سیاست سوداگری رہ گئی
تحریر: اسد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سیاسی جماعتیں اور لیڈر،عوام کو منظم کرنے، عوامی مفادات کو تحفظ دینے، عوام کو اپنے حقوق، زمین کے وسائل اور ملکیت کے بارے میں شعور دینے کا کام کرتی ہیں، ضرورت کے مطابق عوامی تحریک منظم کرتیں، جلسہ، جلوس اور ریلیاں نکالتی ہیں، جن کا مقصد رائے عامہ ہموار کرنا اور عوام کو سیاسی عمل میں شریک کرکے سیاسی طاقت کے ذریعے مسائل کو حل کی جانب لے جانا ہوتا ہے۔
بلوچستان میں خصوصاً قومی سیاسی جماعتوں کا ایک بہت بڑا اثر رہا ہے، جو عوام کے مسائل اور قومی مفادات پر ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑی رہی ہیں۔ بلوچستان میں لوگوں نے قوم پرست جماعتوں پر ہمیشہ اعتماد کیا اور ان کے مقابلے میں وفاقی جماعتوں کو نظر انداز کیا، اس لیئے کوئی وفاقی جماعت اپنی سیاسی اثر پذیری کی بنا پر اقتدار اپنی جگہ پورے بلوچستان میں کوئی سیٹ تک لینے میں بامشکل کامیاب رہتی ہے۔
پچھلے دو دہائیوں سے یہاں کا سیاسی ماحول بہت الگ نظر آ رہا ہے، ایک منظم حکمت عملی کے تحت بڑی قوم پرست جماعتیں جن پر عوام اعتماد کرتے تھے ان کی اثر پذیری کم کرانے کی کارآمد کوششیں کی گئیں، جس کا یہ نتیجہ ہے کہ بلوچستان میں اقتدار ایک ایسی غیر سیاسی گروہ کے قبضے میں ہے جس کا سیاسی قبیلے سے معمولی تعلق بھی نہیں ہے۔
گوکہ بلوچستان کے سیاست میں دراڈ ڈال کر اسے غیر سیاسی بنانے کی کوششیں ڈھکی چھپی نہیں لیکن خود سیاسی جماعتوں نے بھی سیاست سے کنارہ کشی اور رضاکارانہ طور پر ایسی غیر سیاسی گروہوں فرد کے لیئے جگہ خالی کئیں، جن پر مخصوص حلقے کا دست شفقت ہے۔
حالت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں این جی او جیسی کردار کی حامل رہ گئی ہیں، انہیں عوام اور ان کے مسائل سے سروکار نہیں رہا، اکثر سیاسی جماعتوں میں قبائلی اثر پذیر شخصیات، منشیات فروش، غیر سیاسی طاقت ور افراد کا غلبہ ہے بلکہ یہی لوگ سیاسی جماعتوں پر قابض ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ یہی کوشش کرتی ہیں کہ ان کے تعلقاتِ مخصوص حلقوں کے ساتھ استوار ہوں۔ سیاسی ماحول کے خاتمے اور غیر سیاسی افراد کی وجہ سے سیاسی کارکن بد قسمتی سے مخصوص اداروں کے “سورس” بننے سے بھی گریز نہیں کرتے یا ان کے “سورس” سے قربت اور تعلقات بڑھانے سے ڈھٹائی کے ساتھ فخر تک کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ بیگانگی کے شکار سیاسی کارکنان سمجھتے ہیں کہ اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ مخصوص طاقتوں سے قربت ہی ہے۔
بلوچستان میں سیاسی بیگانگی پیدا کرنے کے بعد سیاسی کارکنوں کا اداروں کا سورس بننے کی کئی مثالیں مل سکتی ہیں۔
این جی او جیسی جماعتوں کا کردار یہ ہے کہ وہ عوام کے لیئے بولنے سے بہت محتاط ہوگئی ہیں، مبادا ان کے تعلقات مخصوص اداروں سے خراب نہ ہو جائیں، جو اقتدار دلانے کا ذریعہ ہیں۔ اس کی مثال پورے بلوچستان میں ہر جگہ مل سکتی ہے۔
رواں ہفتے تربت جو بلوچستان کی سیاست میں ہمیشہ ایک نمایاں مقام کا حامل رہا ہے، ایک بہت ہی اہم واقعے پر سیاسی خاموشی چھائی رہی جو بے حد افسوس ناک ہے اور اس سے ظاہر بھی ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں کس قدر تابع فرمان ہیں۔ اسے بدقسمتی کہیں کہ سورس کے نام پر ڈاکو، منشیات فروشوں، چور اچکوں اور معاشرے کے مسترد شدہ عناصر کو بندوق تھما کر عوام پر مسلط کردیا گیا ہے، جن کے جی میں جو آئے کر گزرتے ہیں۔ اسی ہفتے تربت کے ایک گاوں ڈنک میں ایسی عناصر نے جو سورس کے نام سے جانے جاتے ہیں، تمام حدوحدود پھلانگ کر ایک گھر میں ڈکیتی کی کوشش کی، جہاں خواتین کی مزاحمت کے دوران ان کی فائرنگ سے ایک خاتون شھید ہوا اور ان کی چار سالہ بچی سینے میں گولی لگنے سے زخمی ہوئی۔
ایک ڈاکو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا گیا جس کی نشاندھی پر ان کے باقی ساتھیوں اور اسلحہ کو بھی پولیس نے ڈھونڈ نکالا لیکن افسوس ناک حد تک کسی سیاسی جماعت نے بروقت اس واقعے کے خلاف کوئی احتجاج ریکارڈ نہیں کیا حتیٰ کہ دو دنوں تک کسی ایک جماعت نے معمول کے مطابق روایتی مذمتی بیان تک نہیں دیا جو آج کل ان کا واحد طریقہ رہ گیا ہے۔ وجہ صرف اور صرف ڈاکوؤں کا مبینہ طور پر مخصوص ادارے کا سورس ہونا تھا۔
المیہ ہے کہ جب سیاسی جماعتیں اس حد تک احتیاط کرتی ہیں کہ اپنے لوگوں کی لاشوں پر بھی گزارہ کریں۔ این جی او ماڈل جیسی سیاست کا سبب یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کارکن سیاسی نہیں رہے بلکہ سورس بننے کی زیادہ کوشش کرتی ہیں یا سورس کے سورس بننے پر اکتفا کرتی ہیں اور لیڈرشپ کو گمان ہے کہ اقتدار عوامی طاقت سے نہیں بلکہ تلوے چاٹنے اور خاموش رہ کر زیادہ تعبداری میں ہے۔ اس صورت حال میں ایسا ہی ہوگا کہ بندوق بردار گھروں میں گھسیں گے اور معصوم عورتوں کا خون ہی بہائیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔