چاغی میں پاکستان نے نیوکلیئر ٹیسٹ کرکے بلوچستان میں خاموش قتل عام کا آغاز کیا – ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن

214

ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن کی جانب جاری کردہ بیان میں بلوچ سرزمین پر ایٹمی تجربات کو بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین کیخلاف ریاستی بلوچ دشمن پالیسیوں کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ گذشتہ 70 برسوں سے مختلف انداز سے نوآبادیاتی جبر کا سلسلہ جاری ہے، یہ پہلا موقع نہیں کہ بلوچستان کو تجربہ گاہ بنایا گیا ہو بلکہ مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے بلوچستان پر ایسے حملے ہوتے رہے ہیں اور گھناونی مقاصد کے لئے بلوچستان قربانی کا بکرا بنتا رہا ہے جوہری ہتھیاروں کے ٹیسٹ کا معاملہ ہو بلوچ سرزمین کا انتخاب کیا جاتا ہے، کورونا کے مریضوں کو یہاں لاکر بسایا گیا، ریاستی قرضہ ختم کرنے کے لئے  بیرونی کمپنیوں کو سونا، کاپر، کوئلہ اور دیگر دھاتیں سستے دام دینا ہو تو بلوچ وسائل کو لوٹ کر دیا جاتا ہے کیونکہ یہاں پوچھنے اور سوال کرنے والا کوئی نہیں ہے، چین کو ملٹری بیس بنانا ہو تو بلوچستان میں جگہ فراہم کی جاتی ہے، اس کے علاوہ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے اور ہمیں خدشہ ہے کہ بیالوجیکل وار کے جتنے ٹیسٹنگ ہوتے ہیں وہ بھی بلوچستان میں کئے جاتے ہیں، اگر ایسا کوئی معاملہ ہو جس میں عوام کی زندگیوں کو خطرہ ہو تو ایسے معاملات کے لئے بلوچستان کی گردن آگے کی جاتی ہے۔

بیان میں کیا گیا کہ بلوچستان کے علاوہ پاکستان میں ایسے بہت سے ٹیسٹنگ سائیٹس تھے جو شہری آبادیوں سے بہت دور تھے وہ سائیٹس ان تجربات کے لئے موزوں تھے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے باوجود انہوں نے شہری آبادی والے علاقوں کے قریب جوہری تجربات کیوں کیے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بلوچستان کی زمین چاہیے لوگوں کی انہیں کوئی پرواہ نہیں اس لئے ایسے تجربات کے لئے بلوچستان کو موزوں سمجھتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ یہ ایک ٹیسٹ تھا ٹیسٹ سے قبل پاکستانی حکمرانوں اور سائنسدانوں کو 100 فیصد علم نہیں تھا کہ ایٹمی دھماکوں کے ٹیسٹ کے کیا نتائج مرتب ہونگے اس کے باوجود شہری آبادیوں کے قریب تجربات کئے گئے، 28 مئی 1998 کو بلوچستان کے علاقہ چاغی میں پاکستان نے نیوکلیئر ٹیسٹ کرکے بلوچستان میں خاموش قتل عام کا آغاز کیا ایٹمی دھماکوں کے بعد چاغی سمیت بلوچستان بھر میں خشک سالی اور مختلف مہلک بیماریوں نے ڈھیرا جما کر ہزاروں انسانوں کو خاموشی سے موت کے  منہ میں دھکیل دیا ہے، کینسر سمیت دیگر جان لیوا بیماریوں سے بلوچستان بھر کے لوگ خصوصا معصوم بچے اور جواں سال  شدید متاثر ہوئے ہیں، بلوچستان کے دیہی علاقوں میں جہاں آبادی انتہائی کم ہے اور ان علاقوں میں ٹرانسپورٹ بھی نہ ہونے کے برابر ہے ایسے علاقوں میں مختلف امراض کا تیزی سے پھیلنا نیوکلیئر ریڈی ایشن کے اثرات ہیں،زیرزمین ریڈی ایشن موجود ہوتا ہے جو فصلوں کے ذریعے خوراک میں منتقل ہوجاتا ہے اس وجہ سے بیماریاں نسلوں میں آگے منتقل ہوتی رہے گی،پاکستان نے گذشتہ 70 سالوں میں استحصال، لوٹ مار، قتل عام اور جبری گمشدگیوں کے علاوہ بلوچستان کو اور کچھ نہیں دیا ہے، بلوچوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے دو دستیاب قدرتی ذرائع تھے پانی اور ہوا، نیوکلیئر ریڈی ایشن نے ان ذرائع کو بھی لوگوں سے چھین لیا آب و ہوا بھی ایٹمی تابکاری کے اثرات سے  آلودگی کا شکار ہوئے جس سے چاغی سمیت دیگر علاقوں میں انسانی زندگی انتہائی متاثر ہوچکی ہیں اس کے علاوہ نباتات اور حیوانات بھی شدید متاثر ہوئے ہیں اور شدید خشک سالی سے بلوچ علاقے بنجر بن چکے ہیں،ایک تحقیق کے مطابق بلوچستان میں سالانہ بارہ ہزار افراد کینسر کا شکار ہورہے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ بلوچستان میں نیوکلیئر ریڈی ایشن کے وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی رونما ہوئی ہے، زراعت تباہ ہوگئی، قحط و بیماریوں سمیت دیگر مہلک وبائی امراض میں اضافہ ہوا اور انسان، حیوان، چرند و پرند سب متاثر ہوئے ہیں،تابکاری کے اثرات میں دن بہ دن  مزید اضافہ ہورہی ہے،  عالمی اداروں کو چاہیے کہ بلوچستان آکر تابکاری کے اثرات سے ہونے والی تباہی اور بیماریوں کا جائزہ لے کر بلوچ قوم کی زندگیوں کو بچانے کے لیے کردار ادا کریں۔