درس گاہوں سے محاذ تک کا سفر – کوہ دل بلوچ

542

درس گاہوں سے محاذ تک کا سفر

تحریر: کوہ دل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جہاں شعور کا چراغ جب روشن ہوجائے تو وہیں پر باغیانہ سوچ، فکر اور نئی ذہنی تخلیقات جنم لینا شروع کر دیتے ہیں، اور عین اسی وقت منجمد، رجعت پسند، فرسودہ اور دقیانوسی رسم و روایات کے پیروکار اسی روشنی کو اپنے لئے خطرہ محسوس کرکے یہی چیخیں مارتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہ تو بے ادبی ہے، سرکشی ہے اور تمیز سے عاری عمل ہے حالانکہ شعوری فروزاں کبھی بھی کسی مثبت سوچ و نظریے کے خلاف نہیں ہوتے ہیں، شعور، علم، زانت اور دانشمندی کے پیکر جب بغاوت پر اُتر آتے ہیں تو اُسے ہر الزام ہر تہمت اچھا لگنے لگتا ہے اور اُسے اپنی کردار و سینگار میں توازن کا موقع مہیا ہوجاتا ہے اُس میں غیر اور اپنوں کی پہچان کا ہنر بھانپ لینے کا ہنر آجاتا ہے، ہر بُرے اور اچھے کی تمیز اُس میں جنم لیتی ہے، وہ ایک نایاب شخصیت کا مالک بن جاتا ہے.

جب شعوری فکر و نظریے دماغ کے خُلیوں میں موجود ہو تو ظلم و زیادتی، وحشت و دہشت، دھونس و دھمکی، کرب و ازیت اور قتل و غارت اجتماعی طور پر سر پر منڈلاتا پھرتا ہو، اُس وقت ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ بغاوت ہی ہمارے بقاء کا ضامن ہے اور مزاحمت ہی زندگی ہے، انسانی فطرت کا تقاضا ہے جب شعوری طور پر وہ بیدار ہوجائے تو اُسے حساس ادوار سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ کبھی کسی کے قتل پر آمادہ نہیں ہوتا اُسے ہر جگہ انسانی قتل پر مذمت کرنا پڑتا ہے اور پھر ایک ایسا وقت آجاتا ہے کہ اُسے شعور مزید بیدار کرتا ہے، صحیح سمت مزاحمت کے عمل پر لا کھڑا کر دیتا ہے اور پھر حاکم و محکوم کے درمیان ایک لکیر کھنچ جاتی ہے، حق و سچ پر گامزن کاروانیں مضبوط ہونے لگتی ہیں اور پھر ہر ذی شعور انسان خود کو جوکھم میں ڈال کر اس کاروان میں شامل ہوجاتا ہے.

گذشتہ سات دہائیوں سے بلوچ راج پر ریاستی جبر، ظلم و زیادتی اور قتل و غارت کی قیامت مسلسل ڈھائے جا رہے ہیں، تو دوسری جانب وطن کے بہادر فرزند دھرتی کے حق ادا کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار نظر آتے ہیں، سرزمین بلوچستان نے کئی بُلند و بالا کرداروں کی تاریخ اپنے سینے میں رقم کردیا ہے اور ایسے بھی کرداروں کو شامل کردیا ہے جو اُس کے سودا بازی میں ہر وقت پیش پیش رہے ہیں، ان میں پارلیمنٹرین و ریاستی درباری ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے براہِ راست شامل ہیں، جو روز بروز دھرتی ماں اور أس کے بہادر سپوتوں کے سر پر سودا بازی کرتے نظر آتے ہیں.

بلوچ نوجوان اور بلوچ نام نہاد پارلیمنٹرین قوم پرست اسلام آباد کی طرف رُخ کرتے ہیں کیونکہ بلوچ نوجوان بلوچستان میں معیاری تعلیم کے فقدان کی وجہ سے اسلام آباد، پنجاب اور دیگر صوبوں کے تعلیمی اداروں میں علم کی پیاس بجھانے جاتے ہیں جبکہ بلوچ پارلیمنٹرین اسلام آباد پہنچتے ہی اپنا خدا بھی بدل دیتا ہے۔ قوم و راج کی بزگی و مفلسی اُس کے ایک رات کی رنگین پروگرام میں دل و دماغ سے دھواں بن کر اُڑ جاتا ہے اور اُسے گمان تک نہیں ہوتا کہ ایک بدنصیب قوم کس حال میں ہوگا، ویسے بھی وہ قوم کی گمان کیوں کرے وہ تو ایک سوداگر کے سوا کچھ نہیں، یہاں بس یہ فرق ہے کہ لیڈری کے دعویدار اسلام آباد و مری کی ہوا کھاکر بلوچی غیرت کو بلہی چڑھا کر واپس ہو لیتا ہے یا پھر واپس بالکل نہیں آتا جبکہ بلوچ نوجوان روز غیر علاقوں کے تعلیمی اداروں میں ہر طرح کے مسئلوں کا سامنا کرتے کرتے ایک دن بلوچستان کے پہاڑوں میں گوریلا جنگجو شاہ داد بلوچ، احسان بلوچ اور نورا پیرک کی شکل میں مل جاتا ہے.

یہ وہی بلوچ فرزند شاہ داد بلوچ تھا جو گذشتہ روز پاکستانی آرمی کے ساتھ بہادری سے لڑکر مادر وطن پر جان قربان کرگیا، یہ وہی نوجوان ہے جس نے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں کئی بار ریاستی مذہبی شدت پسندوں کا سامنا کرتے نظر آتا رہا، سر پر چوٹ کھائے زخمی ہوا اور احتجاجوں میں حق کی آواز میں دوستوں کے ساتھ دکھائی دیتا تھا، آخر کار اُس کے پُختہ فکر و نظریے نے اُسے امیر کے سنگر شور پارود پہنچا دیا، حق نواز کے لہو کی مہک نے اُس کے ساتھ احسان بلوچ کو بھی کھینچ لایا مگر وہ نہ مری کی وادی میں کھو گئے نہ اسلام آباد کے آب و ہوا نے اُن پر اثر ڈالا، نہ زندگی کے دوسرے آسائشیں اُن پر حاوی ہوئے، بیشک ہر بلوچ نوجوان تعلیمی اداروں سے، سیاسی سرکلوں سے اور دشمن کے زندانوں کی اذیتیں سہہ کر نکلنے پر نورا پیرک کی شکل میں شہید حمید بن جاتا ہے اور ہارنے پر ڈاکٹر مالک، ایوب جتک اور کہور خان بن کر سامنے آجاتا ہے.

بلوچ طلباء و طالبات پر کبھی بھی کہیں بھی تعلیمی راستے تنگ ہوتے ہیں تو احسان و شاہ داد وہاں پر موجود نظر آتے ہیں جمہوری انداز میں اپنے بلوچ بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ ہر احتجاج و ریلی میں دکھائی دیتے ہیں، مگر جس ریاست میں تشدد کی زبان بولی جائے وہاں امن کے نعرے ایک حریت پسند کو حماقت محسوس ہوتا ہے، اسی طرح پلے کارڈ بہنوں کے ہاتھ تھما کر احسان اور شاہ داد پارود کے دامن میں پہنچ جاتے ہیں ، امیر کہا کرتا تھا ” ہچ اس سلتو بیدس جنگ آن” بلوچ نوجوانوں نے شہید غلام محمد بلوچ کے اُس نعرے کو اور فضا میں بُلند و بالا کردیا کہ ” دہشت گردی کے سرغنہ پاکستان تم نے ہم پر جنگ مسلط نہیں کیا ہے بلکہ ہم نے جنگ کا اعلان کردیا ہے” بلوچ نوجوانوں نے اب بالاچ و خیر بخش مری کے خوداری اپنائے ہوئے ہیں اُستاد اسلم کے سوچ و فکر سے لیس ہر نوجوان اب محاذ پر نظر آئے گا، تعلیمی اداروں سے جنگی میدان تک کا یہ سفر اب نہیں رکے گا مسلسل جاری رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔