بلوچ نیشنل موومنٹ سینٹرل کمیٹی کا تیسرا اجلاس چیئرمین خلیل بلوچ کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس شہدا کی یاد سے شروع ہوا۔ مرکزی کمیٹی اجلاس میں بلوچستان اور خطے کی سیاسی صورت حال، پارٹی امور، سیکریٹری رپورٹ، فنانس رپورٹ، بلوچ مہاجرین، لٹریری رپورٹ، ڈائسپورہ پر سیر حاصل بحث کیا گیا اور کابینہ کے گذشتہ اجلاس کے فیصلے اور چیئرمین کی طرف سے مرکزی کمیٹی ممبران کی نامزدگی توثیق کے لئے پیش کرنے کے علاوہ مختلف ایجنڈے زیربحث آئے اور مختلف فیصلے کئے گئے۔ سینٹرل کمیٹی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 2021 کو پارٹی کی قومی کونسل سیشن کا انعقاد کیا جائے گا۔
مرکزی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ پارٹی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں تاخیر پر میں بحیثیت چیئرمین مرکزی کمیٹی اور پارٹی کارکنوں سے معذرت خواہ ہوں۔ سیکورٹی مسائل سمیت مختلف مشکلات ہماری میٹنگ کی راہ میں رکاوٹ رہی ہیں۔ سیکورٹی مسائل میں اضافے کی وجہ سے تین بار میٹنگ کی تیاری کے باوجود ہم اجلاس منعقد کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ امید کرتا ہوں کہ آج کے مرکزی کمیٹی میں ساتھی بہتر پالیسی سازی کریں گے۔ ریاستی جبر، ساتھیوں کی شہادت سے آمدورفت میں مشکلات سے ہمارے کام کی رفتار متاثر ضرور ہوا ہے لیکن اس کے باوجود پارٹی امور کی انجام دہی میں کوئی بڑی کمی واقع نہیں ہوئی ہے کہ ہم یہ کہیں کہ پارٹی جمود کا شکار ہوچکا ہے۔ حالات کی جبر اور دشمن کی تباہ کاریوں کو مدنظر رکھ کر ہم نے یہ کوشش ضرور کی ہے کہ ساتھیوں کے نقصانات کم سے کم کرکے پارٹی امور انجام دیں اور موبلائزیشن کے عمل کو دیگر ممکنہ ذرائع سے انجام دیں اور ہماری رابطہ کاری قائم رہے۔ ہماری لئے نسبتا َمحفوظ تر محاذ ڈائسپورہ تھا جہاں آسانیاں زیادہ تھیں۔ بعض ممالک میں سیاسی آزادی نہیں اور بعض ممالک میں سیاسی پناہ کے لئے پیچیدگیوں اور ملازمتوں کے باجود ڈائسپورہ نے بہترین رزلٹ دی ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ہماری سرزمین کی محل وقوع ایسی ہے کہ ہمارے ارد گرد جنگیں چل رہی ہیں۔ ہم بہرصورت متاثر ہوسکتے ہیں لیکن یہ سب کی ذہنوں میں رہے کہ گذشتہ ڈیڑھ دہائی سے ہماری کوشش بلکہ پالیسی رہی ہے کہ ہماری تحریک اعلانیہ جنگوں یا پراکسی وار کے اثرات سے محفوظ رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم اس میں کامیاب رہے ہیں۔ لیکن اس باب میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جہاں مختلف متحارب دھڑے برسرپیکار ہوں، عالمی قوتوں کے اپنے اپنے مفادات کے لئے رسہ کشی جاری ہو، ایسے عالم میں سیاسی ورکروں کو اپنی طرف سے رائے سازی سے بہرصورت گریز کرنا چاہیے اور ازخود کسی بیانئے کا حصہ بننے یا کسی تصوراتی بیانئے سے متاثر ہونے کے بجائے اپنی قیادت پر اعتماد کرنا چاہیے، کیونکہ لیڈر شپ کی رائے، فیصلے اور پالیسی سے بالا تر ہوکر انفرادی سطح پر رائے سازی یا تصوراتی بیانئے کا حصہ بننے سے نہ صرف کارکن نقصان سے دوچار ہوجاتے ہیں بلکہ مجموعی طور پر اس کے اثرات پارٹی اور جدوجہد کے لئے بھی انتہائی ضرررساں ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کی قیادت نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ہم تصوراتی بیانئے کے بجائے زمینی حقائق کو مدنظر رکھ پالیسی ترتیب دیں۔ مغربی بلوچستان کے بارے میں پارٹی پر ایک سطحی تنقید چل رہا ہے۔ اس پر میں واضح کرتا ہوں کہ اگر آپ عملی طور پر کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو تصوراتی بیانئے سے قوم کا کسی طور سے بھلا نہیں ہوگا بلکہ نقصان ہی ہوگا۔ مشرقی بلوچستان ہمارا بنیادی اور مرکزی محاذ ہے جہاں ہماری تحریک کا وجود اور انحصار ہے۔ لیکن اس محاذ سے آپ کسی دوسری علاقے جہاں آپ کی موجودگی نہیں ہے، میں تحریک نہیں چلا سکتے ہیں۔ یہ آپ کی حکمت عملی پر انحصار کرتا ہے آپ آگے کس حکمت عملی کے تحت کام کریں گے۔ ذہنوں میں منفی تاثر ضرور ابھرتے ہیں یا انہیں ابھارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مشرقی اورمغربی بلوچستان کے حالات، ماحول اور زمینی حقائق میں زمین آسمان کا فرق موجود ہے۔ بعض اوقات ذیلی سطح پر کارکن اس تصوراتی بیانئے کا شکار ہوجاتے ہیں اور خود کو اس تصوراتی بیانیئے سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش بھی کرچکے ہیں جس سے نقصان ضرور ہوا ہے لیکن فائدہ ہمیں نظر نہیں آتا ہے۔ امریکہ ایران تضاد موجود ہے، افغانستان اور پاکستان کے درمیان تضادات موجود ہیں، بعض گروپ پاکستان کے ریاستی سرپرستی میں تربیت اور وسائل سے افغانستان کے خلاف صف آرا ہیں۔ جو گروپ پاکستانی وسائل، سرپرستی اور تربیت سے کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف لڑرہے ہوں، ان سے ہماری سیاسی، فکری اور نظریاتی تضاد موجود ہے۔ خواہ وہ مغربی بلوچستان میں ہوں یا مشرقی، وہ ہمیں نقصان دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان سے ہم متاثر ہورہے ہیں۔ اس بارے میں پارٹی بارہا اپنی پالیسی واضح کرچکا ہے۔ ہمارے اتحادی بھی اس بارے میں اپنی اپنی پالیسیاں واضح کرچکے ہیں۔ لیکن ایک بات میں واضح کرتا ہوں کہ بعض معاملات میں پارٹی پالیسی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہر ورکر کسی بھی تضاد کا انفرادی سطح پر حصہ بننے کی کوشش کرے۔ یہاں کچھ قوت چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں استعمال کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں اور ٹکڑی یا انفرادی سطح پر کوئی ایسی حرکت ہوتی ہے تو ہمارے کارکن متحارب قوتوں کے لئے آسان ہدف بن جاتے ہیں اور یہی کام ہوا بھی ہے۔
انہوں نے کہا مجموعی طور پر بلوچ جدوجہد میں ایک بہترین کوارڈینیشن وجود میں آچکا ہے اور جہاں ایک چپقلش اور رنجش کا ماحول تھا، وہاں آج ایک خوبصورت رشتہ وجود میں آچکا ہے۔ اس میں پارٹی اور پارٹی کے سیکریٹری جنرل کی کاوشیں نمایاں ہیں۔ ان تمام کارناموں کو ہم اپنی پارٹی کارکردگی سے باہر قرار نہیں دے سکتے۔ ایک انقلابی پارٹی کے وارث کی حیثیت سے ہم اپنے ساتھیوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم انقلابی رویے، انقلابی عمل سے انقلابی ضروریات پورا کریں تاکہ ہم ایک کامل انقلابی عمل کو آگے بڑھا سکیں اور خود کو انقلابی روپ میں ڈھال سکیں۔ جب حالات میں تغیر و تبدل آتا ہے تو ہم پارٹی، پارٹی اتحادیوں کے صلاح و مشورے سے انقلابی فیصلے کرنے کے قابل ہوجائیں۔ کچھ عرصے سے دوستوں کے ذہنوں میں کچھ سوال اور خدشات جنم لے چکے ہیں کہ تنظیم کاری رک چکا ہے حالانکہ اس دوران میں نے کئی خود آن لائن میٹنگوں میں حصہ لیا ہے اور مشکل حالات میں رابطہ کاری کا عمل جاری رکھا ہے۔ پارٹی کے لئے مشکل مرحلے ضرور آتے ہیں لیکن پارٹی نے ان مشکلات کی سدباب کے لئے کوشش ضرور کی ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا قیادت اور کارکنوں کی قربانی اور شبانہ روز محنت بلوچ نیشنل موومنٹ کو قوم یا عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے والے فورمز کی نظروں میں دیگر ہیرارکی پارٹیوں یا دعویٰ داروں سے ممتاز بناتا ہے تو ہماری ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ معاملات پارٹی کے کسی شعبے یا پالیسیوں سے متعلق ہوں، جب کوئی بھی ادارے سے باہر رائے سازی کی کوشش کرتا ہے تو میں اسے پارٹی کے خلاف زہر افشانی اور منفی عمل سمجھتا ہوں۔ بعض اوقات ہمارے رویوں میں غیر پارلیمانی اور غیر سیاسی تلخی نظر آتا ہو تو ہماری پارٹی کے اقدار یا ادارے کے پلیٹ فارم پرکام کرنے کی پالیسی کونقصان پہنچتا ہے۔ یا باربار ساتھیوں کی جانب سے ایک نئی مباحث سامنا آرہا ہے کہ مغربی بلوچستان کے بارے میں پارٹی پالیسی واضح نہیں ہے۔ دراصل یہ ہماری سیاسی مخالفین کی جانب سے ایک پروپیگنڈہ تھا جنہوں نے اس مدعے کی اتنی تشہیر کی کہ اس سے ہمارے ساتھیوں میں سے چند ایک نے یہی تاثر لیا ہے کہ شاید پارٹی نے اپنے بنیادی پروگرام سے انحراف کیا ہے۔ اس پر میں واضح کرتا ہوں کہ ہم سب کے لئے پارٹی منشور ہر چیز پر مقدم ہے۔ ماسوائے قومی کونسل سیشن کے کوئی اور فورم پارٹی کے بنیادی اساس میں تبدیلی کا مجاذ نہیں۔ شاید بعض اوقات رابطہ کاری میں مشکلات کی وجہ سے ہمارے ساتھیوں یا ذیلی سطحوں پر ایسے کسی خدشے نے جنم لیا ہو۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اسے رفع کریں۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ جب بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کے موجودہ مرحلے کو ہم دیکھتے ہیں تو ہماری لیڈرشپ نے بلوچ سیاست کو جونئی شکل اور سمت دی ہے، سیاست میں جو بھی پیش رفت اورنشیب و فراز آئے ہیں وہ سیاسی عمل کا حصہ ہیں۔ اس کے ساتھ تغیر و تبدل وقت کا جزولاینفک ہوتے ہیں جو آپ کی حکمت عملیوں میں بھی بروقت نظرثانی کا تقاضا کرتے ہیں۔ آج نہ صرف ہماری سرزمین کے حالات میں تبدیلی واقع ہوئی ہے بلکہ پورا خطہ تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ اس لئے ہمارا لائن آف ایکشن تو وہی ہے لیکن حکمت عملیوں میں تبدیلی ہوئی ہے۔ اسے بعض دوست جمود سے تعبیر کرتے ہیں۔ میرے خیال میں سیاسی ارتقاء اور تحریک ایک زندہ شئے ہے۔ جب تک وہ مجموعی طورپر جمود کے بجائے روانی اور متحرک ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا سیاسی ارتقاء میں جمود نہیں حرکت ہے۔ ہم بلوچ قومی تحریک کے کسی بھی پہلو کو بلوچ سیاسی ارتقائی عمل سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے ہیں یا اسے ہم الگ تسلیم نہیں کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ حالات کے جبر کو ہم کام میں سست رفتاری کا جواز نہیں بنا سکتے لیکن وقت و حالات کے ساتھ حکمت عملیوں میں تبدیلی لازمی امر ہے۔ ایسے وقت میں جب ہم کھلے عام کام نہیں کرسکتے ہیں تو متبادل کے طور پر ہماری پالیسی اور لٹریچر پہنچ جاتے ہیں۔ مخصوص رابطے کے ذرائع استعمال ہوتے ہیں۔ بعض اوقات وسائل کی کمیابی بھی آڑے آتا ہے۔ جب ہم اپنے نقصانات کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس میں رابطے کے ذرائع کی غیر ضروری یا غیر محتاط استعمال سرفہرست نظر آتا ہے۔ اس سے ہم نے نقصان اٹھایا ہے۔ اس کے بعد ہم نے کوشش کی ہے کہ رابطوں کے طریقہ کار میں تبدیلی لائیں اور محفوظ ذرائع استعمال کریں۔ اس کے لئے ناکافی وسائل کی وجہ سے ہمیں زونل سطح پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن ہمارے رابطہ کاری میں کمی سہی تسلسل نہیں ٹوٹی ہے۔ حقائق کو مدنظر رکھ کر ہم سرزمین پر اپنی بعض سرگرمیاں مخفی رکھے ہوئے ہیں اور ساتھیوں کو سختی سے پابند کی ہے کہ انہیں افشا کرنے سے پرہیز کریں تاکہ ساتھیوں کی سیکورٹی ممکن ہو۔ کیونکہ ایک مختصر مدت میں ہم نے بہت سے دوست کھوئے ہیں۔ ہمارے پاس کیڈر کی کوئی کمی نہیں لیکن ہم مزید نقصان کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہماری حفظ ما تقدم اقدامات سے سیاسی سفر کی رفتار میں کمی کے باوجود تسلسل ہے اور ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ بہرکیف اس پر رائے مختلف ہوسکتے ہیں لیکن ہم اسے قطعاً جمود قرار نہیں دے سکتے ہیں۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ ہماری جدوجہد نیشنلزم کے واضح نظریے پر قومی آزادی اور قومی مفادات کے لئے ہے۔ دنیا کے طاقتوں کی منشا اور مفادات خواہ کچھ بھی ہوں، کوئی ہمیں کتنی ہی قوت سے متاثر کرنے کی کوشش کیوں نہ کرے لیکن ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ ہم کسی طاقت کی رضاجوئی یا کسی طاقت کے مفادات کے لئے جدوجہد نہیں کررہے ہیں کہ ہماری پالیسیوں میں استحکام کے بجائے بے جا لچک ہو۔ پارٹی قیادت، کارکنوں اور قومی جدوجہد میں شامل کارکنوں اور کیڈر کے لئے قومی مقصد ہر شئے پر مقدم ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی آزادی کی تحریک طویل المدتی اورمشکلات سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس میں سطحی پالیسی اور جلد نتائج کا توقع انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے۔ بلوچ قومی کاز سے جڑے کارکنوں کو جلد نتائج ملنے جیسے سطحی سوچ سے بالاتر ہونا چاہیے۔ اگر کوئی جلد نتائج کی کوشش کرتا ہے تو سیاسی ارتقا کے قوانین اس کے نقصانات واضح کرتے ہیں۔ موجودہ دنیا میں آزادی کا تصور اتنی کامل نہیں کہ ہم کسی سے یہ توقع رکھیں کہ وہ انسانی اقدار کے لئے ہماری آزادی تسلیم کرے۔ سوویت یونین اور اس کے بعد دیگر طاقتوں کے مداخلت سے ہم سبھی واقف ہیں۔ ان کے اثرو رسوخ واضح ہیں۔ آج کے طاقتوں کی دلچسپاں نمایاں ہیں۔ تاریخ اورتجربہ ہمیں یہی بتاتے ہیں نعرے خواہ کچھ بھی ہوں، طاقتوں کے لئے اپنے مفادات مقدم ہوتے ہیں۔ ہماری بحیثیت ایک ذمہ دارپارٹی کے کوشش یہی ہے کہ بلوچ قومی پالیسیاں کسی عالمی قوت کے شرائط پر نہیں بلکہ بلوچ قومی مفادات سے ہم آہنگ ہوں۔ ہمارے سیاسی عمل کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بلوچ کاز کے لئے کسی بھی طاقت کے ہم آہنگ مفادات کی صورت میں بلوچ قومی شرائط کا پلہ بھاری رہے۔ ہماری محل و وقوع کی اہمیت دنیا کے لئے نہ کل کم تھی نہ آج کم ہے۔ یہ ہماری سیاسی بصیرت پرانحصارکرتا ہے کہ ہم دنیا کو اس جانب کن شرائط پر راغب کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بلوچ نیشنل موومنٹ، بلوچ نیشنل موومنٹ کے اتحادیوں کا اولین فریضہ ہے وہ سیاسی عمل سے جڑے تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں میں وقت اور تحریک کے تقاضوں کے مطابق وسعت اور اضافہ پید اکریں تاکہ ہم ایک انقلابی معیار کے تحت قومی آزادی کے حصول میں کامیاب ہوسکیں۔اس باب میں تحریک کے اندر ہمیں سطحی کوششیں یا قومی شرائط پر کمپرومائز کرنے کی سطحی ذہنیت نظر آئی ہے لیکن بلوچ جدوجہد کے موجودہ مرحلے میں پارٹی اور پارٹی اتحادیوں کی توانا قوت نے کسی بھی ایسی کوشش کو ناکام بنا دی ہے۔ اسے ہم اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اس عمل میں تلخ وترش مرحلے آتے ہیں۔ نشیب و فراز آتے ہیں۔ بسااوقات غیر متوقع معاملات سامنے آتے ہیں۔ ہمیں قومی مقصد کی حصول کے لئے بعض تلخ گھونٹ پینے پڑتے ہیں۔ لیکن وسائل کی کمیابی، مشکلات اور صعوبتوں کے باوجود ہماری مجموعی کاوشوں کا بنیادی مقصد اداروں کا استحکام ہونا چاہئے نہ کہ دراڑ پیدا کرنے کی روش کی حوصلہ افزائی ہو۔ آج ہمیں جتنی کمزوریاں نظرآتی ہیں لیکن سرزمین کے حالات اوردشمن کی بربریت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ پارٹی کی ہمیشہ کوشش یہی رہی ہے کہ ہمارے تمام محاذوں پرکام کرنے کی صلاحیت میں وسعت پیدا ہو، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حقائق کی روشنی میں فیصلہ کرنے کے اہل ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بلوچ نسل کشی کررہا ہے۔ پاکستان ہماری سرزمین پر اپنے پنجے مزید گھاڑنے کے لئے میگا منصوبے روبہ عمل لاچکا ہے۔ ان سے بلوچ کو نقصان ہو رہا ہے۔ اس پر کسی کو شک نہیں لیکن دنیا کو بھی سوچنا چاہئے کہ سی پیک جیسے منصوبے خطے اور دنیا پر کیسے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ بحر بلوچ، بلوچ سرزمین اور بلوچ کی فضائیں دنیا کی ضرورت بن چکی ہیں۔ لیکن ایسے منصوبوں کی کامیابی کی صورت میں بلوچ کا نقصان اپنی جگہ لیکن عالمی قوتیں بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکتی ہیں۔