے!!۔ اسی ضد میں تو اس نے اپنا وطن بلوچستان، بیگوں کے حوالے کرکے خود کو شاہ حسین کی پناہ میں جھونک دیا تھا۔

ہمیں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ذکری فرقہ میں کون سا ایسا پیغام، سیاسی معاشی کشش، یا دنیاوی نجات کی بات تھی کہ اِس علاقے کے غلام، چرواہے، ماہی گیر، محنت کش اور نچلے طبقے کے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ پنجگور سے لے کر مند اور سیستان تک لوگ ذکری ہیں۔ اس لیے کوئی تو سماجی انصاف کی بات ہوگی اس میں۔ اس ذکری عقیدے کا سماجی پیغام ڈھونڈنا محققوں کے لیے ایک اچھا خاصا بڑا چیلنج ہے۔

یہاں کے لوگ ایک دلچسپ روایت کی پیروی کرتے ہیں، جسے مولود کہتے ہیں۔ اس تقریب میں لوگ دائرے میں بیٹھ کر گھنٹہ ڈیڑھ تک اذکار کرتے ہیں۔ یہ تقریب عموماً کسی خوشی کے موقع پر ہوتی ہے جس کے بعد میزبان حسبِ استطاعت دعوت کا انتظام کرتا ہے۔ پھر ایک عجیب مظاہرہ ہوتا ہے۔ ایک لوہے کی زنجیر ہوتی ہے، جسے آگ میں سرخ کر کے لٹکا دیا جاتا ہے۔ پھر یہ لوگ ہاتھوں پر تیل مل کر زنجیر پر اوپر سے نیچے لٹکنے کے انداز میں مضبوطی سے ہاتھ پھیرتے ہیں۔ اس طرح کرتے ہوئے ان کے ہاتھوں سے شعلے نکلتے ہیں مگر خود ان کا ہاتھ بالکل بھی نہیں جلتا۔ مولود، رات کی تقریب ہوتی ہے۔

مگر ”شے پر جا“ دن ہو یا رات، کسی بھی وقت منعقد کی جاسکتی ہے۔ اس میں زنجیری کرتب تو نہیں ہوتا لیکن لوگ وجد میں آ کر اپنے بدن میں سوئیاں چبھوتے ہیں، سینے اور پیٹ میں چھرا گھونپ لیتے ہیں۔ لیکن نہ تو انہیں درد کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی زخم کا کوئی نشان باقی رہتا ہے۔

یہاں کے لوگ خواجہ خدر (خضر) کو مانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ سمندروں کی حفاظت کرتا ہے، مگر رہتا ساحلی علاقوں میں ہے۔ چا بہار میں تو اس کے قدموں کے نشانات بھی ”دریافت“ ہوئے ہیں جو وہاں کے لوگوں کے لیے زیارت گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

بات ہو رہی تھی اُن بسوں کی جو بجائے کراچی جانے کے ذکری بھائیوں اور بہنوں کو لے کر زیارت پر تربت چلی گئی تھیں۔ ہم پھر حمید کے گیراج پہنچے۔ اور اس پہ تیسری بار گوادر سے نہ نکل سکنے کی ہزیمت افشاں کی۔ بے چارے نے سارے تھکے ہارے میزبانوں کو دوبارہ اکٹھا کیا اور ہم نے اس بار شہر کے اندر ”ساحل ہوٹل“ میں کمرہ لیا اور بلند آواز میں اعلان کیا کہ ہم اب مزید مچھلی نہیں کھائیں گے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ناشتہ مچھلی، لنچ ڈنر مچھلی، سحری افطار مچھلی، نمازی ذکری مچھلی، ملا ملئی مچھلی، اٹھتے مچھلی، بیٹھتے مچھلی …… سری لنکا کے ساحلوں میں یہی حال کھوپرے کے تیل کا ہے۔ کھانے میں، لگانے میں، پینے میں، ہوٹل میں، بس میں، ٹیکسی میں، خوب صورت لڑکی کے سر اور بدن پر………… بس آپ کو کھوپرے کی ”خوش“ یا ”بد“ بُو ملے گی۔

یہاں ہوٹل کے ریٹ 800,700 روپے دن کے ہیں۔ سہولتیں کیا دے سکیں گے کہ سہولتیں تو ہیں ہی نہیں۔ بس باہر دیواروں پر دو کشتیاں لگا دیں، ایک آدھ پرندے کی تصویر، بلوچی کے ایک دو مشہور فقرے لکھ دو………… یہ ہوا جناب ہوٹل۔ البتہ ٹی وی نہیں آتا۔ یہ ایک لحاظ سے اچھا بھی ہے کہ پی ٹی وی پہ سوائے جہالت کے کچھ ہوتا نہیں۔ (دیگر پرائیویٹ چینل اُس وقت نہیں تھے)۔ جغرافیہ میں ان کے پاس ڈوڈہ ہے، اسلام پورہ ہے، سری نگر اور اننت ناگ ہے۔ اور تاریخ میں محمد بن قاسم، اکبر بادشاہ، لیاقت علی، غرناطہ، اندلس، بہادر شاہ ظفر، محمد علی جوہر اور سر سید احمد خان ہیں جب کہ سائنس میں عبدالقدیر کے علاوہ ساری دنیا خالی ہے۔ حالاتِ حاضرہ ہمارے اپنے سربراہِ مملکت سے شروع ہوتے ہیں اور وزیر اطلاعات پر ختم، جو کسی پل یا بلڈنگ کے افتتاح کے موقع پر باجماعت دعا کرتے دکھائے جاتے ہیں۔ (”اللہ اسے کم از کم دو چار سال تک گرنے سے بچا کہ اس کا سارا پیسہ رشوت کمیشن میں گیا، اصل پروجیکٹ تو ریت بجری کا ہے“)۔ مگر سیٹلائٹ میں بھی ما سوائے بی بی سی کے کون سا چینل ڈھنگ کا ہوتا ہے۔ انڈیا تو سب سے گندے پروگرام دیتا ہے۔ بس عورتوں کا دھڑ اور سینہ ہی تڑپتا، تھرکتا اور پھڑکتا رہتا ہے، دو منٹ بعد بندہ بیزار ہو جائے۔ انسانی کلچر کو جتنا مردار، انڈین فلموں اور انڈین ٹی وی چینلوں نے کر رکھا ہے، جنوبی ایشیا میں کسی اور نے نہیں کیا۔ پاکستان لگاؤ بھی کشمیر، انڈیا لگاؤ بھی کشمیر، پاکستان لگاؤ بھی شیروانی، انڈیا لگاؤ بھی شیروانی، اِدھر بھی سرکار اُدھر بھی سرکار، اِدھر بھی ملا اُدھر بھی ملا۔ اِدھر بھی بھوک اُدھر بھی بھوک۔ اِس بھوکے کے کندھوں پہ غوری، اُس بھوکے کے کندھے پر پرتھوی، اِس بھوکے کے سر پہ بھی ایٹم بم لادا ہوا ہے، اور اُس بھوکے کے سر پر بھی۔ اِس بھوکے کو چاند ماری کے لیے بلوچستان ملا، اُس بھوکے کو راجھستان۔

اس ہوٹل کا اپنا جنریٹر رات بھر بجلی مہیا کرتا ہے۔ واپڈا کی ٹی بی زدہ، قحط کی پلی ہوئی نحیف اور قریب المرگ بجلی رات گیارہ بجے کے بعد نہیں ہوتی۔ (صرف پسنی میں تھرمل پاور پلانٹ سے 24 گھنٹہ بجلی ملتی ہے اور وہی اورماڑہ کو بھی بجلی دیتی ہے)۔ اس ہوٹل میں ٹیلی فون بھی موجود ہے۔ گوادر میں تربت کے برعکس ٹیلی فون بوتھ بہت کم ہیں۔ ڈاک کا انتظام تو پورے مکران بلکہ پورے بلوچستان میں ”مٹی دھوڑ“ ہے۔

”ساحل ہوٹل گوادر“ کا مالک ایک تربت والا ہے۔ اس میں بیرے لیہ (پنجاب) کے ہیں (جیئے بھٹو)۔ ہم نے ڈٹ کر رات کا کھانا کھایا، اس لیے کہ اس میں مچھلی شامل نہیں تھی۔ دیر تک یاروں کے ساتھ گپ شپ کرتے رہے اور رات گئے سو گئے۔

صبح سویرے رمضان زدہ ساحل ہوٹل نے بھی سحری کھانے کے بعد اپنا جنریٹر بند کر دیا۔ ہم نے موم بتی کی ملگجی روشنی میں اپنا سامان پیک کیا، اِسی ”روشنی“ میں اپنا بناؤ سنگھار کیا۔ اور دوستوں کے جھرمٹ میں ایک بار پھر گوادر ائیر پورٹ روانہ ہو گئے۔ مگر اس بار ہجوم تھا، گہما گہمی تھی، لوگ تھے۔ وہی تلاشی، وہی بورڈنگ کارڈ اور بالآخر جہاز آ گیا۔ ہم خوش، جیسے کولمبس کو ساحل نظر آ گیا ہو، جیسے دس سال بعد مردار سولائزیشن کی یہ مردار علامت دیکھنا نصیب ہوئی ہو۔ ہم اس جہاز پر بیٹھے، اور عین مشرق کی سمت بحیرہ بلوچ کے اوپر اوپر سے کراچی کی طرف روانہ ہوئے۔ ہم نے میلینیم کو الوداع کہنے کا آخری دن بلوچ ساحلی شہر گوادر (بلوچی میں ہوا کا دروازہ، نئے تصورات و خیالات کا آکسیجن) میں گزارا تھا۔ گوادر تو اپنا گھر تھا۔

مگر بے ہودہ سرمایہ داری نظام کی ریاستی کمزوریوں کی وجہ سے اپنے ہی گھر سے نکلنے کی ہمیں جتنی خوشی تھی، اتنی تو عید الاضحیٰ پر بھی نہیں ہوتی۔ خدا اُن سارے اقتدار والے لوگوں سے بیزار ہو جائے جو گوادر جیسے حسین اور شفاف ساحلی شہر سے مسافر کو بیزار کرا دیتے ہیں۔

علی بلوچ، حمید، عابد اور طارق کے خوب صورت گوادر کی یہ بیزار حالت بنانے والوں کو وقت کا فالج ضرور مارے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔