سورج کا شہر (سفر نامہ) | قسط 9 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

226

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
بلوچ ساحل و سمندر (حصہ دوئم)

پاگاس(شارک)
ہم خشکی کے رہنے والوں کے لیے جب بھی شارک اور وہیل مچھلی کا نام آتا ہے تو ہم ٹی وی پہ دیکھے اور کتابوں میں پڑھے ہوئے دیو ہیکل اور آدم خور سمندری بلاؤں کا سوچتے ہیں۔ مگر بلوچ سمندر میں اس بڑی مہلک شارک کا سمال سائز پایا جاتا ہے جو محض دس بیس سیر کا ہوتا ہے۔ اسے ہمارے محنت کے ولی پکڑتے ہیں، صاف کرتے ہیں اور تازہ یا پھر خشک کرکے سری لنکا برآمد کرتے ہیں۔ یہاں کی چھوٹی شارکوں کے نام ہیں: بمپل، سورازپی، بگوئی، سیاہ گوش، کالی زید، جبروٹی، بار کالی، گورک، کانٹو، جو مبو، گسو، چتی، وغیرہ وغیرہ۔

بڑے پاگاس تین قسم کے ہیں:
-1عام پاگاس: کینتر شد، نرمنگر، نرمانی، وروک، آم، موزی، لون، گورین،
دندنی، دمبئی، کپ، جگری آم، کاناتی، ڈوکان، کندیل، وغیرہ۔
-2 کانٹی پاگاس: بتر، ہلوندی، کاتیال وغیرہ۔
-3 ارک دار پاگاس: بزداری، کیل، شمشیری، سدو، وغیرہ۔

کھانے کی مچھلیاں
کھانے کی بڑی مچھلی کی قسمیں یہ ہیں:
گور، گثران، سنگلور، کِرّ، سولی، سارم، سونام، گیدر، کڑہ، تولگ، گور، اہور، گورچک، کلگن، گزی گواز، الس، کشگی، کندو،وغیرہ۔

کھانے کی درمیانی مچھلیوں کے نام یہ ہیں:
سہرو، گدیر، سفیت، تگلم، سیاہیں تگلم، گوانز، مشکو، سولی چک، سیا ہو، نا مبو، چیلانکر، بڈی،
پنڈاسی، پشنت، تاکاں، بولا، جاراڑ، پتر، ککاون، سہردپ، سہر پیگ، چیل، دولنٹ، کلانچو، چانچو، کنلو، چاہ، ٹنٹیل، الولو، آدہے کلاہ، کلونٹو، ماہ پری، ٹانٹار، ٹونٹ، لونڈ، چناور،وغیرہ۔

کھانے کی چھوٹی مچھلی کی قسمیں:
لوجر(sardines)، مربہ، پلو، مینگ، تاگاں، گواریز، مرو، سواسک، ککڑ، بوتی، بڈ نی، اشور، پالیڈی، دنگولی وغیرہ۔
مچھلی کی کچھ اور قسمیں یہ ہیں:
سکیٹ، رے، ٹونا، سائمن، ٹراؤٹ، باس، کراکر، پرچ، ہیرنگ، سارڈین، کارنج، گولاٹ، راکو اور پٹن وغیرہ۔(پٹن کی اپنی مزید قسمیں ہیں مثلاً دولنٹ، ہتھوڑا، ابرہ، بہرن، لیڈ، وغیرہ۔
(لگتا ہے بلوچی سیکھنے گوادر جانا ہوگا!!)

مدگ
آپ اس وقت بلوچستان پڑھ رہے ہیں اور اس حوالے سے یہ بات ضرور نوٹ کرلیں کہ جب بھی آپ دنیا میں کہیں بھی کسی بڑے ہوٹل میں کھانا کھارہے ہوں تو جب مینو پہPrawns لکھا پائیں تو سمجھ لیں کہ یہ آپ کے لیے کسی بلوچ محنت کش نے پکڑے تھے ………… ایرانی بلوچستان سے لے کر پاکستانی بلوچستان میں اسے ”مدگ“ کہتے ہیں۔

یہ ہماری عام جانی پہچانی مچھلیوں سے جدا ہیں۔ ان کے جسم اور ٹانگوں پر خاص قسم کی جلد ہوتی ہے۔ ان میں نہ ہڈی ہوتی ہے نہ کانٹے۔ سارا جسم گوشت ہی گوشت ہے اور یہ گوشت پروٹین سے بھرا ہوتا ہے۔ اسی لیے بیرونی ممالک خصوصاً جاپان اور امریکہ میں اس کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ ”مدگ“ پسنی، گوادر اور کلمت میں بہت ہوتی ہے۔

مدگ کی کئی اقسام ہیں:
جیارو، پٹاپٹی، کڈی مات، ٹائیگر، شرمپ، لسو، کلری اور کڈی۔ شرمپ پاکستان میں اہمیت کے لحاظ سے سر فہرست ہے۔ یہ عموماً کم گہرے پانیوں (30-20 میٹر) میں ہوتی ہے۔ ہمارا سمندر تو سمجھیں شرمپ سے بھرا ہوا ہے۔

ہم جو کنڈی اور ڈور کی مدد سے اپنے ماوند کے پاس بہتے دریا ”چاکر کور“ میں مچھلیاں پکڑتے رہے ہیں، اس نئی دنیا کی دریافت کے کولمبس بن گئے۔ گو کہ بوڑھے اور ناتواں لوگ یہاں سمندر کے کنارے بھی ڈور اور کنڈی والی ماہی گیری کرتے ہیں، جسے یہ لوگ ”چیروان“ کہتے ہیں۔ مگر یہ تو بس نانِ شبینہ کے حصول والا شکار ہے (ناتواں کے طویل سجدوں کی مانند)۔ اصلِ صنعت کے علم کے لیے آیئے میرے ساتھ۔

کشتی سازی کی صنعت
بخشی ہوٹل سے نکل کر شہر کی طرف جائیں تو ساحل پر ایک ”اوپن ایر فیکٹری“ نظر آئے گی، جہاں ماہی گیری کی کشتیاں بنتی اور مرمت ہوتی ہیں………… یکدار بھی، لانچ بھی اور ”ہوڑو“ بھی۔ ہمارا خیال تھا کہ ماہی گیری کی ہر کشتی کو بلوچی میں یکدار ”یا“ ”بوجیگ“ کہتے ہوں گے۔ مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ ادھر بوجیگ کا مطلب الگ ہے، یکدار کا الگ، ماہی کش باتیل، ہوڑی اور باتیل سے الگ معنی رکھتے ہیں۔ کشتی سازی کی اصلی لکڑی (دیار وغیرہ) بیرونِ ملک سے بھی آتی ہے اور کراچی سے بھی۔ مگر بلوچستان کے ساحل کے اپنے کیکر سے بھی یہاں کشتیاں بنتی ہیں۔

یہاں جا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کوئی کشتی ابھی محض ڈھانچے کے مرحلے میں ہے، کہیں آپ کو نئی زیر تعمیر لانچ کی تختیاں نظر آئیں گی، کہیں بڑھئی کا کام تکمیل تک نظر آرہا ہے اور کہیں کوئی مکمل کردہ لانچ رنگ و روغن کے آخری مراحل میں نظر آئے گی۔

ٹھکاٹھک، دھپا دھپ………… محنت کش کی مقدس محنت کا صوتی اظہار۔ سیٹیاں، گپ شپ، غل غپاڑہ۔ کوئی گاتے ہوئے کام کر رہا ہے، کسی نے اونچی آواز میں ٹیپ ریکارڈر آن کر رکھا ہے۔ کوئی کھانس رہا ہے۔ کوئی اپنے چھوٹو کو ڈانٹ پلا رہا ہے…… زندگی بہر رنگ زندہ ہے یہاں۔ ان محنت کشوں کے ساتھ مل کر انسان تصنع، ملاوٹ اور بناوٹ کی منحوس دنیا سے باہر آجاتا ہے۔ اور بے تکلفی، دوستی اور بھائی چارے کی مقدس حکمرانی میں داخل ہو جاتا ہے۔ پان، چائے اور بوتل کی پیشکش اس بلوچ محنت کش کی گویا شناخت ہے۔ ان کے ساتھ گپ شپ میں بہت لطف آتا ہے۔ کیمرے کے سامنے تو یوں تن کر، پوز بنا کر کھڑا ہوتا ہے جیسے پانی پت کی جنگ میں دشمن کی تلوار کے سامنے تیار کھڑا ہو۔ اتنے غیر مصنوعی، اتنے فطری لوگ…… فوٹو کھچوانے کے بعد ہی اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ پانچہ چڑھائی شلوار کو سیدھا کرنا تو بھول گیا تھا!!۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔