نظریاتی مُنافقت – حکمت یار بلوچ

472

نظریاتی مُنافقت

تحریر: حکمت یار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مخالفت ، تنقید، پگڑی اُچھالنا، چار حرف بھیجنا بلوچ تحریک کا ایک مضبوط پہلو رہا ہے۔ جہاں اسکے بہتر نتائج ملے ہیں۔ وہی اسکے منفی پہلو بھی نکل آئے ہیں۔ مثبت اور منفی پہلوؤں کا اثر شخصیت کی نظریئے سے مُخلصی کی بنیاد پر ہی ابُھرے۔غوث بخش بزنجو کی سینتالیس والی تقریر میں تعریف و توصیف بھی موجود تھیں۔ تو مخالفت و تنقید کا پہلو بھی۔ مگر بزنجو کی نظریاتی پُختگی بزور شمیشر الحاق کے بعد سامنے آتے گئے۔ اسی طرح نوروز ، شیروف ، لونگ خان، فدا اور حمید بلوچ بھی اپنے نظریاتی مخلصی کے مطابق ہی زندگی سے موت کی طرف گامزن رہے۔ اور آج اسی حیثیت سے ہی وہ جانے جاتے ہیں۔ نواب مری کی سمجھ دارانہ مؤقف آج بزنجو اور عطاءاللہ کی نسبت حرف بہ حرف درست ثابت ہورہا ہے۔ اور بلوچ قومی تحریک کیلئے سنگِ میل اور سنگِ منزل۔

دو ہزار کے بعد اُبھرنے والی بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کیلئے ریاست کئی حربے آزما چُکا ہے۔ مذہب ، لسانیت، فرقہ پرستی، سرداریت کے تاش کے پتوں کو باری باری کھیل چُکا ہے۔ ان تمام بازیگروں کا وقت کے حساب سے رنگ اُڑتا گیا۔ آج بلوچوں کی غالب اکثریت ان تمام چالوں سے واقف ہے۔ جو درج بالا تحریر کی گئی ہے۔ بلوچ جو کل کے نسبت آج شعوری طور پر چیزوں کو پہچاننے کی کوشش کررہا ہے۔۔ تو دوسری طرف ریاست اپنے زرخرید دانشوروں کے ذریعے نوجوانوں کو غلط آگہی فراہم کرکے قومی جرم کا مُرتکب ہورہے ہیں۔

کسی بھی شخص کی نظریاتی مُخلصی ہی حق اور باطل کے دعوؤں کا پردہ پاش کرتا ہے۔ نظریاتی مُخلص اپنے نظریات پر کٹتے گئے، مرتے گئے، لاپتہ ہوتے رہے، چہرے مسخ ہوتے رہے۔۔ لیکن قومی مخلصی کی سوداگری اور اس سے دستبرداری قبول نہیں کی۔ چند روز قبل ہمارے ریاستی ترقی پسند دانشور عابد میر کی نام نہاد نظریاتی مُخلصی کی عمارت دھڑام سے نیچے گِرا۔ وہ بلوچ مسئلے پر بات کرنے سے دستبردار ہوگئے۔۔۔

عابد میر صاحب آپ ریاستی اشتہارات چھاپتے رہے۔ جان محمد جیسے کو دانشور کا خطاب دیتے رہے۔ قومی مسئلے کو طبقاتی رنگ دیتے رہے لیکن کب تک ؟ اب پردہ پاش ہوچُکا۔

“وہ دُن ہَوا ہوئے کہ پسینہ گُلاب تھا”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔