سورج کا شہر (سفر نامہ) | قسط 8 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

292

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
بلوچ ساحل و سمندر (حصہ اول)

صبح سویرے اٹھے اور PIAکے دفتر میں کراچی کی پرواز کے لیے نشستیں ”پکی“ کرنے کی اقبال بلوچ کی ڈھیر ساری یقین دہانیاں وصول کرنے کے بعد ہم ماہی گیری کی صنعت کے بارے میں اپنا علم بڑھانے روانہ ہو ئے۔ (پاکستان اور نشست کی پکّائی! جہاں سیٹ پکا کرنے کے لیے مسلم لیگی، پھر کنونشن لیگی، پھر پگاڑا لیگی، قاسم لیگی، چھٹہ لیگی، ن لیگی اور پھر ق لیگی بننا پڑتا ہے۔ اور اُس وقت تک سیٹ پکی ہو جانے میں اپنی شخصیت کچی ہو کر رہ جاتی ہے)۔

بلوچستان کا ساحل 750 کلو میٹر طویل ہے۔ یوں پاکستان کے کل ساحل کا 80 فیصد حصہ بلوچستان میں ہے۔ بلوچستان کا یہ ساحل مشرق میں کراچی سے لے کر مغرب میں ایران تک پھیلا ہوا ہے۔ اس طویل ساحل پہ موجود بندرگاہوں میں گڈانی، ڈام، سومیانی، پسنی، ہنگول، کلمت، گوادر، سر اور جیونی شامل ہیں۔ پسنی فش ہاربر مکمل ہوگئی ہے اور گوادر بندر گاہ زیر تعمیر ہے۔ بلوچستان کے ساحل پر ماہی گیری کی کل 32 چھوٹی بڑی بستیاں آباد ہیں۔

ماضی میں گڈانی ساحل پر ایک پورٹ رہا، جہاں سے بین الاقوامی تجارت ہوتی تھی۔ 1972 میں یہاں شپ بریکنگ یارڈ تعمیر ہوئی اور شپ بریکنگ کے عروج کے زمانے میں یہاں 50 ہزار مزدور کام کرتے تھے۔ یہ مزدور غیر منظم تھے۔ انہیں رہائش کی کوئی سہولت نہیں دی گئی، صحت کی سہولیات، پنشن وغیرہ کچھ بھی تحفظ حاصل نہ تھا۔ ان کے اوقات کار اور حالات کار انتہائی ظالمانہ تھے۔ ان کا سارا کام جسمانی تھا اور انہیں کوئی بھی سائنسی اور تکنیکی سہولت میسر نہ تھی۔

ماہی گیری کی صنعت

ماہی گیری صدیوں سے بلوچوں کے لیے روزی کا اہم ذریعہ رہی ہے۔ ساحلی آبادیاں سمندری ماہی گیری کے پیشے پر گزارہ کرنے کے علاوہ کوئی اور ذرائع نہیں رکھتیں۔

دو چار فقرے ماہی گیروں کی ایک آدھ بغاوتوں پہ:
ماہی گیروں کی تحریکیں اور بغاوتیں صدیوں سے جاری ہیں۔ ایک بڑی اور ریکارڈ شدہ بغاوت 8 ستمبر 1590ء میں ہوئی تھی۔ اس زمانے میں امیر ملوک‘ قلات کا حکمران تھا۔ اور مکران میں درک زئی نو ہانی بلوچوں کی حکومت تھی۔ امیر مظفر شاہ حاکم مکران تھا۔ اُس نے ماہی گیروں پر ٹیکس بڑھایا دیا۔ ماہی گیروں نے زبردست مزاحمت کی۔ امیر مظفر نے قلات سے مدد طلب کی۔ چنانچہ امیر ملوک بہ نفس نفیس اپنے طبقے کی مدد کے لیے چھ ہزار لشکر کے ساتھ تربت کی طرف روانہ ہوا۔ مکران پہنچ کر اُس نے امیر مظفر کا لشکر بھی ساتھ لیا اور پسنی کی طرف روانہ ہوا۔ پیدارک کے مقام پر ماہی گیروں کے لشکر سے آمنا سامنا ہوا۔ شدید لڑائی میں ماہی گیروں کو شکست ہوگئی۔ اس لڑائی میں خان قلات‘ امیر ملوک بھی مارا گیا جسے سوراب لاکر دفنایا گیا۔

ہمیں اندازہ ہی نہ تھا کہ انسان کے ہاتھوں بد قسمت بنائے گئے بلوچ کے بھاگ دراصل بہت بلند ہیں۔ یہ بات ہمیں اس کے بانصیب سمندر کے خوب صورت جزیروں، بلند و بالا پہاڑوں، قسم قسم کی مچھلیوں، نوع بہ نوع سیپیوں اور بے شمار نباتاتی و حیوانی جانداروں، نظاروں، مناظر اور آثار قدیمہ کے حوالے سے معلوم ہوگئی۔ یہاں پہاڑوں چٹانوں کی کتنی قسمیں ہیں! یہاں معدنی دولت، جغرافیائی ماحولیاتی کیفیات کتنی ہیں! یہاں کھجوروں، اونٹو ں اور مچھلیوں کی کتنی زیادہ قسمیں ہیں!۔

ماہی معیشت کی حالت اب یہ ہے کہ پورے پاکستان سے پکڑی جانے والی مچھلی کا ایک چوتھائی حصہ صرف ایک ضلع، گوادر سے حاصل ہوتا ہے۔ صوبے کے ساحل کی 80 فیصد آبادی ماہی گیری کے سیکٹر سے وابستہ ہے جو 3015 ماہی گیری کی کشتیاں چلاتے ہیں اور تراسی ہزار میٹرک ٹن مچھلی سالانہ پیدا کرتے ہیں، جس کی مالیت 280 ملین روپے ہے۔1987ء میں ماہی گیری کی صنعت پر انحصار کرنے والی آبادی 162,000 سے زیادہ تھی۔ صرف گوادر میں فل ٹائم مچھیرے 1986ء میں 12,963 تھے اور 1995ء میں بڑھ کر 16,380 ہوگئے۔ 1997ء میں بلوچستان سے مچھلی کی برآمد ایک لاکھ بارہ ہزار میٹرک ٹن تھی اور اس سے 800 ملین روپوں کی آمدنی حاصل ہوتی تھی۔ پارٹ ٹائم مچھیروں کی تعداد کل آبادی کا 6.2 فیصد تھا۔ جب کہ ان لوگوں کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں جو ماہی گیری سے وابستہ دوسری سرگرمیوں سے متعلق ہیں مثلاً کشتیاں بنانا، جال مرمت کرنا، مچھلی بیچنا، برف بنانا اور ماہی کو خشک کرنا۔ (پھر بھی کہتے ہیں کہ بلوچستان ایک غیر طبقاتی سماج ہے، یا یہاں طبقات واضح نہیں ہیں)۔

یہاں 350 سے زیادہ اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ سمندری میملز میں ڈولفن،Porposises،Cetaceans اور وھیل مچھلی پائی جاتی ہے۔

لابسٹر(جسے بلوچی میں کیکٹ کہتے ہیں)، (سامن)،Trout Perch (مشکو، و بام)،Sowan,،Dotar Mangla،Bass Muska،Groakers،نشہ، پام فریٹ ،Herring(بلوچی:کر)،سارڈین(بلوچی: مربا)، Tuna(بلوچی:دون)،True Mackered(بلوچی: سوا)، ڈورا ڈو، مارلنگ، کیٹ فش، رے، سیکٹ، شارک، Dreas Vin Breams(بلوچی:کمپو)راک فش(بلوچی: گر)، شرمپ اورکریب اور چھوٹے chuki۔
اندازہ ہے کہ seaweeds, cephalopods,, clams, mussels اور sea urchins بہت ہی امکان والی کمرشل قسمیں ہیں۔

پام فریٹ مہنگی مچھلی ہوتی ہے اور اس کی قیمت 400 روپے فی کلو تک جاتی ہے۔

سمندری کچھوے بھی ساحلوں پر بچے پیدا کرنے آجاتے ہیں۔ بلوچ ساحلوں پر سبز اورOilve Riddie قسم کے کچھوے پائے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں جیونی، گنز اور اسٹولا جزیرہ اہم ہیں۔ (بلوچستان میں دو جزیرے ہیں: اسٹولا جزیرہ اور چرنا جزیرہ)۔
مچھلی پکڑنے کا زمانہ ستمبر سے مئی تک ہوتا ہے۔ ماہی گیر ایک ہفتہ سے تین ہفتہ تک سمندر میں حتیٰ کہ ایران، یو اے ای اور ہندوستان تک چلے جاتے ہیں۔ ماہی گیر مئی سے ستمبر تک مچھلیاں نہیں پکڑتے۔ اس زمانے میں جنوب مغربی مون سون سمندروں کو وحشی بنا دیتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔