کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4011 دن مکمل ہوگئے۔ نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماء ملک نصیر شاہوانی، گلزار نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم کے خلاف پاکستانی بربریت، دہشتگردی کوئی نئی بات تو نہیں، پاکستانی خفیہ اداروں نے انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آنے والے اس ظالمانہ ہتھکنڈے کو بلوچ پرامن جدوجہد کے خلاف بڑے پیمانے پر استعمال کرنا شروع کیا۔
انہوں نے کہا کہ دو ہزار چار میں اس وقت کے وزیر داخلہ پاکستان آفتاب شیرپاو نے اپنے دور بلوچستان میں اس موقع پر کیچ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت میں کہا کہ چار ہزار سے زائد بلوچوں کی سیکورٹی اداروں کی حراست میں ہونے کا اعتراف کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ لیکن آج تک ریاست یہ نہیں بتا پایا کہ وہ بلوچ فرزند کہاں گئے، انہیں آسمان نگل گیا یا انہیں زمین کھا گئی۔
ماما قدیر نے کہا کہ یہ حقیقت بھی کھل کر واضح ہوگئی کہ انصاف عدالتی سماعت کا یہ ڈرامہ دراصل جنگی جرائم کے زمرے آنے والے اس اہم انسانی المیہ سے بین الاقوامی توجہ ہٹانے کی ریاستی کوشش کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی خفیہ اداروں اور اس ڈیتھ اسکواڈز لوگوں کو جبری لاپتہ کرکے شہید کرنے، مارو پھینکو جیسے انسانیت سوز کاروائیوں کے ذریعے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم کے خلاف اس بڑھتی ہوئی ریاستی دہشتگردی بربریت اور اس میں مزید شدت لانے کی تیاریوں کے پیش نظر بلوچ پرامن جدوجہد کرنے والوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کے خلاف بھر پور آواز اٹھائیں۔