جناب! کچھ مختلف لکھیئے بہت ہوگیا
تحریر: احمد علی کورار
دی بلوچستان پوسٹ
وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اخبارات میں ادارتی صفحات اس کی جان ہوتے ہیں، لیکن اگر وہاں مختلف خیالات ونظریات کے بجائے ایک ہی موضوع کو مختلف عنوان دے کر شائع کیا گیا ہو تو پڑھنے کا مزہ ہی ماند پڑ جاتا ہے۔ گذشتہ دنوں ایسی ہی ایک اخبار میری نظر سےگذری، کسی بھی اخبار کا ادارتی صفحہ پڑھنا میں فرض عین سمجھتا ہوں۔ شائع شدہ کالمز پہ نظر پڑی مختلف عنوان، موضوع سب کا ایک۔ اب کوئی کیوں اپنا وقت برباد کرے گا ایسے مضامین پڑھ کر اور اخبار کے مدیر نے بھی بڑے کروفر سے ان کالمز کو چھاپ دیا۔ کیا ہمارے پاس سیاسی باتیں لکھنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ یہ حال صرف اس اخبار کا نہیں جو میرے ہاتھ لگی تھی ماسوائے چند کے سب کا یہی حال ہے۔
آج کے دور میں ان سیاسی خبروں سے بچہ بچہ باخبر ہے، اب کسی کو کیا پڑی ہے کہ آپ کا ضخیم کالم پڑھے۔ اپنا موضوع بدلیے تاکہ قارئین کو کچھ اور پڑھنے کو ملے۔ یہ سیاسی خبریں پڑھ پڑھ کے ہمارے ذہن کرونا زدہ ہو گئے ہیں۔
جب سے کرونا سے واسطہ پڑا ہے سب اخبارات میں اس کم بخت نے جگہ لے لی ہے، ہر ایک بڑی شان سے اس کی برائیاں بیان کر رہا ہے، کوئی تو اس کے فائدے بھی گردانتا ہے۔ اب ہماری توجہ کا محورو مرکز یہی ہے۔ اس پر اتنا لکھا گیا لیکن پھر بھی لکھا جا رہا ہے کیونکہ ہم نے لکھنے کا ٹرینڈ بنایا ہوا ہے، سب لکھ رہے ہیں، ایک ہی اخبار میں کرونا پہ چھپے اتنے سارے کالمز اخبار کو بھی کرونا زدہ بنا دیتے ہیں۔ ہر کوئی اسے چھونے سے بھی پرہیز کرتا ہے۔
کل ایک دوست نے اپنی تحریر مجھے میل کی کہ فلاں اخبار میں اسے جگہ نہیں دی گئی، جب میں نے اسے پڑھا کمال تحریر تھی اخلاقیات کے موضوع پر لکھی گئی تھی میں نے اسے مشورہ دیا کہ آپ کرونا پہ لکھئے کچھ سیاستدانوں کی تعریف کے پل باندھتے اور کچھ پر جملے کستے ایسی تحاریر جھٹ سے شائع ہو جاتی ہیں، باقی آپ اپنی اتنی اچھی تحریر فیس بک کی نظر کیجیے میاں وہاں دال نہیں گلے گی کیونکہ سیاست سے پاک تحریریں غیر موزوں ہوتی ہیں۔
یقین مانئے ماسوائے چند کالم نویسوں کے باقی تمام کا موضوع ایک ہوتا ہے، گویا ایسے لگتا ہے کہ کالم نویسوں نے فقرے ایک دوسرے سے ادھار لیے ہوں کبھی اس کے حصے میں تو کبھی اس کے حصے میں۔
مسئلہ یہ ہےکہ ہم ہمیشہ تیار شدہ چیز کی تاک میں ہوتے ہیں جب مل جاتی ہے تو ہاتھ صاف کر لیتے ہیں کہنے کا مقصد یہ ہے ہم غوروخوض نہیں کرتے پھر اتنے سارے موضوعات میں سے سب کا موضوع ایک ہونا مطلب سب کی نظر اس پکی پکائی دیگ پر ہے جس کو تیار کرنے میں کھانوں والوں نے تکلیف نہیں کی اور بے تکلف ہو کر دیگ صاف کر لی۔
پھر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاسی معاملات کو موضوع بحث نہیں بنایا جائے؟ بنایا جائے اس سے مفر ممکن نہیں لیکن ایسا تو نہیں ہونا چاہیے نا کہ ایڈیٹورئیلز سے لے کر تمام کالمز سیاسی موضوعات سے بھرے پڑے ہوں اور بحث ایک ہی محور میں گردش کر رہی تو اخلاقیات پہ کون بات کر ےگا ادب کو کون زیر بحث لائے گا فلسفے پر کون خامہ فرسائی کرے گا۔ سائنس اور سماجیات پر کون رقمطراز ہو گا۔
کرونا اور سیاسی معاملات اور محاذ آرائی کے علاوہ اور جہاں بھی ہے کچھ مختلف لکھیے بہت ہو گیا۔۔۔۔۔۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔