فینن کی تعلیمات اور موقع پرست
تحریر: ماہ گنج بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ روز “ فینن: قوم پرستی کے خطرات پر” کے عنوان سے ھال ھوال ویب سائیٹ پر ایک کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا، جس میں لکھاری نے فینن کی شہرہ آفاق کتاب افتادگان خاک کے ایک باب کو اپنے تحریر کا بنیادی موضوع بناکر قومی پرستی، نسل پرستی اور انتہاپسندی پر بحث کرنے کی کوشش کی تھی۔ جس میں موصوف کہتے ہیں کہ “فرانز فینن اپنے شہرہ آفاق کتاب افتادگانِ خاک میں استعمار مخالف تشدد کی حمایت کی وجہ سے قوم پرست حلقوں میں حد درجہ مقبولیت رکھتا ہے، مگر اسی کتاب میں فینن کا ایک تنقیدی پہلو بھی ہے، جس کا کبھی ذکر نہیں کیا جاتا۔ جہاں قومی شعور کے خطرات کے نام سے ایک پورا باب ہمیں قوم پرستی سے انتہا پسند قوم پرستی اور انتہا پسند قوم پرستی سے جارحانہ قوم پرستی اور بالآخر نسل پرستی تک کے مراجعت کے خطرات سے پیشگی آگاہ کرتا ہے۔ اب یہاں موصوف تنقیدی مباحثے کے نام پر بلوچ قومی تحریک کو اپنے ہدف بنائے ہوئے ہیں اور اپنے پوری تحریر میں بِلاواسطہ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ بلوچ قومی تحریک قوم پرستی سے نسل پرستی یا انتہا پسندی کی جانب گامزن ہے لیکن جس طرح موصوف فینن کو مہرہ بنا کر بلوچ تحریک کو نسل پر ستی سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں، یہ عمل بذات خود تحریری انتہا پسندی کے زمرے میں آتی ہے۔ جبکہ سیاسی اصطلاحات کے ذریعے معروضی حقائق سے جس طرح چشم پوشی اختیار کی گئی ہے، فینن کےالفاظ میں دراصل یہی قومی غلامی اور نوآبادیاتی نفسیات کی نشانیاں ہوتی ہیں۔
فینن کے مطابق ہر پسماندہ ملک کے سچے متوسط طبقے کو چاہئے کہ وہ ان راستوں سے جو تقدیر نے اس کے لئے مقرر کردیئے ہیں گریز کرنا اور اپنے آپ کو لوگوں کے ساتھ شامل کرنا اپنا فرض منصبی سمجھے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ وہ تمام علمی اور فنی سرمایہ جو اس نے استعماری یونیورسٹیوں سے اچک لیا ہے، لوگوں کے لئے وقف کردے۔ لیکن ہم بڑے افسوس کے ساتھ یہ دیکھتے ہیں کہ قومی متوسط طبقہ اکثر یہ دلیرانہ، مثبت، سودمند اور صیح راہ اختیار نہیں کرتا۔ اس کے برعکس وہ پورے روحانی سکون کے ساتھ ایک روایتی بورژوا کی مانند، ایک ایسے بورژوا کے مانند جو نہایت احمقانہ حقارت آمیز اور بدخویانہ حد تک بورژوا ہوتا نہایت غلط راہوں میں گم ہوجاتاہے۔ یہ راہیں غلط اس لئے ہوتی کہ یہ قوم دشمنی کی راہیں ہوتی ہیں۔ اگر موصوف افتادگانِ خاک کے باب قومی شعور کے خطرات کو اگر “ بلوچ قومی تحریک کو ہدف بنانے کی نیت کے بجائے تعمیریاتی انداز میں مطالعہ کرتا تو اسے خود کی شخصیت ضرور دکھائی دیتی کیونکہ فینن تو واضح کرگیا تھا کہ قوم دشمنی کسے کہتے ہیں۔
فینن کو آج کے حالات کے مطابق تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ فیصلہ سنانے کی، وہ بھی انتہائی بدنیتی کے ساتھ۔ فینن کے مطالعے سے آپ منفی رویوں، منفی کردار، اور موقع پرستوں کو بے نقاب کرسکتے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ تجزیہ کرنے کے وقت یا تجزیہ کرنے والا شخص اپنی موقع پرستی کو بالائے تاک رکھ کر قوم پرستی کو نسل پرستی سے تشبیہہ دیتا ہے اور قومی تحریک کو جذباتی گردانتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فینن کی تعلیمات کو اپنے خواہشتات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔
فینن ان جیسے راہ فراریت اختیار کرنے والوں کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ “تعلیم یافتہ طبقے میں تیاری کا نہ ہونا، ان کے اور عوام کے درمیان عملی روابط کی عدم موجودگی، ان کی کاہلی اور یہ بھی کہہ لیجئے کہ جدوجہد کے فیصلہ کن لمحات میں ان کی بزدلی، یہ تمام چیزین المناک حادثوں کو جنم دیتی ہیں”۔ میں سمجتاہوں کہ بلوچ قومی تحریک می بزدل اور موقع پرست لوگوں کا دن پہ دن واضح ہونا تحریک کے کیلئے نیک شگون ہے ۔
فینن قومی جماعتوں کے پروگرام پر کہتا ہے کہ قومی جماعت اقتصادیت کے پروگرام سے لاعمل ہوتے ہیں۔ اگر اس کو کوئی لاکر بلوچ قومی تحریک، یا آزادی پسند پارٹیوں پر تھونپتا ہے تو یہ اس کی لاعملی کی سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ بلوچ قومی تحریک میں ہزاروں کمزوریاں ہوسکتی ہیں، کمزوریوں سے کسی کو انکار نہیں۔ اگر پروگرام پر بات ہو تو موصوف نے تو یہ خود واضح کرلیا تھا کہ بغیر پروگرام تحریکیں تین مہینے سے زیادہ نہیں چل پاتی ہیں اور اگر ہم بلوچ تحریک کی 70سال کو نہ بھی لیں تو آج کی جاری تحریک کو 20سال سے زیادہ ہوچکا ہے۔
فینن کی کتاب میں اس باب کا صحیح مطالعہ کیا جائے تو بہت سی چیزیں واضح ہوجائیں گی۔ فینن قومی رویوں کے بارے میں کہتا ہے کہ بڑی آسانی کے ساتھ نسل کو قوم پر اور قبائل کو ریاست پر ترجیح دی جاتی ہیں۔ اگر ہم ان رویوں کو باریک بینی سے دیکھیں، ان کو قوم کے ساتھ ساتھ فردی رویے اور نفسیات سے جوڑنے کی کوشش کریں تو ہمارے سامنے یہ بات واضح طور پر عیاں ہوجاتی ہے کہ بلوچ تحریک سے منحرف اور موقع پرستوں کے نزدیک قوم سے بالا ان کی نسل و شخصیت ہے۔
بلوچ قومی تحریک میں برسر پیکار سیاسی کارکنان مکالمہ پر یقین رکھتے ہیں کہ مکالمہ کیا جائے، کہا جائے اور سنا جائے لیکن یہاں مکالمہ ممکن نہیں ہوسکتا کیونکہ آپ فینن کے تعلیم کو آپ اپنے خواہشات کے حساب سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اگے چل کر آپ خود فینن کے کہے ہوئے سے منحرف ہوجاتے ہیں۔ فینن کہتا ہے کہ استعمار کی شکست ہمیشہ متشدانہ عمل ہوتا ہے، آپ کو یہاں فینن کی کہے ہوئے الفاظ نظر نہیں آتے۔ فینن کے مطابق یہ پہلا قدم ہوگا لیکن آپ پہلا قدم اٹھا نہیں سکتے تو دوسرے قدم پر کیسے بات کرسکتے ہو۔
مکالمہ ضروری ہے لیکن مکالمہ جب ممکن ہوسکتاہے کہ آپ فینن، مارکس،لینن کے تعلیمات پر بحث کرے ان کے عملی کام پر بحث کریں لیکن آپ کے خواہشات اور مرضی سے مکالمہ نہیں ہوتا۔ نہ ہی اسے مکالمہ کہتے ہیں، اسے راہ فراریت اور موقع پرستی کہتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔